ڈاکہ زنی اور چوری چکاری کا قبیح گورکھ دھندہ اُس نے پندرہ سال کی عمر میں شروع کر دیا۔۔۔کوئی شب ایسی نہ ہوتی کہ جب وہ نقب لگا کر کسی کو نہ لُوٹتا۔۔۔ایک غریب اور بے روزگار یہ رمضان جسے لوگ"رمّا"کہہ کر پکارتے تھے اب ایک عالیشان بنگلے کا مالک بن چکا تھا اور رَمّے سے ملک رمضان تک کا سفر بھی طے کر چکا تھا۔۔۔اُس کے قرب و جوار کی خلقت دیدے پھاڑے دیکھتی کہ یہ سب ہو کیسے رہا ہے؟اکثر بشریت اس سے استفسار کرتی کہ ملک صاحب تنگ حالی اور عُسرت کی اوج سے یہ اچانک امارت ؟کوئی سلیمانی ٹوپی یا اللہ دین کا چراغ تو ہتھے نہیں چڑھ گیا وہ بڑے دھڑلے سے لب گویا ہوتا کہ نہیں لوگو۔۔۔اصل میں یہ سب میرے مُرشد کی کرامات اور اُس کی تہہ دل سے کی دعا کا نتیجہ ہے یہ سنتے ہی لوگ اپنا سا منہ لے کر چلے جاتے ۔۔۔۔مگر صاحبِ بصریت لوگوں کو یہ بات اورملک رمضان کی اپنی طرف سے بنائی اِس ضرضی کہانی پہ یقین نہ آتا اور وہ آپس میں یہی گفتگو کرتے کہ ملک ضرور کسی گورکھ دھندے میں حصہ دار ہے اور اس کی یہ کہانی صرف اور صرف چرب زبانی ہے جس سے ہمیں تو تشفی نہیں ہوتی۔۔۔۔۔ایک رات ملک صاحب اپنے منحوس امر کو سر انجام دے کر واپس آ رہے تھے کہ سرِراہ انہیں ایک نوجوان اور خوبصورت لڑکی دکھائی دی ملک صاحب اُس پہ فریضتہ ہو گئے ۔۔۔۔اپنا گھوڑا اُس صنفِ نازک کے پاس لے گئے اور دریافت کیا کہ اے لڑکی کون ہو؟کہاں سے آئی ہو؟کہاں جانا ہے؟اتنی رات کو یہاں تنِ تنہا کیا کر رہی ہو؟لڑکی گھبرائی گھبرائی لب جو ہوئی کہ بابا جی اصل میں میں ایک لڑکے کو پسند کرتی ہوں اور اُسی سے بیاہ رچانا چاہتی تھی مگر میرے والد صاحب کو پسند نہیں آیا اور انہوں نے مجھے گھر بدر کر دیا ۔۔۔۔جس لڑکے کو پسند کرتی تھی وہ بھی دھوکے سے مجھے چھوڑ کے چلا گیا اب یہاں بس کے نیچے سر دے کے خودکشی کے علاوہ کوئی راہ نہیں سوجھی۔۔۔ملک صاحب کی تو باچھیں کُھل گئیں فوراً ہمدرانہ اور مشفقانہ انداز میں لب جو ہوا کہ بیٹا!خودکشی حرام فعل ہے کیا ہوا اگر سب چھوڑ گئے تو؟دیکھو اللہ نے مجھے تمہیں بچانے کیلئے وسیلہ بنا کر بھیجا حالانکہ میں شبانہ روز اُسی کی مدحت میں مستغرق رہتا اور رات کو باہر نہیں نکلتا مگر جی اُس کے اِسرار وہی جانے۔۔۔جب اُسے اس بات کا قوی یقین ہو گیا کہ اب لڑکی شیشے میں اتر چکی ہے تو کہا کہ چلو مجھےبھی اپنا پدر ہی گردانو اور چلو گھر چلتے ہیں دونوں وہاں سے روانہ ہوئے۔۔۔۔ملک صاحب کی اپنی ایک جواں سالہ بیٹی تھی اسے ٹسوے بہاتے ہوئے یہ باور کروا دیا کہ آج سے یہ بھی تمہاری بہن ہے۔۔۔۔وہ دونوں بہت اچھی سہیلیاں بن گئیں اور گُھل مِل کے رہتی جیسے پورا جیون ساتھ پلی بڑھی ہیں ۔۔۔ملک صاحب کی نیت میں تو اس جواں سالہ لڑکی کو دیکھے پہلے دن سے فتور تھا مگر وہ اس لڑکی کے ساتھ اپنی بیٹی کے سامنے کچھ نہیں کر سکتا تھا۔۔۔۔ملک صاحب کے ذہن میں ایک دن بیٹھے بیٹھے اوچھی اور گندی ترکیب آئی کہ کیوں نہ اِس بنتِ حوا سے دو کام لوں؟میرا مکروہ کام بھی نکل آئے گا اور اِس سے جان بھی چھوٹے گی۔۔۔۔اگلی شب وہ دھندے والوں کے پاس گیا اور چِکنی چپڑی باتیں سنا کر انہیں اِس بات پر راضی کر لیا کہ ایک رات میرے حوالے باقی ساری زیست آپ لوگ جو مرضی کروانا۔۔۔۔۔وہ گھر لوٹا اور کھانا کھانےکے دوران باتوں باتوں میں اپنی بیٹی سے یہ اس راز کی ٹوہ لگا لی کہ دونوں دوستوں کی چارپائیوں کی ترتیب کیسے ہوتی ہے ۔۔۔اُدھر اُن لوگوں کو کال کر کے بتا دیا کہ وہ لڑکی دروازے کے ساتھ بائیں چارپائی پر سوتی ہے ۔۔۔۔۔رات کے وقت دونوں سہیلیوں نے مذاق مذاق میں یہ فیصلہ کیا کہ آج چارپائیاں بدل بدل کے سوتی ہیں اور بدل کے سو گئیں۔۔۔۔نصف شب ڈھل جانے کے بعد وہ لوگ آئے اور چپکے سے مطلوبہ چارپائی سے لڑکی کو اٹھایا اور چل دیے راستے میں ملک کے علم میں یہ بات لا دی کہ کام ہو گیا آ جاؤ۔۔۔۔۔اِدھر ملک بڑی خوشی سے خوشبوئیں لگائے اوردلہا بنے تیار ہوا اور اُدھر لڑکی کا حُسن و جمال دیکھ کر وہ لوگ بھی لٹو ہو گئے اور اُس کی آمد سے پہلے ہی رفو چکر ہو گئے
۔۔ملک صاحب اُن کی حویلی پہنچے تو حویلی کے کواڑوں پہ قُفل لگا تھا ان کی سمجھ میں ساری بات آ گئی اور گھر لوٹنے کے بعد ساری رات اُن لوگوں کو کوسنے میں بِتا دی۔۔۔۔۔۔صبح جب بیدار ہوئےتو لڑکی دوڑی دوڑی آئی اورچِلانے لگی کہ بابا جی آپ کی بیٹی اپنی چارپائی پہ نہیں ہے لگتا ہے کسی کے ساتھ بھاگ گئی تبھی تو رات چارپائی بدلی۔۔اسے تو جیسے ساتوں آسمان سر پہ گرتے دکھائی دیے اور پاؤں کے نیچےسے جیسے زمین کھسک گئی ۔۔۔وہ پرائی لڑکی تھی اُسے کیا غرض تھی ملک کی ناموس سے وہ پورے محلے میں گئی اور ملک کی لڑکی کے غائب ہونے کا ڈھنڈورا پیٹ دیا ۔۔گاؤں والے جو پہلے ہی ملک کو مشکوک گردانتے تھے انہوں نے ملک سے آ کر یہی کہا کہ بے شرم غیر لڑکی سے بیاہ رچانے کیلئے بیٹی کو بیچ دیا۔۔۔۔۔مگر ملک کی زبان سے بس یہی الفاظ ادا ہوتے کہ "جو دوسروں کیلئے گڑھا کھودتا ہے خود اُس میں گِرتا ہے "اور کبھی کہہ دیتے کہ"جیسی کرنی ویسی بھرنی"آخرکار یہی صدمہ دل کو لگائے پندرہ دن بعد مالکِ لم یزدل سے جا ملے۔۔۔۔