بیک وقت ارتغل غازی ، کمال اتاترک اور جناح کا مداح ہونا بنیادی طور فکری دیوالیہ پن ہے ۔ اب چونکہ پاکستان جناح نے اسلام کے نام پر بنایا تھا لہذا اسلام میں “ڈرامے اور فلمیں” نشاتہ الثانیہ کی تجدید کے لیئے پیمانہ نہیں ۔ جہلاء سب پاکستانی حضرات اکثر محمود غزنوی اور صلاح الدین ایوبی کے مداح رہے ہیں اور ان دونوں کی قصیدہ خوانی بہت ہوتی ہے جبکہ ان دونوں نے اسماعیلیوں / فاطمیوں اور قرامطیوں کا کافی جھٹکہ کیا تھا جبکہ جناح کے اباؤاجداد خود قرامطی تھے اور مسلم لیگ میں جناح کے ساتھی بھی قرامطی تھے
یہی نہیں بلکہ سر آغا خان جناح کے بہت قریبی ساتھی تھے بلکہ دو قومی نظریے کے بانی سر سید احمد خان کے بھی مربّی تھے اور علی گڑھ کالج کو یونیورسٹی کا درجہ انگریزوں سے کہہ کر سر آغا خان نے دلوایا تھا ۔ سرسید کی گمراہی اور انکے منکر حدیث و زندیق ہونے پر علماء کا اجماع ہے
لہذا پاکستان کی جاہل حکمران اشرافیہ اور ان سے بڑے جاہل اینکر و صحافی قدیم اور گمشدہ تاریخ کی چول میں نہ گھسیں ورنہ مثال اسکی Can of Worms ہوگی اگر کھل گیا تو منہ دکھانے کیسے نہیں رہیں گے بلکہ وہی مثال ہوگی کہ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن ۔
اسی طرح پاکستان میں بسنے والی مختلف مذہبی اقلیتوں کو قومی دھارے میں لانے کے جناب حمزہ علی عباسی نے جو مذہبی اصول میں کھینچا تانی کی ہے تاکہ حمزہ علی عباسی حافظ سعید کیساتھ اپنا ماضی چھپا سکیں ، تو ایسا نہ کریں بلکہ اسکے لیئے آئین کو سیکولر بنائیں ۔ مذہبی اصول کو نہ چھیڑیں ۔ جہلاء اشرافیہ گمشدہ تاریخ کو پیٹ رہی ہے جبکہ فدوی مستند کتابوں سے جو موجود ہیں اس میں سے کافی کچھ پوسٹ کرچکا ہے اور اگر انہی کتابوں میں سے کچھ باب مطالعہ پاکستان میں شامل کر لیئے جائیں تو وہ سر پٹھول ہوگی کہ ساری تاریخ دانی ہوا ہوجائیگی اور دو قومی نظریہ نسیا” منسیا” ہوجائیگا
ابھی پچھلے دنوں کسی نے وہاں سے سورج طلوع کروایا جہاں سورج کی روشنی نہیں یعنی ترکوں اور مغلوں کی تاریخ کو گڈمڈ کیا جبکہ مغلوں کا جد امجد تیمور لنگ خلافت عثمانیہ کا بدترین دشمن تھا اور اس نے بایزید یلدرم کیساتھ باقاعدہ جنگ کی قید کیا اور خلافت عثمانیہ کو نقصان پہنچایا
لکھنے کا یہ مقصد نہیں کہ “مسلمانوں کی گمشدہ تاریخ” نہ پڑھائ جائے ، ضرور پڑھائ جائے اور طالب علموں سے تحقیق کے لیئے اس پر مقالے لکھوائے جائیں مگر پھر جو کچھ سامنے آئیگا اس پر بلبلانا مت کیونکہ تکلیف بہت ہوگی ۔ مثلا” ابن تیمیہ اور الذھبی نے جو لکھا ہے سب اُمّہ ڈنڈے پر چڑھ جائیگی
سلف صالحین کو امت مسلمہ کی سر بلندی کے لیئے بھانڈ مسخروں ، فلموں، ڈراموں اور نوٹنکیوں کی حاجت نہیں تھی بلکہ اسی تاریخ میں لکھا ہے کہ وہ سادہ لوگ تھے سادہ زندگی تھی اعلی کردار تھا ۔ ۳۰۰ کنال کے محل میں نہیں رہتے اور gluten free ناشتہ نہیں کرتے تھے بلکہ اکثر روزہ ہوتا تھا
ابن سعود نے سعودی عرب کو بدعتی شریفین مکہ (اردن کے موجودہ حکمرانوں کے جد امجد) اور مشرک ترکوں کے قبضے سے آزاد کرایا تو محمد علی جوہر اور دیگر حواس باختہ برصغیر کے مولوی اسکے پاس گئے کہ مکہ/ مدینہ کو اُمّہ کا علاوہ قرار دیا جائے اس نے تلوار دکھا کر بھگادیا جوہر اور دیگر مولویوں کو اور یہ تو خان عبدالغفار خان کی اپنی آپ بیتی میں لکھا ہے کہ جب وہ حج پر سعودی عرب گئے تو آل سعود نے تمام صحرائُ قزاقوں کو زیر زبر کردیا تھا اور امن بحال کردیا تھا جبکہ ترکوں کے دور میں شریفین مکہ جب حاکم تھے صحرائ قزاق حاجیوں کو لوٹتے تھے اور بھتہ شریفین مکہ کو دیتے تھے
ڈرامے، فلمیں اور نوٹنکیاں وقت گزارنے اور تفریح کے لیئے تو ٹھیک ہیں اور اسی طرح تاریخ بھی ہے یعنی مطالعے اور تحقیق کی حد مگر تاریخ بالخصوص گمشدہ تاریخ کی بنیاد پر پاکستان جیسے diverse ملک میں ریاست ککی تشکیل کرنا خطرے سے خالی نہیں ۔
اور جب مسلمانوں کی گمشدہ تاریخ بالخصوص ترک ، مملوک، کرد و دیگر کی جب کبھی بھی پاکستانی ریاست کے بیانیئے میں داخل کی جائیگی تو لامحالہ مسلک و فرقہ و عقائد کی بحث چھڑے گی جو پاکستان کے لیئے زہر قاتل ہوگی اور ڈراموں میں وہ نہیں دکھائ جاتی ۔ ہوش کے ناخن لیں اور یہ جو تجدید تاریخ کا بذریعہ ترک ڈراموں کے باسی کڑاہی میں ابال اٹھ رہا ہے یہ دراصل نسیم حجازی کی واہی تباہی لغو جھوٹے ناول پڑھ کر اٹھ رہا ہے جو حجازی صاحب نے تاریخ کے نام پر انڈیلے ہیں اور پاکستانیوں کو فتور میں مبتلا کیا ہے –
نسیم حجازی کے اسلامی تاریخی ناولوں میں پردے اور شرم و حیا کی نسیم حجازی نے دھجیاں بکھیری ہیں ، خاک و خون ہو، اور تلوار ٹوٹ گئ ہو، معظم علی ہو ہا آخری چٹان ان سب میں بیہودہ چھانڑے بازی اور محبوب معشوق کی کٹ بازیاں بیان کی گئ ہیں ۔ بے غیرتی سکھائ ہے
پاکستان کے مبینہ سیکولر و لبرل جوکہ جناح کے اندھے مقلدین ہیں سب سے زیادہ مت انکی ماری گئ ہے بلکہ شیطان نے انکی راہ ماری ہے – جناح کمال اتاترک کے مداح تھے ۔ زرا اٹھائیں کوئ مستند تاریخ اور پڑھیں کتنا ظالم اور متشدد غالی شخص تھا اتاترک ، اسکے ہاتھوں پر مظلوموں کا خون ہے
خلافت عثمانیہ کے دور میں اگر ترک صوفی مولویوں نے جہل اور غلو کا مظاہرہ کیا تو اس سے بڑھ کر ظلم کا مظاہرہ کمال اتاترک نے کیا اور وہ مطلق العنان بنا اور مذہب کا ہی دشمن ہوا – یعنی دونوں طرف ہی غلو ہوا
ارتغل کے مداح پڑھیں کہ ٹیپو سلطان کیساتھ خلافت عثمانیہ نے کیا غداری کی
#TipuSultan wrote a let¬ter to the Ottoman ca¬liph for help. Instead of ex¬tend¬ing help, the ca¬liph be¬trayed Tipu Sultan by hand¬ing over the let¬ter to the British gov¬ern¬ment
https://www.dawn.com/news/1106525
واہیات ترکی اور عربی ڈرامے دیکھنے سے بہتر ہے کہ رضیہ بٹ، ہاجرہ مسرور، زبیدہ خاتون ، حسینہ معین کی تحریر ڈرامے دیکھے جائیں تاکہ وقت صحیح گزر جائے اور خواہمخواہ کی ترک واہی تباہی نہ دیکھی جائے جسکے پاکستان اور اسکے لوگوں سے کوئ تعلق نہیں
انگریزوں اور مسلمان ملاحدہ کی بنائ ہوئ اسلامی تاریخی و مذہبی فلمیں دیکھ کر امت مسلمہ جذباتی ہوجاتی ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کی عظمت رفتہ بحال ہوا ہی چاہتی جبکہ ایسی مذہبی فلمیں دیکھنا اور ٹیلی کاسٹ کرنا ہی سخت گستاخی اور توہین ہے
انبیاء علیہم السلام و صحابہ کرام (رع) پر انگریزوں اور زندیق مسلمانوں کی بنائ فلمیں اور ڈرامے انکی شان کا حق ادا نہیں کرسکتے ایسی فلمیں اور ڈرامے دیکھنا بھی گستاخی ہے بلکہ شتم مذہب ہے
ترکی کے تاریخ کے ترک پروفیسر نے بتایا کہ کس طرح ترک خلافت عثمانیہ نے ٹیپو سلطان کو انگریزوں کے ہاتھوں بیچ دیا (وہ پڑھیں جو ترک ڈراموں پر دیوانے ہورہے ہیں)
https://www.dawn.com/news/1377859
بشکریہ @aliaftabsaeed
جنہوں نے تاریخ فرشتہ اور میجر ایچ جی ریورٹی کی ان تواریخ کو پڑھا ہے جو ماورالنہر اور افغانستان کے غنڈے حملہ آوروں یعنی غزنویوں اور غوریوں کے بارے میں پڑھا ہے وہ واقف ہیں کہ کس بے دردی سے غزنویوں اور غوریوں نے آپس میں کلمہ گو مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیلی ہے
نبی کریم (صلعم) نے منع فرمایا ہے کہ کسی زندہ کو آگ میں نہ جلانا ۔ آگ کا عذاب صرف اللہ ہی دیگا (بخاری ودیگر) ۔ جبکہ پاکستانیوں کے ہیرو “غوری” کا لقب جہاں سوز تھا یعنی دنیا کو آگ لگانے والے اور اس خبیث نے غزنویوں اور غزنی کو جلا کر راکھ کیا (بحوالہ تاریخ فرشتہ و ریورٹی)