برہمن جو کہ ہندوؤں میں سب سے اعلی اور برتر ذات مانی جاتی ہے۔ مگر آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ ہندوؤں کے قدیم شاستروں مثلاً منو اور رزمیہ نظموں انہیں راجاؤں اور امرا کے مقابلے میں نیچ ذات بتایا گیا ہے۔ برہمنوں کے پوتر و مقدس اور اعلیٰ نسل کا ہونے کے دعوے کو شمالی ہند کے علاقہ میں تسلیم نہیں کیا جاتا تھا اور بدھ مت سے پہلے لکھی گئیں شاستریں بھی اس کا واضح اشارہ کرتی ہیں۔ ان شاستروں کے مطابق شمالی مغربی ہند کے علاقوں کے لوگ مشرقی علاقہ کے لوگوں کی نسبت قدیم رسوم پر نہایت سختی سے کار بند تھے۔ ان کے مطابق بہترین کامل علاقہ کوروں اور پنجالوں کا ہے نہ کہ کاسیوں اور کوسلوں کا اور نہ ہی ابتدائی کتابوں میں کشتریوں کے مقابلے میں برہمنوں کی مقدس و برتر نسل کے وہ دعوے ملتے ہیں بعد جس سے بعد کی کتابیں بھری ہوئی ہیں ہے۔ کھشتری اور والیاں ریاست اور ان کے مربی اور محسن تھے۔ انعام و اکرام کے لیے برہمن ہمیشہ ان سے ہی وابستہ رہتے تھے۔ بعد میں جب برہمنوں نے مقدس و برتر ذات ہونے کا دعویٰ پیش کیا تو کشتریوں نے مخالفت کی تھی۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جینیوں کی تمام کتابوں میں برہمنوں کو امرا سے کمتر پیش کیا گیا ہے۔ بعض مذہبی رہمنا جو معاشرے تقدس اور اعلیٰ مقام رکھتے تھے وہ کسی نہ کسی راجا کے درباروں سے وابستہ رہے اور وہ ان راجاؤں سے پست شمار کئے جاتے تھے۔ بدھ مت کے عروج کے زمانے کی کتب سے اندازہ ہوتا ہے کہ تمام لوگ جن میں راجہ، امیر عہدہ دار، سوداگر، کاری گر اور کسان بھی برہمن کو اپنے برابر کا سمجھتے تھے۔ برہمنوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ جب کہ قربانی کرنے والوں کی تعداد کم تھی۔ اس وہ ہر طرح کے پیشے اپناتے تھے۔
پروفیسر بھنڈارکر کا کہنا ہے کہ برہمنوں کو اراضی کے عطیہ کا ذکر دوسری صدی قبل عیسوی کے کتبات میں ملنا شروع ہوتا اور یہ سلسلہ چوتھی صدی عیسوی تک اس میں اضافہ ہوتا رہتا رہا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ برہمنوں کا اثر و رسوخ بڑھ رہا تھا۔ اس کے بعدکے کتبات میں گپت خاندان کے دور میں اس میں مزید ترقی ہوتی رہتی ہے۔ کیوں کہ کتبات کے مطابق انہوں نے اشو مید اور قربانی کے ستون کی تعمیر اور سورج مندر میں روشنی کے لیے اور قربانی کی رسوم کے لیے برہمنوں کو وسیع اراضی ان کے زیر نگرانی مندروں کو دیے جانے کا ذکر ہے۔ لیکن اس سے قبل چار صدیوں تک (200 ق م سے 100 عیسویں) تک کسی مندر یا دیوتا یا یگیہ کی ادائیگی کے لیے برہمنوں کو کسی عطیہ دینے کا ذکر کسی کتبہ میں نہیں ملتا ہے۔ اگرچہ ایسے بہت سے دانوں کا ذکر ملتا ہے جو کہ راجاؤں، سرداروں، سوداگروں، سناروں، صناعوں اور عام لوگوں نے برہمنوں کو دیئے تھے۔ لیکن کسی دیوتا کی بھینٹ یا کسی یگیہ کے لیے کسی دان برہمنوں دیے جانے والے دان کا ذکر نہیں ملتا ہے۔ ابتدا میں ان کتبات کی زبان ایک قسم کی پالی تھی جو کہ دیسی بھاکا تھی اس میں کتبہ ملے ہیں۔ یہ زبان اس وقت علمی زبان تھی اور بعد میں ملنے والے کتبات کی زبان سنسکرت ہوگئی تھی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وقت علمی کاموں میں سنسکرت استعمال کی جانے لگی تھی۔ بدھوں کے دور میں برہمنی مذہب برابر موجود رہا۔ لیکن اس کی کوئی اہمیت نہیں رہی تھی اور نہ ہی ابتدائی کتبات میں برہمنوں کا ذکر احترام و تقدس کے ساتھ ملتا ہے۔ بقول پروفیسر ہاپکنس کے برہمنی مذہب سمندر کے بیچ میں ایک جزیرے کی طرح رہا مگر یہ ایک چھوٹے سے گروہ کا مذہب تھا۔ برہمنوں کی آبادیاں اگرچہ جگہ جگہ پھیلی ہوئی تھیں۔ مگر برہمنی مذہب کو دوبارہ عروج حاصل کرنے میں بہت عرصہ لگا۔
بدھ مت کو موریہ خاندان کے اشوک نے پھیلایا اور اسے وسعت دی۔ اشوک بھارت کا سب سے برا سمراج تھا اور اس نے دنیا بھر میں بدھ مت کو پھیلانے کی کوشش کی۔ گو یہ خود بدھ مت کو مانتا تھا لیکن اس نے برہمنوں کو بھی عطیات دیے۔ موریہ خاندان کا خاتمہ آخری راجہ بریہدر کو اس کے سپہ سلار پشیامترا قتل کرکے تخت پر قبضہ کرکے سنگ خاندان کی ۵۸۱ ق م میں بنیاد رکھی۔ پشیامترا نے بدھوں کے خلاف کاروائیاں کیں اور اس نے بدھوں کی خانقاہوں کو جلایا اور راہبوں کا قتل عام کیا۔ اس کے بعد کنوایا اور اندھرا خاندان تخت پر بیٹھے جو کہ ہندو تھے۔ لہذا اس دور میں برہمنی اثر و رسوخ میں اضافہ ہوا۔ کیوں کہ انہوں نے ہندو مذہب کے احیاء کی کوششیں کیں۔ ان کے دور میں ہی یون (یونانیوں، شاکا (سیتھی)، پلو (پاتھی)، کشان اور ہونوں (ہنوں) کے حملے شروع ہوگئے اور آنے والی کئی صدیوں تک جاری رہے۔ یہ حملے برہمنی مذہب کے تقویت کا باعث بنے۔ ان حملہ آورں نے رفتہ رفتہ ہندو مذہب قبول کرکے براہمنوں کی بالادستی قبول کرلی۔ اگرچہ ان میں سے بعد بدھ مت رکھتے تھے اور کچھ مثلاً کنشک اور ہریش جیسے راجاؤں کا مذہب بدھ مت تھا۔ مگر اس کے باوجود برہمنی اثر و رسوخ برابر بڑھتا رہا۔ یہ طاقت ور سمراج ہونے کے باوجود برہمنی اثر و رسوخ کو ختم کرنے میں ناکام رہے۔ یہاں تک ان کی بعد کی پیڑیوں نے ہندو مت قبول کرلیا۔ بقول جواہر لال نہرو کے ان حملہ آوروں کے نام غیر ملکی ہوتے تھے بیٹا یا بیٹے کا نام ہندو ہوتا تھا۔
چوتھی صدی عیسوی میں وسط ہند میں گپت خاندان تخت پر بیٹھا۔ اس خاندان نے سب پہلے سنسکرت کو علمی اور درباری زبان کے لیے استعمال کیا تھا۔ یہ دور اس لیے بھی ممتاز ہے کہ ان دور میں سنسکرت کو ادبی زبان کے طور پر استعمال کیا گیا اور سنسکرت کے ادبی شہکار تصانیف کئے گئے۔ سنسکرت ویدی زبان نہیں تھی۔ البتہ یہ وید سے ہی نکلی تھی ویدی زبان میں مقامی زبانوں کے الفاظوں کے خزانے سے فائدہ اٹھایا اور اس طرح اس میں وسعت پیدا ہوئی تو سنسکرت وجود میں آئی تھی اور یہ اس قابل ہوئی کہ علمی اور درباری زبان بن سکے۔ گپت ہندو تھے اور انہوں نے ہندو مذہب کی ترقی و ترویح کے لیے بہت کوششیں کیں۔ اس لیے انہوں نے برہمنوں اور ان کے مندروں کے لیے بڑے بڑے عطیات دیے۔ جن کا ذکر مختلف کتبات میں ملتا ہے۔ گپت دور ہندو مذہب اور ادب کی تاریخ کا سنہرا دور ہے۔ تاہم اس وقت بھی برہمنوں کو مقدس و برتر اور اعلیٰ نسل مانا جاتا تھا اور راجاؤں کے محتاج رہے۔
برصغیر میں سیاسی طاقت کے مرکز بدلتا رہا ہے۔ پہلے یہ مرکز پنجاب، پھر کوسلہ، پھر یہ مگدھ ہوگیا تھا۔ بدھ مت جب ذوال پزیر ہوا تو برہمنیت کو نہیں بلکہ جین مت کو عروج حاصل ہوا تھا اور اس نے جنوبی اور وسط ہند میں زیادہ ترقی کی۔ شاید جین برہمنیت کو زیر کر دیتا مگر برہمنوں کی خوش قسمتی تھی کہ اس وقت وسط ایشیا کے قبائل کے حملے برصغیر پر ہورہے تھے۔ ان غیر ملکیوں نے مقامی حکومتوں کو تہہ بالا کردیا اور اپنی حکومتیں قائم کرلیں تھیں۔ ان غیر ملکیوں نے جلد ہی نے برہمنی مذہب قبول کرلیا اور برہمنوں کی بالادستی کو بھی مان لیا۔ برہمنوں نے اس کے بدلے انہیں گوتریں دیں اور ان کا شجرہ نسب دیومالائی شخصیتوں سے جوڑ دیا اور یہ راجپوت کہلائے۔ کشتریوں نے ان کے اختیار کی مخالفت کی تھی اس لیے مہابھارت کے ایک قصہ کی رو سے لوگوں کو باور کرایا گیا کہ کشتریوں کو ان کے ظلم و ستم کی وجہ سے پرسورام نے اکیس حملوں میں قتل کردیا تھا اور موجودہ کھشتری ان کی بیویوں اور برہمنوں کے ملاپ سے پیدا ہوئے ہیں اس لیے اب کھشتری باقی نہ رہے۔ کشترویوں میں دم و خم نہیں رہا تھا اس لیے انہوں نے بھی ہتھیار ڈل دیے۔ کھشتریوں کی جگہ انہوں نے راجپوتوں کو جنہوں نے ان کی بالادستی کو قبول کرلیا تھا ان کی ذات بالا مگر برہمنوں کے بعد کا درجہ دے دیا۔
چوتھی اور پانچویں صدی عیسوی کے درمیان براہمنی مذہب میں تیزی سے ترقی ہوئی اور یہ شمالی ہند میں پھیل نے کے بعد وسط ہند اور جنوب کی طرف بڑھا۔ وہاں بھی اس کو ترقی نصیب ہوئی۔ کیوں کہ وہاں بھی راجپوتوں نے اپنی حکومتیں قائم کرلیں تھیں۔ لہذا اس کو اس قدر عروج حاصل ہوا کہ اس نے پلٹ کر شمال سختی سے اپنے پنجے گاڑھ دیے۔ مگر اسے حقیقی فتح دلانے میں کمارل بھٹ اور شنکر اچاریہ (700 تا 839ء) کی کوششوں سے حاصل ہوئی۔ یہ دونوں جنوب میں پیدا ہوئے تھے اور جین مت اور بدھ کے سخت خلاف تھے اور ان کی مورتیوں مندروں کو تباہ اور راہبوں کو قتل کروانے میں ان کا پورا ہاتھ رہا۔ ان دونوں نے شمال میں بھی ہندو مت کو ترقی دینے میں بھی اہم اور فیصلہ کن کردار ادا کیا اور ان کی کوششوں سے مقامی لوگوں نے پرہمنی مذہب کو قبول کرلیا۔ بآثر طبقہ یعنی دولت مند اور علما پہلے پہلے بدھی یا جینی مذہب رکھتے تھے۔ گو انہوں نے پرہمنی مذہب کے دوبارہ احیا میں ہندو مت اختیار کرلیا تھا۔
مذہبی کشمکش میں ویدی دیوتا، ویدی زبان اور ویدی الہیات اور ویدی حقوق پس پشت چلے گئے اور عوام کی خوشنودی اور حمایت حاصل کرنے کے لیے جو کہ ویدی دیوی دیوتاؤں کی پرستش نہیں کرتے تھے کی جگہ عوام کے نئے دیوتاؤں کی پوجا پاٹ ہونے لگی۔ ابتدا میں خونی یگیہ گاہے بگاہے اب بھی جاری تھا مگر یہ مہنگا عمل تھا اور عام شخص اس کا خرچہ برداشت نہیں کرسکتا تھا اور اس کے لیے برہمنوں کو راجاؤں کے دربار سے وابستہ رہنا پڑتا تھا اور یگیہ کی رسم کی وجہ سے عوام میں برہمنوں کی اجارداری خطرے میں تھی۔ اس لیے خونی یگیہ ختم کرکے دیوتاؤں پر چڑھاوے کا دستور جاری کیا۔ جو کہ اب نئے دیوتاؤں کے لیے کیا جانے لگا۔ لہذا اس لیے نئی پوجا پاٹ کے لیے برہمنوں کے لٹریچر کو نئے سانچوں میں لکھنا پڑا۔ پرانے قصوں میں تخریب کرکے ان کی روایات کے مطابق ڈھالیا گیا اور اس طرح وہ مقبول عام دیوتاؤں کے حامی اور محافظ بن گئے۔ اس کے لیے انہوں نے مختلف گرنتھ اور پران لکھے گئے۔ قدیم گرنتھوں میں ترمیم یا اضافہ کیا۔ اس کا اندازہ اس لگایا جاسکتا ہے کہ مہابھارت جب پہلے پہل لکھی گئی تو اس میں آٹھ ہزار اشلوک تھے۔ دوبارہ نظر ثانی میں یہ تعداد چوبیس ہزار ہوئی اور اب اس میں دو لاکھ اشلوک ہیں۔ نئے دیوتا جن کی اب پوجا وہ کر رہے ان کو مستحکم کرنے کے لیے انہوں نے پران تصنیف کیے۔ جن کہ ذریعہ ان دیوی اور دیوتاؤں کے پوجا کو مستحکم کیا۔ تقریباً 1300ء میں یہ پران لکھنے شروع ہوئے اور یہ سلسلہ 1500ء تک جاری رہا۔ اس دوران بے شمار پران تصنیف کئے گئے۔ جن میں وشنو پران، شیو پران، گنش پران، بھاگوت پران، اسکندر پران، مارکنڈے پران، بہوشٹ پران، برہم پتی ورنگ پران، کورم پران، پدم پران، برہم پران، بایو پران، گڑر پران، یتسہ پران، اگن پران، بارہ پران، نارہ پران اور مچھ پران زیادہ اہم ہیں۔
اب ویدی دھرم نہیں بلکہ نیا دھرم ہندو مت تھا جس کا انحصار ویدوں پر نہیں بلکہ مہابھارت، رامائن اور بالاالذکر اٹھارہ پرانوں پر ہے۔ برہمنوں ان کتابوں میں کثرت سے مبالغہ اور غلط بیانی سے کام لیا اور اس طرح انہوں نے معاشرے اور اپنی حثیت کو بالکل غلط انداز میں پیش کیا۔ ان کی کتابوں میں جس مذہب اور رسوم کا ذکر ہے وہ کسی بھی زمانے میں ہندوستان کی مختلف اقوام کا واحد مذہب نہیں تھا۔ بدھ مت سے پہلے جو عقلی اور غیر مذہبی تحریک تھی پنڈتوں اور برہمنوں نے اسے بالائے طاق رکھ دیا تھا۔ یہ پران کو مختلف دیوتاؤں کے پجاریوں اور پنڈتوں نے اپنے دیوتا کی برتری اور دوسرے دیوتاؤں پست ظاہر کرنے کے لیے لکھے ہیں۔ لیکن ہندو ان تمام پرانوں کے دیوتاؤں کو مانتے تھے اور پوجتے ہیں۔ برہمنوں نے اپنے آبا د اجداد کے دیوتاؤں اور عقائد کو چھوڑ کر مقامی عقائد و مذہب اختیار کرلیا تھا۔ انہیں ویدی دیوتاؤں پرواہ نہیں رہی اور نہ انہوں نے صرف یہ خیال رہا کہ لوگ کس دیوتا کی پیروی کرتے ہیں اور کس دیوتا نہیں۔ ہمہ اوست (وحدت الوجود) کے سوا ہر قسم کا فلسفہ مذہب سے خارج کردیا گیا۔ جس کے مطابق مختلف دیوی دیوتا سب ایک ہستی کے مختلف روپ بن گئے۔ اس طرح برہمنیت کو برصغیر میں عروج حاصل ہوگیا تھا۔
برہمنیت کو فیصلہ کن فتح ہوچکی تھی اور برہمنوں کا قانون، معاشرتی اداروں میں ان کا حکم، ذات پات کے اصول کو تسلیم کرلیا گیا اور خود ان کی ذات مسلمہ عزت و تقدس مل گیا۔ درس و تدیس اور ادب کا حق ان کی ذات کے لیے مخصوص کردیا گیا۔ ذاتوں کی سختی سے انہوں نے حدودیں قائم کیں۔ جس میں بیٹی اور روٹی کے اصول قائم کیا کہ ہر ذات کو کس ذات کو کس ذات سے رشتہ اور روٹی کھانا ہے اور اس کو ٹورنے والا ذات سے باہر ہوجاتا تھا۔ مگر برہمنوں کے ایک قلیل اور تنزیل پزیر گروہ نے ویدی علوم کے ٹمٹماتے ہوئے دیے کو روشن رکھا۔ یہی وجہ ہے ویدیں اب محفوظ ہیں اور ان کا تقدس قائم ہے۔ تاہم اب یہ لوگوں کے فہم سے بالاتر ہیں