برصغیر میں کون ہے جس نے شیریں فرہاد کا نام نہیں سنا ہوگا۔ اس پر بھارت اور پاکستان میں اس پر فلمیں اردو کئی زبانوں میں بن چکیں ہیں اور وہ مقبول بھی ہوئیں۔ ہمارے یہاں شیرین و فرہاد کے بارے میں جو فسانے گردش کر رہے ہیں ان کے مطابق فرہاد جو کہ شیریں کا عاشق تھا اور اس نے اسے حاصل کرنے کے لیے پہاڑ سے ایک نہر کھود کر لانے کی شرط پوری کی تھی۔ بہت سے لوگ اسے فسانہ سمجھتے اور کچھ اسے حقیقت بھی سمجھتے ہیں۔ حقیقت میں شیرین ایک حقیقی اور تاریخی کردار ہے اور فرہاد ایک افسانوی کردار ہے جو اس فسانے میں بہت بعد میں داخل کیا گیا۔ شیریں محبت میں دیوانی ضرور تھی مگر فرہاد کی نہیں بلکہ خسرو دوم کی دیوانی تھی اور اس نے خسرو سے شادی کے لیے بہت پاپڑ بیلے اور چکر چلائے تھے اور بڑی جدوجہد کے بعد خسرو سے شادی کرنے میں کامیاب ہوئی تھی۔
بلغمی اور ثعالبی نے خسرو کے بارہ رتنوں کا ذکر کیا ہے اس میں شیریں کو بھی شامل کیا ہے۔ شیرین خسرو کی واحد بیوی نہیں تھی اور خسرو جنس لطیف اور خشبو کا دلداہ تھا۔ اس کے حرم میں خوبصورت عورتوں کی تعداد تین ہزار سے زیادہ تھی۔ جنہیں اس نے انہیں مختلف مقامات سے حاصل کیا تھا۔ اس کے علاوہ خوبصورت کنیزیں الگ تھیں۔ اس کے بہت سے امور جن میں زاتی اور شکار اور کشتی رانی کو بھی عورتیں انجام دیتی تھیں۔ اس کے علاہ بہت سے امور عورتیں انجام دیتی تھی۔ لیکن اس کی سب سے چہتی بیوی بلکہ محبوبہ شیرین تھی۔ جس کو ثعالی نے گلزار حسن اور رشک ماہ لکھا ہے۔ یہ عیسائی تھی اس لیے بہت سے مشرقی اور مغربی مورخوں نے اسے رومی بتایا ہے۔ مگر یہ ایرانی تھی اور خوزستان کے رہنے والی تھی اور خسرو عہد حکومت کے آغاز میں ہی شیریں خسرو کی دیوانی ہوگئی اور اس نے خسرو سے شادی کرنے کے لیے بہت سے چکر چلائے۔ ثعالبی اور فردوسی کے شیریں کے ان حیلوں کے بارے میں بتایا ہے۔ جو شیرین نے خسرو سے شادی کرنے کے لیے کیں تھیں اور شیریں اس میں کامیاب رہی۔ مورخوں نے شیرین سے خسرو سے شادی کی تفصیلات بھی درج کیں ہیں۔ خسرو کے بہت سے امیر اس شادی پسند نہیں کرتے تھے اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ خسرو کی شادی اس خصیص عورت سے شادی ہو۔ مگر خسرو نے انہیں اس شادی کے لیے راضی کرلیا اور یوں یہ شادی انجام پائی۔
شیریں اگرچہ رتبے میں بازنطینی شہنشاہ مارس کی بیٹی شہزادی ماریہ سے کمتر تھی اور خسرو نے اس سے شادی سیاسی وجوہات کی بناء پر شادی کی تھی۔ مگر شیرین آخر تک اس کے مزاج پر حاوی رہی۔ خسرو نے جب اپنے دشمن بہرام جوبین کو قتل کیا تو اس کی بہن جو مردانہ مزاج گزدیگ نے اس کے ایک شہزور وستہم کو ایک سخت مقابلے کے بعد قتل کردیا تو خسرو اس سے اس سے بہت متاثر اور اس نے گزدیک سے شادی کری۔ مگر شیرین کو یہ عورت پسند نہیں آئی اور اس نے خسرو کو اس دیو سیرت عورت ہوشیار رہنے اور احتیاط کرنے کا مشورہ دیا۔
خسرو شیریں کے افسانے بہت جلد وجود میں آگئے اور ساسانی حکومت کے خاتمہ سے پہلے اس کی کئی داستانیں وجود میں آچکی تھیں۔ جن کے مختلف اجزاء خوذای نامک کے ذریعے عربی ترجموں میں داخل ہوگیں۔ فرہاد کا کردار ساسانی حکومت کے بعد مسلمانوں کے عہد میں اس داستان میں داخل ہوا اور ثعالبی نے بھی اس کا ذکر کیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ فرہاد شیریں پر عاشق ہوگیا تھا اور خسرو نے اسے سزا میں کوہ بے ستون سے پتھر نکالنے کے لیے بھیج دیا۔ یہ بھی کہا جاتا ہے فرہاد جو پتھر کا ٹکرا نکالتا تھا وہ اتنا بھاری ہوتا تھا کہ سو سو آدمی مل کر اسے اٹھا نہیں سکتے تھے۔ بقول فردوسی شیرین نے ماریا (قصر روم کی بیٹی) کو زہر دے دیا تھا۔ مگر میرا خیال ہے یہ محض الزام ہے۔ کیوں کہ محض ماریہ خسرو کے حرم میں نہیں تھی اور خسرو کے حرم میں تو بے شمار عورتیں تھی۔ مگر خسرو دیوانہ شیرین کا تھا۔ ماریہ کے مرنے کے ایک سال بعد خسرو نے اس کا محل شبستان شرین کو دے دیا تھا۔ خسرو نے کوہ زگرس پر شیرین کے لیے ایک عالی شان محل بنایا تھا جو کہ ساسانی عہد کے بہترین عمارتوں میں سے تھی۔ مورخین نے اس کی بڑی تعریف کی ہے۔
شیریں نہیں خسرو بھی شرین کا دیوانہ تھا۔ خسرو پر شیرین کا اثر آخر تک رہا اور خسرو اس کی کوئی بات ٹالتا نہیں تھا۔ شرین نے ایک عیسائیوں کی خانقاہ تعمیر کروائی تھی جس کو خسرو نے بہت سے مال نوازا تھا۔ خسرو اور شیرین اور فرہاد اور شیریں کی داستان محبت بعد کے دور میں ایران کی رزمیہ شاعری کا عام اور مقبول موضع بن گئی۔ اس پر بہت سی مننویاں لکھی گئیں۔ نظامی نے اس پر اپنی مشہور مثنوی خسرو و شیریں لکھی تھی۔
شیریں بے اولاد تھی اس نے ایک عیسائی طبیب جبریل سے اپنا علاج کرایا تھے۔ اس کے علاج و سینٹ سرجیوس کی کرامت سے سے اسے بیٹا ہوا۔ جس کا نام میران شاہ رکھا گیا اور شیریں نے بھی یعقوبی عقائد اختیار کرلیے۔ جبریل بھی خسرو کا منظور نظر ہوگیا تھا۔ سبر یشوع کی وفات کے بعد شیریں نے اسے سلوکیہ کا جاثلیق بنانے کے لیے بادشاہ سے سفارش کی تھی۔ مگر خسرو نے ٹال دیا تھا۔
شیریں کی موت خسرو کے خلاف بغاوت ہوئی تھی وہ اس میں ماری گئی تھی۔ کیوں کہ رات کو خسرو شیریں کے ساتھ قصر شیریں میں رات گزارنے کے گیا تھا۔ جہاں سازش کے تحت سارے پاسباں بھاگ گئے اور پھر باغیوں نے قصر شیریں حملہ کیا شیریں ماری گئی اور خسرو نے محل کے باغ میں پناہ لی مگر باغیوں نے اسے دھونڈ لیا تھا۔
نیا بادشاہ شیرویہ تھا اس نے خسرو اور اپنے بھائیوں کے ہاتھ پیر کاٹنے کا حکم دیا اور بعد میں انہیں قتل کروا دیا۔ ایک سریانی مصنف تھیوفائیس نے لکھا ہے کہ شیرویہ نے سب سے پہلے شیریں کے بیٹے میرانشا کو قتل کروایا تھا اور خسر کو اپنے بھائیوں کے ساتھ خزانے کی عمارت میں قید کردیا کہ وہ بھوک پیاس سے مرجائیں۔ لیکن جب پانچ دن بعد دیکھا تو وہ سب زندہ تھے تو لہذا انہیں تیروں چھلنی کرکے قتل کر دیا گیا۔