پالتو جانوروں اور سدھائے ہوئے جانوروں میں فرق ہوتا۔ شیر، طوطے اور دوسرے جانوروں کو سدھایا جاسکتا ہے۔ مگر انہیں پالتو نہیں پنایا جاسکتا ہے۔ علم حیوانات کی رو سے پالتو جانور وہ کہلاتے ہیں جن کی صورت و شکل اور عادتوں میں اتنی تبدیلی ہوجائے کہ وہ چھوٹ کر اگر جنگل جلیں جائیں تو وہ کئی پشت تک اپنی نوع کے جانوروں مختلف رہیں گیں۔ ویسے تو جو بھی جانور کو پالا یا سدھایا جائے وہ جنگل میں یہ آزادنہ زندگی بسر نہیں کر سکتا ہے سوائے ایک سور کے۔ اس طرح پالتو جانور کتا، بلی، گھوڑا، اونٹ، رینڈیر، گائے، بھینس اور گدھا پالتو جانور ہیں۔ مگر باز، چیتا، شیر، ہاتھی وغیر ہ پالتو نہیں ہیں۔ دوسری بات یہ ہے جب لوگ جانور پالتے ہیں تو یہ ان کا عام شغل اور پالتو جانورں سے مستقل آمدنی ہوتی۔
خانہ بدوش کی خصوصیات عادات ان قوموں سے مختلف ہوتی ہیں جو کہ چھوٹے جانور مثلاً سور، مرغیاں وغیرہ نہیں پالتے ہیں۔ گلہ بانوں نے ایک مخصوص اقتصادی، معاشرتی اور مذہبی تہذیب ان کی پیدا کردہ ہے جو کے قدیم زمانے میں وسط ایشیا اور شمالی ایشیا کے خشک میدانوں میں غذا کی تلاش میں مارے مارے پھرتے تھے اور خانہ بدوشی کی زندگی بسر کیا کرتے تھے۔ وہ بڑے بڑے جانور ان میں رینڈیر، گھوڑے، گدھے، بھیڑ اور بکریوں کے مالک ہوا کرتے تھے۔ البتہ کتا شہری بھی اور خانہ بدوش سب پالتے ہیں۔ اس طرح وہ گائے بھینس وغیرہ بھی نہیں پالتے تھے۔ ابتدا میں یہ جانور بھی پالے نہیں بلکہ سدھایا جاتے تھے۔ ایک اہم بات ہے ترقی یافتہ تہذیبوں میں سانڈ کو اس کے بڑے بڑے سینگوں کی وجہ سے جسے وہ چاند سے نسبت دیتے تھے پسند کیا جاتا تھا اور اسے مقدس سمجھا جاتا تھا۔ ترقی یافتہ معاشرے میں گائے اور بھینس کی افادیت اس کے دودھ اور گوشت کی وجہ سے محسوس ہوئی تو انہوں اسے پالنا شروع کیا، یہ جانوروں کو کھیتوں کے قریب باڑوں میں رکھنے لگے۔ یہ خانہ بدوش جو جانوروں کو پالتے تھے یہ ان جانوروں کے گلہ خود بھی مارے مارے پھرنے کے عادی تھے۔ ایک تو چارے کی کمی اور دوسرا خشک سالی اور ان دونوں کا تقاضہ تھا کہ غذا کی تلاش میں دور دور تک پھریں۔
کتا جو کہ شروع سے پالتو تھا۔ ہم اسے خانہ بدوشوں کی ابتدائی منزل کہہ سکتے ہیں۔ یوں تو کتوں کو سدھانا اور پالنا بہت سی تہذیبوں میں مشترک تھا اور اب بھی ہے۔ لیکن کتوں کی ایک خاص استعمال یہ تھا کہ اسے برفانی علاقوں میں کتا جو کام کرتا ہے وہ وہ نہ شکار کا، نہ چوکی دار کا اور نہ رفاقت کا بلکہ نقل و حرکت کا تھا۔ جس سے خانہ بدوشی زندگی میں مدد ملتی تھی۔ اس لیے مانتا پڑے گا کہ کتوں کو سدھا کر ان سے برفانی گاڑیاں کھنچوانا خانہ بدوشوں کی معیشت کی پہلی کوشش یا پہلی منزل ہے۔ پالتو کتوں کے مورث کئی جانور قرار دیئے جاسکتے ہیں پہلا شمالی بھیڑیا جس کے نسل سے ہماے ہاں عام کتے ہیں۔ دوم گیڈر جو چھوٹی قسم کے پالتو کتوں کا مورث۔ دنیا کہ تمام ملکوں میں صرف شمالی ایشیا اور شمالی امریکہ کی ابتدائی قوموں نے کتوں کو شکار اور چوکیداری کے نہیں بلکہ برفانی گاڑیوں کو کھنچنے کے لیے سدھایا گیا تھا۔ آثار قدیمہ کی شہادت سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر کتوں کو پالنا نہیں تو انہیں سدھانا عہد متاخر ہجری دور کے ابتدائی دور میں شروع ہوگیا تھا۔ اسکنڈیا نیویا میں ایریٹیویے کے کیوکن، موڈنگر، کنڈا اور املگموس میں کتے کی ہڈیاں پائے جانے کے بعد اس میں ذرا شبہ نہیں رہتا، موگھم (پرتگال) کے آخری کیپسی دور کے متعلق جو معلومات حاصل ہوئیں ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ کتوں کو پالنا پہلے ایک جنوبی ملک میں شروع ہوا تھا۔ لیکن کتوں کو پال کر اس سے نقل و حمل کا کام لینا اس زمانے میں شمالی علاقہ تک محدود ہوگا۔ اس لیے کہ یہ علاقہ سال کے بڑے حصے میں برف سے ڈھکے رہتے ہیں۔ کتے پالنے والی قوموں میں سائیبریا کہ سموئی، تنگوئی اور شمالی امریکہ کے اسکیموں تھے۔
خانہ بدوشوں کی معاشی ضرورت کا سارا دارو مدار جانوروں پر ہوتا ہے۔ ان لوگوں کی غذا زیادہ تر گوشت، دودھ اور پنیر وغیرہ پر منحصر ہوا کرتی تھی۔ اگر ان کے جانوروں کو چارہ نہیں ملے یا وہ بیمار پڑھ جائیں تو ان کے مالکوں کی زندگیاں خطرے میں پڑھ جاتی تھیں، اس لیے خانہ بدوش اپنے جانوروں کے لیے بہتر سے بہتر چراگاہیں تلاش کرنے کی کوشش کرتے اور ان کے حصول کے لیے لڑنے مرنے سے گریز نہیں کرتے تھے۔ یہی وجہ جنگجوئی ان کی خصوصیت میں شامل رہیں ہیں۔
برصغیر میں آریا آئے تو خانہ بدوش تھے اور دوسرے خانہ بدوشوں کی طرح یہ مویشیوں کو بڑی اہمیت دیتے تھے۔ ان مویشوں میں گائے کو اس کے دودھ اور مکھن کی وجہ سے بہت اہمیت دیی جاتی تھی۔ وید کا مطالعہ کریں تو ہم پر عیاں ہوتا ہے کہ کسی کو انعام و معاوضہ میں گائیں دی جاتی تھیں۔ سنسکرت میں گائے کو گو کہتے ہیں اور اس سے بہت سے الطاظ بنے ہیں۔ گاؤں اور گوٹھ اصل میں گوشٹ (گوستھا) ہے اور اس کے معنی جہاں گائیں کھڑیں ہوتی ہوں یا جہاں گائے کا چارہ موجودہ ہو۔ اس طرح مثلاً گوپال یعنی گائے پانے والا۔ گسائیں یا گوسائیں اصل میں گوسوامن (گو سوامی) یعنی گایوں کا مالک ہے۔ گوند، گتم، گوپ، گوپی وغیرہ سب اسی سلسلے کے الفاظ ہیں۔ جن کو ہندو اپنے ناموں میں استعمال کرتے ہیں۔ اس طرح گوتر یعنی ذات مگر اس کے معنی گایوں کا باڑا کے ہیں اور یہ ایسی جگہ ہوتی تھی جس کہ گرد دیواریں گایوں کی حفاظت کے لیے موجود ہوں۔ جب ذات پات کی پابندیاں بڑحیں تو یہ کلمہ رفتہ رفتہ ذات و برادری کے لیے بھی استعمال کیے جانے لگا اور قدیم گوتر کا چودھری یا سربراہ وہ گوتر یعنی ذات کے مکھی میں بدل گیا۔ ایک اور لفظ دھن ہے جس کے معنی دولت کے لیے جاتے ہیں مگر اصل لفظ ڈن یعنی ریوڑ ہے۔ اس طرح دھنی کے معنی ریوڑ کے مالک کے ہیں۔ کیوں کہ پہلے کسی شخص کی مالی حالت کا اندازہ اس کے جانوروں کی تعداد سے ہوتا تھا۔
تہذیب و ترتیب
(عبدالمعین انصاری)
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...