منگلا کا پل ……
برٹش دور اور سرائیکی بیلٹ
لیل و نہار
میں لاہور منیارٹی پیس کیمشن کی طرف سے منققدہ سماجی ہم آہنگی کی کانفرنس میں شرکت کے لئے گیا تھا-اس کانفرنس کے ساتھ ساتھ میں نے سوچا کہ تاریخی تناظر میں ترقی اور شناخت کے باہمی رشتہ پر ماہرین سے اپنے خیالات بھی ڈسکس کر لوں-میں نے معروف ماہر تاریخ ڈاکٹر مبارک علی سے ان کے گھر جو برج کالونی لاہور کینٹ میں ہے جاکر ملاقات کی-اس ملاقات کے دوران میں نے ان سے پوچھا کہ انگریز کی ترقی کے تصور میں کہیں شناخت بھی کوئی اہمیت رکھتی تھی-اور کیا پاکستان کے حوالے سے کلچر اور سامراجیت کے باہمی رشتہ کی اسی طرح سے تنقیدی جائزہ لینے کی ضرورت نہیں ہے جس طرح سے فلسطینی دانشور ایڈورڈ سعید نے جائزہ لیا تھا؟ڈاکٹر مبارک علی میرے خیالات سن کر بہت پرجوش تھے-ان کا اصرار تھا کہ میں اس کو سرائیکی خطہ تک محدود نہ کروں بلکہ اس کو سندھی ،بلوچ علاقوں تک بھی پھیلاؤں-لاہور سے مجھے میر پور اور منگلا کے درمیان ایک بستی میں جانا تھا-اس بستی میں ڈاکٹر شکیل احمد رہتے ہیں-گمنامی میں زندگی بسر کرنے والے یہ ڈاکٹر آبپاشی کے علم اور تکنیک میں بلغاریہ کی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کئے ہوئے ہیں-ایک عرصۂ تک انھوں نے پراگ یونیورسٹی میں تدریس کی-پھر پاکستان چلے آئے-یہاں شائد کسی کو ان کے علم اور تجربہ کی ضرورت نہیں تھی-اس لئے یہ گوشہ نشین ہوگئے-میں رات کے دو بجے لاہور سے منگلا کے قریب اس بستی میں پہنچا جہاں ڈاکٹر صاحب رہتے ہیں-میں جب اس بستی کے قریب اترا تو دیکھ کر حیران رہ گیا کہ ڈاکٹر صاحب اپنے ملازم کے ساتھ خود موجود تھے-وہ پچاس کے ہندسے کو عبور کرچکے تھے-لیکن جوانوں سے زیادہ چاک و چوبند نظر آرہے تھے-ان کے جسم پر کہیں بھی کوئی فالتو چربی نہیں تھی-مجھے اپنے فربہی مائل جسم پر قدرے شرمندگی ہوئی-شکیل صاحب کے ملازم نے میرا بیگ تھام لیا اور ہم جیپ میں سوار ہوکر شکیل صاحب کی حویلی میں آگئے-سامان رکھنے کے بعد میں سو گیا اور پانچ بجے میں نے شکیل صاحب کو جگادیا-ہم دونوں منگلا ڈیم کے پل کی طرف روانہ ہوگئے-صبح سویرے منگلا کا پل بہت خاموش تھا-بجلی کی روشنی پھیلی ہوئی تھی-کہیں دور سے کبھی کبھی کسی بس کے رکنے کی آواز آجاتی تھی-عقیل صاحب مجھے منگلا کے پل پر آکر کہنے لگے کہ "آپ کو اس پل پر بلانے کا مقصد ایک بہت ہی تاریخی بات آپ کے گوش گزار کرنا ہے-وہ بات جو آج تک سرائیکی خطہ میں اس طرح سے کبھی سوچی ہی نہیں گئی جس طرح سے آج میں کرنے جارہا ہوں-اور تم چونکہ پہلے سے ان خطوط پر سوچ بچار کر رہے ہو تو میں نے سوچا تمہی اس کو ٹھیک طرح سے بیان کر سکو گے-"میں نے شکیل صاحب سے کہا کہ میں ہمہ تن گوش ہوں آپ فرمائیے"تو شکیل کہنے لگے کہ جس وقت پنجاب کے مغربی حصہ میں اور سرائیکی بیلٹ کی باروں کو صاف کر نہریں نکالی جارہی تھیں-دریائے سندھ اور دیگر دریاؤں پر ہیڈ ورکس اور بندوں کی تعمیر ہورہی تھی تو 1885 سے ہی سندھ نے اعتراضات کا سلسلہ شروع کر دیا تھا-سندھ کی سب سے بنیادی دلیل یہ تھی کہ وہ دریا کے زیریں حصہ کا حامل ہے تو اس کے حقوق کا تحفظ کئے بغیر اور اس کی اجازت کے بغیر یہ تعمیرات نہیں ہوسکتیں-اب جس بنیاد پر سندھ اپنے حقوق کا سوال اٹھا رہا تھا اسی بنیاد پر سرائیکی خطہ کا بھی تو اس حوالے سے حق بنتا تھا-وہ بھی سات دریاؤں کے بہاؤ کے زیریں حصہ پر موجود تھا-لیکن اس کا المیہ یہ تھا کہ انگریز نے سکھ دور میں صوبہ ملتان کے پنجاب سے ادغام کو برقرار رکھا تھا-اور ریاست بہاول پور کو وہ ایک پولیٹیکل ایجنٹ کے طور پر چلا رہا تھا-اس خطہ میں کوئی نہیں تھا جو اس دور میں آگے کی سوچ رکھتا اور سرائیکی بیلٹ کی شناخت کو برقرار رکھنے کی بات کرتا -جبکہ انگریز کے ہاں ترقی کا تصور بہت زیادہ میکانکی اور کلچر سے خالی تھا-اس کو کوئی پرواہ نہیں تھی کہ اس کے ترقی کے ماڈل سے کسی خطہ کی شناخت پر کیا اثرات پڑتے ہیں-وہ تو یہ خیال کرتا تھا کہ وہ جدید تکنیک کو کام میں لاکر نئے کلچر کی تشکیل کرسکتا ہے-ٹیکنالوجی کے بلبوتے پر اس کے خیال میں نئی تہذیب کا جنم ممکن تھا-لیکن اس کے ترقی کے ماڈل نے اس وقت کے مغربی ہندوستان اور آج کے پاکستان میں صرف یہ کیا کہ ایک نسلی گروہ کی بالادستی کا سامان ہوا-باقی سب کے کلچر،زبان اور شناخت خطرے میں پڑگئی -اور اس ترقی کے ماڈل سے نئے تضادات نے جنم لے لیا"
میں نے بہت حیرانی کے ساتھ شکیل صاحب سے پوچھا کہ اس دور میں اس طرف کسی کی نظر کیوں نہیں گئی-آخر سرائیکی لوگوں نے اس طرح سے کیوں نہ سوچا جس طرح سے اس زمانے میں سندھی،بلوچ،پختون سوچ رہے تھے-"
شکیل صاحب نے اس موقعہ پر ایک ایسی بات کہی جو میں نے اس سے پہلے صرف افریقہ کے ممتاز دانشور چینوا ایشے بے سے سنی تھی-شکیل صاحب کا کہنا تھا کہ"سرائیکی خطہ کے لوگ ابھی اپنی جدید ثقافتی اور قومیتی شناخت کے پروسس میں داخل ہوئے تھے-ان کا عہد طفولیت چل رہا تھا کہ پہلے ان پر سکھ یلغار ہوئی-اور پھر انگریز اپنے جدید نوآبادیاتی خیالات کے ساتھ آدھمکے -اور بدقسمتی سے انگریز نے اس خطہ میں اپنی کالونی کے لئے جس ترقیاتی ماڈل کا انتخاب کیا اور اس ترقی میں ممد و معاون جن نسلی گروہوں کا انتخاب کیا ان میں سرائیکی خطہ کے لوگ کہیں بھی فٹ نہیں بیٹھتے تھے-انگریز اور ڈچ ،فرانسیسی سب کے سب افریقہ ،امریکا ،ایشیا میں کئی ایسے نسلی ثقافتی گروہوں کے لئے تباہی کا سبب بن گئے جو اپنی قومیتی شناخت کے پروسس میں ابھی عہد طفولیت میں تھے-اور یہ گروہ جب بلوغت کے مرحلے میں داخل ہوئے تو انگریز جا چکا تھا اور پہلے سے ترقی پاگئے نسلی ثقافتی گروہ اب اس نئے بالغ ہونے والے گروہوں کو ان کا جائز مقام دینے کو تیار نہیں تھے-
میں نے جب شکیل صاحب کی کہی بات پر غور کیا تو مجھ پر یہ انکشاف ہوا کہ جب انگریز نے پنجاب پر کنٹرول حاصل کیا تو اس نے یہاں کی ذاتوں،قبائل اور یہاں کے نسلی گروپوں کا ڈیٹا اختھا کرنا شروع کیا تھا-یہ ڈیٹا مسخ شدہ بھی تھا-اس نے جب سرائیکی بیلٹ کے لوگوں کی نسلی ثقافتی شناخت کا سراغ لگانے کی کوشش کی تو اس نے فقط یہ کیا کہ اس خطہ کے لوگوں کو بربر کا نام دیا -جس کا پنجابی ترجمہ جانگلی کر لیا گیا-تو سرائیکی شناخت پنجاب میں انگریز نے جانگلی مقرر کر دی-اور یہ جو سرائیکی شناخت تھی وہ انگریز کی طرف سے پنجاب کو ہندوستان پر قبضہ جمائے رکھنے کے لئے سب سے بڑے فوجی ریکروٹمنٹ سنٹر میں بدلنے کے منصوبے کی نظر ہوگئی-یہی وجہ ہے کہ سرائیکی خطہ نے اپنی شناخت گم کی تو یہ خطہ اپنے وسائل اور اپنے حقوق سے بھی محروم کر دیا گیا-شکیل کا کہنا ہے کہ یہ شناخت کا گم ہونا تھا کہ سرائیکی بیلٹ پانی کی تقسیم کے کسی بھی معاہدہ میں کبھی ایک فریق کی حثیت سے داخل نہ ہوسکے-سندھ طاس معاہدہ سے قبل بھی شکیل کے مطابق انگریز کے نظام آبپاشی کے سبسے زیادہ متاثرہ فریق سرائیکی تھے سندھی نہیں-اور اسی طرح سے سندھ طاس معاہدہ کا سب سے زیادہ متاثر ہونے والا فریق بھی سرائیکی تھے-سرائیکیوں سے یہ زیادتی اس وجہ سے زیادہ ممکن ہوئی کہ ان کی شناخت آئینی اور قانونی تحفظ کی حامل نہیں تھی-کسی بھی فیڈریشن میں اگر کسی خطہ کی نسلی،ثقافتی شناخت کو آئینی قانونی تحفظ حاصل نہیں ہے تو پھر اس کو ترقی اور وسائل پر بھی حق حاصل نہیں ہوتا-ملکی اور بین الاقوامی قوانین بھی اس کو تحفظ نہیں دے پتے-انتظامی تقسیم دو طرح سے بہت زیادہ ختناک عمل ہوتا ہے-ایک طرف تو یہ کسی بھی ثقافتی گروہ کی اکثریت کو اقلیت میں بدلتی ہے-دوسری طرف یہ اگر وسائل پر کوئی حق دے بھی تو وہ عارضی ہوتا ہے-اس کو بدلنا بہت آسان ہوتا ہے-اور کسی بھی وقت کسی بھی اکائی کو یا اس کے حصہ کو آسانی سے کسی اور یونٹ کا حصہ بنایا جاسکتا ہے-انگریز نے ایسا کیا بھی-اس نے سندھ کو مبئی سے ملایا-ہریانہ کو پنجاب سے جوڑ دیا-اسی طرح سے ڈیرہ اسماعیل خان کو خیبر پختون خوا کا حصہ بنا ڈالا-بلوچستان کو زبردستی پشتون پتی کے ساتھ جوڑ دیا-دیسی ریاستوں کی تشکیل کی-اس سارے عمل کو انتظامی آسانی کےنام پر کیا گیا-لیکن عملی طور پر اس سے لوگوں کی شناخت کو مسخ کرنے میں مدد ملی-ہندوستان میں بھی لوگوں کو بہت عرصۂ آزادی کے بعد جدوجہد کرنا پڑی کہ انگریز کی طرف سے شناختوں کو مسخ کرنے والی انتظامی تقسیم کو ختم کرائیں-جیسے 70 میں کہیں جا کر ہریانہ اور پنجابی صوبے الگ ہوئے-اب بھی وہاں جنبوی ہندوستان میں ایسے علاقے موجود ہیں جن کی شناخت کی بقا کا سوال ویسا ہی ہے جس طرح سے پاکستان میں سرائیکی شناخت کا سوال موجود ہے-وہاں ترقی کے اس ماڈل کے خلاف بغاوت بھی ہے جو ان کی شناخت کو مٹانے کے درپے ہو- تلنگانہ کی تحریک اس کی ایک مثال ہے-اسی طرح سے وہاں جو تری پورہ ،نگا لینڈ ،آسام میں جو تحریکیں ہیں وہ بھی شناخت کو ترقی کے ساتھ نہ جوڑے جانے کے نتیجہ میں سامنے آئی ہیں-
اسی حوالے سے ہمارے ہاں اب یہ بھی تنازعہ اٹھ کھڑا ہوا ہے کہ کیا وفاق کو اپنے کسی یونٹ کی حدود میں تبدیلی کرنے کا حق کلی طورپر حاصل ہونا چاہئے ؟تو اگر وفاق مثالی بنیادوں پر تعمیر ہوا ہو اور اس وفاق کی اکائیوں کی تعمیر کرتے ہوئے قمیتی ثقافتی ترکیب کے تحفظ کا خیال رکھا گیا ہو تو پھر وفاق کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ کسی اکائی کی سرحد کو تبدیل کرے-لیکن اگر ایسا نہیں ہے-جیسا کہ ہم جانتے ہیں-اور سرائیکی خطہ کے حوالے سے یہ سب کو ملومھی کہ یہ کیسے تقسیم ہوا اور اس کی شناخت کیسے گم ہوئی تو پھر اس کو تشکیل نو کے عمل سے گزارنے کے لئے پنجاب اسمبلی سے متفقہ قرارداد کی منظوری کی شرط ایک قومیت گروہ کو زبردستی اپنی شناخت سے دست بردار کرانے والی بات ہے-یہ شرط سندھی ،پختوں،بلوچ اور پنجابی کو فائدہ دیتی ہے سرائیکی خطہ کی ترقی اور اس کی شناخت کے لئے یہ شرط سنگین رکاوٹ بنی ہوئی ہے-اور یہ اس کی ترقی کیسے ہونی چاہئے اور اس میں سرائیکی باشندوں کی رائے کیا ہے ؟اس سوال کو بھی شناخت نہ ہونے کی وجہ سے نظر انداز کر دیا جاتا ہے-
سندھ طاس معاہدہ میں جب ستلج ،بیسور راوی کو بیچا جارہا تھا اور ان دریاؤں سے جو نہریں نکلتی تھیں ان کو پانی دینے کے لئے جب منگلا اور تربیلا ڈیم بنائے گئے-تو بھی سرائیکی خطہ کے باشندوں کی رائے کسی نے نہیں پوچھی تھی-وجہ یہ تھی کہ ان کی شناخت کو آئینی اور قانونی تحفظ حاصل نہیں تھا-اور جب تربیلا اور منگلا ڈیم بن گئے تو ان سے جو بجلی پیدا ہوئی اور جو پانی سٹور ہوا اس میں حصہ پنجاب کو ملا اور سرائیکی خطہ کے پاس کوئی راستہ کوئی فورم نہیں تھا کہ ووھیس پر اپنے حق کا دعوا کرتا سوائے اس کے جو پنجاب ک حکیم دے لے لیں-سندھ نے اپنا حصہ لیا تو وہ بھی سرائیکی خطہ کا حصہ دے دیا گیا-سرائیکی خطہ کے لوگ بجلی،گیس ،پانی ،ملازمت ،داخلے ،سمیت پنجاب اور وفاق کی زیادتی کا نشانہ بنے اور اب تک بن رہے ہیں-وہ کسی بھی عدالت میں نہیں جاسکتے-ارسا اور مشترکہ مفادات کونسل میں نہیں جاسکتے-پارلیمنٹ اور سینٹ میں کوئی دعوا وہ نہیں کرسکتے-کیونکہ ان اداروں میں جانے اور اپے حق کا مطلبہ کرنے کے لئے آئینی اور قانونی شناخت کی ضرورت ہوتی ہے جو نہیں ہے-اس سے بہت واضح ہوجاتا ہے کہ اگر شناخت نہیں تو پھر وسائل بھی نہیں اور ان پر حق بھی نہیں-گویا بطور ایک ثقافتی گروہ کے آپ ترقی اور وسائل سے محروم کر دے جاتے ہو-شکیل صاحب کہ رہے تھے کہ اگر سرائیکی بیلٹ انتظامی بنیادوں پر تقسیم ہوا اور اس کی شناخت کی نفی کی گئی تو ایک تو یہ پارلیمنٹ میں قانون سازی میں کمزور ہوگا اور دوسرا اس کو مشترکہ مفادات کونسل،ارسا میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا-شناخت اور ترقی کا جو باہمی رشتہ ہے اس کو نظر انداز کرنے کا دوسرا مقصد ہی دراصل کسی کو ان کے وسائل سے محروم کرنا ہوتا ہے-اور ان دونوں کو الگ الگ کرنا وسائل کی لوٹ مار کرنے والوں کی سب سے بڑی ضرورت ہوا کرتی ہے-اس کا مقصد ایک تو یہ ہوتا ہے کہ شناخت کا مطلبہ کرنے والوں پر آسانی کے ساتھ تعصب برتنے اور ان کو لسانی اور نسلی بنیادوں پر نفرت پھیلانے کا الزام دیا جاسکے-اس کا تیسرا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس خطہ میں جو اقلیتی نسلی یا لسانی گروہ ہو اس کو عدم تحفظ کا شکار کیا جائے-تاکہ قبضہ گیر اور ظالم حہمران ان علاقوں میں اپنے حامی پیدا کر سکیں-اس کا ایک فائدہ یہ ہوتا ہے کہ مظلوم قومیتی گروہ کے اندر بھی انتہا پسند طبقے جنم لیتے ہیں جن کی انتہا پسندی کو بنیاد بنا کر پوری قوم کی شناخت اور ان کے وسائل پر قبضہ جاری رکھا جاسکتا ہے-اور جبر کا کاروبار بھی جاری رکھا جاسکتا ہے-سرائیکی خطہ کے لوگوں کے ساتھ یہی کچھ ہورہا ہے-سرائیکی خطہ کے لوگ چاہتے کیا ہیں کہ ان کو سندھی،بلوچ،پنجابی اور پختوں قومیتوں کی طرح ایک برابر کا فریق تسلیم کیا جائے-ان کی اپنی صوبائی اسمبلی ہو-ان کی اپنی شناخت کے ساتھ قومی اور سینٹ میں نشستیں ہوں-ان کو ارسا اور مشترکہ مفادات کونسل میں نمائندگی ملے-ان کی اپنی کورٹ ہو-اور اس طرح سے وہ بھی اٹھارویں ترمیم سے ملنے والی خوداختیاری سے فائدہ اٹھا سکیں-وہ اپنی شناخت پالیں گے فیڈریشن میں تو وہ اپنےساتھ ہونے والی زیادتیوں کے خلاف منصب فورم پر آواز اٹھا سکیں گے-وہ عالمی عدالت سے رابطہ کر کے اپنے دریاؤں کی فروخت کا مقدمہ لور سکیں گے-کوئی تو ریلیف ملے گا-وہ تھل اور چولستان کی زمینوں کی لوٹ مار پر کیمشن بنا سکیں گے جو حقائق کو سامنے لیکر آئے گا-بہت سارے معاملات مشترکہ مفادات کونسل میں حل ہوں گے-ارسا میں بھی بہت سارے پانی کے ایشوز حل ہوں گے-
شکیل کہہ رہے تھے کہ سرائیکی خطہ کی شناخت اور ترقی باہمی طور پر ایک دوسرے کے ساتھ منسلک ہیں-اور یہ جاگیرداروں کی بقا کا ایشو ھرغز نہیں ہے جیسا عام طور پر کہا جاتا ہے- اگر سرائیکی صوبہ اپنی شناخت کے ساتھ بنا تو اس خطہ میں تیزی سے صنعت کاری کا عمل ہوگا-اور سرائیکی خطہ میں تنخواہ دار طبقہ ،اجرتی مزدور بھی تعداد میں زیادہ ہوں گے-اور یہ پروسس کسی کے روکنے سے نہیں رکے گا-سرائیکی خطہ اگر صوبہ بنتا ہے تو پانچ سالوں کے اندر اندر سرائیکی خطہ میں سیاست کا توازن اربن علاقوں کے حق میں ہوجائے گا-اور سرائیکی خطہ کی سہی آبادی بھی پروسسنگ کے میدان میں تنخواہ دار طبقے کو پیدا کرے گی-اور دیہی آبادی میں زمین کا سیاسی طاقت کی بنیاد ہونے پر بھی کافی کاری ضرب ہوگی-اور جاگیر دار سیاست دنوں کو زمین کی بجائے اپنی طاقت کی بنیاد انڈسٹری یا ٹریڈنگ کو بنانا ہوگا-اس کے بغیر وہ اپنی طاقت کھودیں گے-یہ مشاہدہ ہم اب بھی سرائیکی خطہ کے نیم اربن علاقوں میں کرسکتے ہیں جہاں صنعت کار اور ٹریڈنگ کلاس جاگیر دار طبقے کی جگہ سیاست میں ا رہی ہے-ابھی یہ عمل سست ہے لیکن جب اس صوبہ کے سارے وسائل پوری طرح سے اس خطہ پر استعمال ہوں گے تو ٹیکنولوجی تبدیلیاں تیزی سے لائے گی-یہ خطہ پروسسنگ،کاموڈیتی پروڈکشن میں ترقی کرے گا اور یہ قومی سرمیہ و عالمی سرمایہ میں اپنے حصہ میں اضافہ کرے گا تو یہاں مڈل کلاس اور مزدور طبقہ کی اکثریت ہوگی سماج میں جاگیرداری قصہ پارینہ ہوجائے گی-سرمیہ اور محنت کا تضاد جب غالب ہوگا تو فرمھنٹ کشوں کی انقلابی تحریک بھی تیزی سے آگے کی طرف سفر کرے گی-
میں اور شکیل یہ سب باتیں کر رہے تھے تو سورج منگلا کے پل سے آہستہ آہستہ غروب ہورہا تھا-میں نے اور شکیل نے واپسی بستی کی طرف جانے کے رخت سفر باندھا تو میں نے منگلا کے پل سے اترتے اترتے کہا کہ شکیل صاحب میری خواہش ہے کہ جب بھی سرائیکی صوبہ بنے تو منگلا کے پل پر وزیر اعظم،صدر مملکت اور پنجاب کے چیف منسٹر اور برطانیہ کا سفیر یہاں پر آئے -اور وہ سب مل کر سرائیکی قوم سے معافی مانگیں-اور سرائیکی خطہ کی ریڈ انڈین نائزیشن کے باذبتہ خاتمے کا اعلان کریں-شکیل کہنے لگے کہ عامر !تم بہت زیادہ رجائیت کا مظاہرہ کر رہے ہو-تو میں نے بے اختیار کہا جی ہاں یہ رجائیت بہت ضروری ہے-اس نے افریقہ ،عرب،ایشیا اور امریکہ میں قوموں اور ثقافتوں کو بدترین حالت میں بھی زندہ رکھا تھا-ہم بھی رجائیت کو قائم رکھیں گے اس دیں تک جب خود ظالم حکمرانوں کی نسل اور گروہ کے لوگ بھی ریڈ انڈین نائزیشن پر تبرا کریں گے-اور سرائیکیوں کی اپارتھیزیشن اور ان کی کالونزیشن کو ختم کریں گے-یہ کہ کر ہم جیپ میں بیٹھے اور منگلا کے پل سے دور ہوتے چلے گئے-
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔