آپ بیتیاں
یادوں کی پٹاری- 4
بچپن، لڑکپں، جوانی اور بڑھاپا، انسان ان ھی تمام ادوار سے گزرتا ھوا اپنی آخری منزل کی طرف بڑھتا ھے –
بچپن گھر کے حوالے
لڑکپں باھر کے حوالے
جوانی خود کے حوالے
بڑھاپا اللٌہ کے حوالے
میری کوشش یہی ھوگی کہ ھر ایک دور کو انکے تمام مثبت اور منفی حقائق سے روشناس کراؤں، جن سے ماضی میں خود دو چار ھوا ھوں –
ویسے بہت مشکل ھے اپنے گزرے ھوئے کل کو سامنے لانا، خاص طور سے منفی پہلو کو –
اکثر ھم اپنی بری عادتوں اور نقصانات سے پردہ نہیں اٹھاتے، جو کہ بالکل غلط ھے کم از کم ھمیں ان اپنی تمام برائیوں اور نقصانات سے لوگوں کے علم میں لانا چاھئے تاکہ جو تکلیفیں آپ نے ان برائیوں اور نقصانات سے اٹھائیں ھیں، دوسرے لوگ ان سے بچیں اور خسارہ نہ اٹھائیں –
ھاں تو دوستوں بات ھو رھی تھی بچپن کی معصومیت کی، اس دور میں ھر ایک کا بچپن دوسروں کے رحم و کرم پر ھوتا ھے، چاھے تو اسے بگاڑ دیں چاھے تو سنوار دیں-
ھم سب کا یہ فرض ھے کہ ھر کسی کے بچپن کی معصومیت سے نہ کھیلیں بلکہ اپنا فرض سمجھتے ھوئے ان کی تربیت ایک اچھے ماحول میں ترتیب دے کر ان کے مستقبل کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کریں، کیونکہ آج کے یہ معصوم کل کے ھمارے ملک کا روشن مستقبل ھیں –
میں اپنے بچپن کی کچھ یادداشت کے حوالے سے خود پر گزرے ھوئے اصل حقائق کی روشنی میں چند اھم نکات کو پیش کرنے کی کوشش کررھا ھوں – تاکہ پڑھنے والوں کو صحیح حقیقت کا علم ھو اور وہ اپنی سمجھ کے مطابق بہتر سے بہتر کوشش اپنی آنے والی نئی نسلوں کی تربیت کیلئے کرسکیں –
میں نے گذشتہ باب میں اپنے پرائمری اسکول کے بارے میں تحریر کیا تھا، جو ایک واقعی مثالی اسکول تھا وھاں میں اپنے بچپں کے تین سال بہت ھی ایک منظم اور صحیح تربیت کے دائرے میں گزارے، جسکا فائدہ مجھے اپنے ھر اچھے برے دور میں ھوا –
اسلامی تعلیمات کے لیے روزانہ ایک مخصوص پیریڈ ھوا کرتا تھا، جس میں قران کی تعلیم بہت عمدہ طریقے سے بمعہ ترجمہ اور تفسیر کے دی جاتی تھی، جو قرآنی سورتیں مجھے اب تک یاد ھیں یہ وھیں کی عنائت ھے، اس کے علاوہ سیرت نبوی اور تمام اسلامی اصولوں کو اتنے خوبصورت طریقوں سے ھر بچے کے ذھن میں اس طرح بٹھادیا جاتا تھا کہ شاید ھی کوئی بھول سکے-
دوسرے اس اسکول میں پانچویں جماعت تک لکڑی کی تختی پر لکڑی کے قلم سے اردو رسم الخط کی تربیت دیتے تھے – اور ھر کام کالی سلیٹ پر بچے چاک سے لکھا کرتے، اس کے علاوہ انگلش کے لئے چار لائنوں والی کاپی پر پنسل سے پریکٹس کرائی جاتی تھی، وھاں پر پانچویں جماعت تک کوئی فاونٹین پین استعمال کرنے کی اجازت نہیں تھی- اور حساب کے کام کیلئے بھی صرف اور صرف پنسل ھی کی اجازت تھی –
تیسری خصوصیت جو سب سے اچھی یہ تھی کہ روزانہ اسمبلی کے دوران ھر کلاس کے بچوں کے ھاتھ کے ناخونوں، بالوں کو، لباس کو اور جوتے تک بہت سختی سے چیک کئے جاتے تھے، اگر کسی بچے میں کوئی بھی ذرہ سی بھی چیکنگ کے دوران غلطی پائی گئی تو فوراً لائن سے نکال دیا جاتا تھا اور سب کے سامنے اسی وقت غلطی کے توازن سے سزا ملتی تھی اور ایسا بہت کم ھوتا تھا، کیونکہ ھر بچہ گھر سے مکمل طور سے تیار ھو کر آتا کرتا اور اس میں والدیں خود بچے کو تمام تیاریوں کے ساتھ بچوں کو صاف ستھرائی کے ساتھ اسکول میں بھیجا کرتے تھے اور بچوں کو بھی فکر رھتی تھی-
چوتھی بات بچوں کی صحت کے اعتبار سے ھر کلاس کا ایک الگ سے پی ٹی کا بھی پیریڈ لازمی تھا، جہاں بچوں کو ورزش کی تربیت دی جاتی تھی، اور سکھانے والے بہترین ماھرین چنے ھوئے تھے، اور بہت سے کھیلوں کی تربیت بھی دی جاتی تھی جن سے بچے بھی خوشی سے سالانہ کھیلوں میں حصہ بھی لیتے تھے-
ایک اور خوبی ان استادوں میں یہ تھی کہ وہ خود بھی باقاعدہ ڈسپلین کی پابندی کرتے تھے میں نے کبھی انھیں آپس میں بیہودہ مذاق یا گالی گلوچ کرتے نہیں پایا اور اس کے علاوہ کبھی اسکول کے احاطے میں یا کلاس روم میں سگریٹ پیتے ھوئے نہیں دیکھا،
اب آپ یہ بتائیے کہ کیا اب ھمارے بچوں کی بنیادی تعلیم کیلئے کیا یہ تمام خصوصیات ھمارے بچوں کے اسکولوں میں موجود ھیں، کیا ھمارے بچون کے اُستاد حضرات ان اصولوں پر گامزن ھیں ؟؟؟؟؟؟؟؟
1958 مین اس اسکول کو مجھے مجبوراً الوداع کہنا پڑا، کیونکہ والد صاحب کا تبادلہ کراچی ھوچکا تھا، اس اسکول کو چھوڑتے وقت مجھے یاد ھے کہ بہت دکھ ھوا تھا، جبکہ میری عمر صرف 8 سال کے لگ بھگ تھی اور آج تک مجھے اس کا بہت ملال ھے، کیونکہ اسکے بعد مجھے ایسے اسکول کا ماحول نہیں مل سکا –
اُس وقت کے دور میں اتنی سہولتیں تو نہیں تھیں لیکن لوگوں کے پاس دوسروں کے لئے وقت تھا اپنی ھر دکھ تکلیف ایک دوسرے کے ساتھ شیئر کرتے تھے، اور ایک دوسرے کے کام آتے تھے-
وہ سادہ سی، قناعت پسند اور پرسکون زندگی جہاں پر ایک محدود اپنی ضروریات تھیں – اور زندگی بہت خوش و خرم سے گزری رھی تھی
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔