(Last Updated On: )
گزشتہ صدی کے ربع آخر میں بلوچستان کے ضلع جھل مگسی میں آنکھ کھولنے والے اسرار احمد شاکر کا شمار اردو زبان و ادب کے نوجوان افسانہ نگار وں میں ہوتا ہے۔شاکر کا شمار دورِ حاضر کے اُن چند معدودوں میں ہوتا ہے جو بغیر کسی خوف یا ڈر کے سماجی حقیقت نگاری کا اَلم تھامے ہوئے ہیں۔ ان کی تحریروں میں گہرے سماجی شعور کی عکاسی ہوتی ہے۔ وہ عمیق نظری سے سماج کا مشاہدہ کرتے ہیں اور پھر اپنے مشاہدے کو کمال ہنری کے ساتھ صفحہ قرطاس لے آتے ہیں۔ اسرار احمد شاکر جس سماج میں پلے بڑھے اُس سماج کے مسائل اور حالات و واقعات کو مِن و عن اپنی کہانیوں میں پیش کرتے ہیں۔معاشرتی مسائل کو اُجاگر کرنا شاکر کا خاصا رہا ہے۔ شاکر کے دو افسانوی مجموعے بہ عنوان "میرے بھی کچھ افسانے" اور "آدھی ادھوری کہانیاں" منظر عام پر آ چکے ہیں۔
شاکر کے افسانوی مجموعہ "آدھی ادھوری کہانیاں" کے حوالے سے بات کی جائے تو یہ مجموعہ ۲۰۲۰ء میں منظر عام پر آیا۔ اس کتاب میں شامل سب سے پہلا افسانہ "دو شادیوں کے بیچ, محبت اور موت کا حال" کے عنوان سے ہے۔ اس افسانے میں مصنف نے ایک شادی شدہ جوڑے کو موضوع بحث بنایا ہے۔ جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ، شادی محض دو جسموں کے ملاپ کا نام نہیں بلکہ جذبات، احساسات اورخیالات کا ہم آہنگ ہونا بھی ضروری ہے۔ بصورت دیگر شادی، شادی نہیں بلکہ بربادی کا سبب بنتی ہے۔ بظاہر مادی خواہشات اور آسائشات کا حصول تو ممکن ہوتا ہے، لیکن انسان باطنی سکون جو اُس کی حقیقی خوشی کا باعث بنتا ہے، اُس سے محروم رہتا ہے۔ کہانی میں ایک ایسی عورت کی نفسیات پر خامہ فرسائی کی گئی ہے جو اپنے شوہر سے محبت تو کرتی ہے، لیکن اس کے باطن سے بے خبر رہتی ہے۔ یہی بے خبری اس کے شوہر کے جذبات کا خون کرنے کا سبب بنتی ہے۔
انسان زندگی کے کسی بھی سٹیج پر پہنچ جائے، وہ اپنے ماضی کو کبھی بھلا نہیں سکتا۔ ماضی کی اچھی، بری یادیں ہمیشہ اس کے ذہن پر نقش ہوتی ہیں۔ کچھ ایسی ہی صورتحال کا تذکرہ افسانہ "برسوں بعد" میں ہوتا ہے۔ کہانی کا مرکزی موضوع جمال اور شادو کی محبت کا ہے۔ جو دونوں کے بیچ آغاز شباب کے موقع پر جنم لیتی ہے۔ لیکن جس معاشرے میں یہ فعل سر انجام دیا جاتا ہے۔ وہاں محبت کرنا فقط گناہ ہی نہیں بلکہ جرم تصور کیا جاتا ہے۔ آغاز میں تو یہ راز ہی رہتا ہے، لیکن جب یہ قصہ منظر عام پر آتا ہے، تو بات پنچائیت تک جا پہنچتی ہے۔ جمال کے نام و نسب اور خاندانی وقار کو مد نظر رکھتے ہوئے اس کی جان بخشی تو ہو جاتی ہے، لیکن اسے گاؤں سے بیس سالوں کے لئے نکال دیا جاتا ہے۔ اس دوران جمال شہر میں تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف ہو جاتا ہے، جبکہ شادو گاؤں ہی میں رہتی ہے۔ اسی دوران قبائل کی لڑائی میں دیگر عورتوں کی طرح شادو کو بھی مخالف قبیلے کو خون بہا میں بیاہ دی جاتی ہے۔ جمال جب بیس سال گاؤں سے باہر گزار کے بعد واپس لوٹتا ہے تو سب کچھ اس کی توقعات کے عین برعکس ہوتا ہے۔ وہ جس گاوں اور شادو کا سپنا لیے گاؤں کا رخ کرتا ہے وہ گاؤں پہنچتے ہی کرچی کرچی ہو جاتا ہے۔ اسی اثناء میں ماضی کی خوبصورت یادیں جس میں شادو سے محبت اور گاؤں کا منظر نامہ اس کے لئے زہر قاتل بن جاتی ہیں۔ اور اسی کشمکش میں اس کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ جمال اور شادو کی محبت کے پس منظر میں ایک تہذیب کے زوال کی داستان بھی بیان کی گئی ہے جو سماجی لا شعوری اور ذہنی پسماندگی کی وجہ سے زوال پذیر ہوتی ہے۔اس کے علاوہ کہانی میں وڈیرہ شاہی، جنس نگاری اور دیگر فرسودہ روایات کو بھی موضوع بحث بنایا گیا ہے۔
جس معاشرے میں اجتماعیت کی جگہ انفرادیت لے لے وہ معاشرہ اپنی موت آپ ہی مر جاتا ہے۔ کیوں کہ معاشرے کو تباہ و برباد کرنے والے عوامل اور مسائل انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی سطح پر حل کیے جاتے ہیں۔ کتاب میں شامل افسانہ "بستی کا کرب" کچھ ایسی ہی صورت حال کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ کہانی تین کرداروں کے گرد گھومتی ہے۔ جس میں ایک کردا پڑھی لکھی لڑکی نازو کا ہے۔ جو معاشرے کا سدھار چاہتی ہے۔ نازو فرسودہ روایات اور نظام کے خلاف آواز اٹھاتی ہے۔ مصنف کہانی کا آغاز نازو کے درج ذیل واعظ سے کرتا ہے:
"یہ بھی کیا زندگی ہوئی جی ۔۔۔۔ نہ اپنی خبر، کسی اور کا پتہ۔۔۔۔ بستی لٹ جاتی ہے، چرچا لٹیروں کے جانے کے بعد اگلے دن سنائی دیتا ہے۔ دھیمے لہجے میں بستی کاروں کے رونے والوں کے خوف کا عالم یہ کہ سہمے جاتے ہیں۔ اس لیے نہیں کہ افتاد ان پر آن پڑی ہے۔ ڈر یہ ہے کہ گورے بدمعاش کی نظروں میں نہ آجائیں، مزید یہ کہ مصیبت ان کے سر سے ٹلی رہے، یہ بھی کہ ان کی جگہ کوئی اور لوٹا جائے۔"(1)
جب کہ دوسرا کردار دادون کا ہے جو عورتوں کا رسیا تھا۔ عورتوں کو اپنے جال میں پھنسانا اس کا محبوب ترین مشغلہ تھا۔ ایک دن اس کا دل شہر کی معروف طوائف پر اٹک گیا، لیکن وہ طوائف اس کو کسی صورت منہ نہ لگانا چاہتی تھی۔ دادون اپنی شاطرانہ حس کو بروئے کار لاکر اس کے گھر میں گھسنے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی دوران وہ طوائف اس پر جھپٹ پڑتی ہے اور چاقو کے وار کرنا شروع کر دیتی ہے ۔ اور اسی دوران دادون کی موت واقع ہو جاتی ہے۔ اس کہانی کا تیسرا اور اہم کردار گورا بدمعاش کا ہے۔ جو اپنی طاقت کے بل بوتے پر گاؤں والوں پر اپنا خوف مسلط کئے ہوئے تھا۔ لیکن المیہ یہ تھا کہ کوئی بھی اس کے خلاف آواز نہ اٹھاتا تھا۔ گورا بدمعاش اپنی طاقت کا ناجائز استعمال کرتا اور وقتا فوقتا گاؤں میں لوٹ مار بھی کرتا۔ گاؤں والوں کے پاس سوائے چپ کے اور کوئی حل نہ تھا۔ مصنف نے اس کہانی کے ذریعے ہمیں انفرادی سوچ رکھنے والے معاشرے کا احوال بتایا ہے۔ اور اس معاشرے کو ایک طوائف کے ڈیرے سے تشبیہ دی ہے۔ اور یہ بات واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ایک طوائف یعنی عورت اپنے تحفظ کے لیے مخالف پر جھپٹ پڑتی ہے جبکہ دوسری طرف پورا علاقہ ایک بدمعاش کے ہاتھوں سہما ہوا ہے۔ بنیادی طور پر کہانی میں یہ بات واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ اپنے حقوق اور ان کے تحفظ کے لئے ہمیں ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔
عورت کی استحصالی اور جنسی امتیاز اسرار احمد شاکر کی کہانیوں کا اہم موضوع رہا۔ مجموعی طور پر یہ دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے کی عورت اکثریتی سطح پر زمانہ جاہلیت والی زندگی گزار رہی ہے۔ ہمارے معاشرے میں عورت کو آج بھی باندی اور غلام ہی سمجھا جاتا ہے۔ عورت کو آج بھی بجائے رحمت کے زحمت ہی سمجھا جاتا ہے۔ ایسی ہی صورتحال کا شکار افسانہ "بودلی" کی مرکزی کردار بودلی نظر آتی ہے۔ بودلی جسے اس کا شوہر طلاق دے دیتا ہے اور وہ اپنی اکلوتی بیٹی کے ہمراہ اپنے والدین کے گھر آ جاتی ہے۔ لیکن جلد ہی اسے اپنے والدین کا گھر بھائیوں کی نوک جوک اور بھاوجوں کے طعنوں سے تنگ آکر چھوڑنا پڑتا ہے۔ بودلی اپنی بیٹی کے ہمراہ شہر کا رخ کرتی ہے۔ جہاں اسے کئی روز تک کھلے آسمان تلے اور بھوکا رہنا پڑتا ہے۔ بالآخر حالات سے تنگ آکر اس نے لوگوں کی منت سماجت کرنا شروع کر دی تاکہ اسے سر چھپانے اور پیٹ بھرنے کا کوئی ذریعہ مل سکے۔ شہر کا ایک سیٹھ محض اس لیے بودلی کو تھوڑی سی خالی جگہ فراہم کرتا ہے کہ، وہ اس کے بدلے اس کے گھر کام کاج کرے گی۔ بودلی اس خالی جگہ پر تمبو لگاتی ہے اور کام کاج پر لگ جاتی ہے۔ اسی دوران اس کا سامنا سیٹھ کی نوجوان بیٹی جیسمین سے ہوتا ہے۔ جیسمین نہ صرف مغرب میں پڑھی بلکہ یہاں بھی وہ مکمل طور پر مغربی معاشرت کے مطابق کی اپنی زندگی گزار رہی تھی۔ بودلی کو گھروں میں کام کرنے کی عوض اپنے اور اپنی بیٹی کے لیے نہ صرف کھانا بلکہ تھوڑا بہت معاوضہ اور استعمال شدہ کپڑے بھی مل جاتے۔ بچوں کے جیسے تیسے کپڑے بودلی کو ملتے وہ اپنی بیٹی کو پہنا دیتی۔ یہاں تک تو ٹھیک تھا لیکن کہانی میں اس وقت ایک زبردست موڑ اس وقت آتا ہے جب بودلی کا سامنا ایک مولوی سے ہوتا ہے۔ مولوی بودلی اور اس کی بیٹی پر گہری نظر رکھتا ہے۔ ایک روز وہ ان کا راستہ روکتا ہے اور اسے اس کی بیٹی کے مختصر لباس پر سخت تنقید کا نشانہ بناتا ہے اور اپنی بیٹی کا سکارف بودلی کی بیٹی کو پہنا دیتا ہے۔ بودلی جب اپنی بیٹی کے ہمراہ سیٹھ کے گھر پہنچتی ہے تو وہاں اسے جیسمین کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جیسمین اس کی بیٹی کا حلیہ دیکھ کر اسی سخت تنقید کا نشانہ بناتی ہے۔ اور اسے اپنی بیٹی پر مرضی مسلسط کرنے سے روکتی ہے۔ اور اسے بتاتی ہے کہ ہمیں اس بات کا کوئی اختیار حاصل نہیں کہ ہم اپنے بچوں کو اپنے بنائے ہوئے قوائد کے مطابق زندگی گزارنے کا حکم دیں۔ بلکہ ہمارا بنیادی فرض یہ ہے کہ بچوں کی پرورش کریں اور انسانیت کی تعلیم و تربیت دیں۔ زندگی کے مستقبل کا تعین کا فیصلہ اپنے بچوں کو کرنے دیں۔ بودلی جیسمین اور مولوی کے واعظ کے بعد اس الجھن کا شکار ہو جاتی ہے کہ وہ کیا فیصلہ کرے؟ ایک طرف پیٹ تھا جب کہ دوسری طرف مذہبی روایات کی پاسداری، ایک طرف اس کے محلے کا مولوی جبکہ دوسری طرف مغرب سے پڑھ کر آنے والی ماڈرن جیسمین اس کشمکش اور الجھن سے خود کو نکالنے کے لیے فیصلہ کرنا تھا۔ اسے دونوں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ بودلی جیسمین کے خاندانی پس منظر اور اس کی تعلیم و تربیت کو دیکھتے ہوئے اس کی کہی ہوئی باتوں پر عمل پیرا ہونے کا فیصلہ کرتی ہے۔ بنیادی طور پر کہانی میں ہمارے ہاں عورت کے مقام و مرتبے اور سماجی اقدار کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔ بودلی کا جیسمین کی طرف جھکاؤ ایک فطری عمل تھا۔ کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ مادی ضروریات زندگی کا حصول جیسمین ہی کی بدولت تھا۔ اسے اپنے پیٹ کا دوزخ بھرنے اور جسم کو ڈھانپنے کے لیے جیسمین جیسے لوگوں کی ضرورت تھی۔ کہانی میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ جب تک ہم کسی شخص کی ضروریات اور اس کو مخصوص مقام مرتبہ باہم فراہم نہیں کرتے تو ہم ان پر اپنی مرضی مسلط کرنے سے باز رہیں۔
ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم فضول مذہبی رسومات پر دنیا کو دکھانے کیلئے بے بہا پیسہ اور اپنی خدمات صرف کرتے ہیں، تاکہ دنیا ہمیں متقی و پرہیزگار کہے۔ اس عمل کے ذریعے ہم لوگوں کی داد و تحسین تو حاصل کر لیتے ہیں ،لیکن خدا کی خوشنودی حاصل کرنے سے قاصر رہتے ہیں۔ ایسا ہی قصہ "حاجی صاحب کے بارہویں حج کی تکمیل کا قصہ" میں بیان کیا گیا ہے۔ گیارہ بار حج کی سعادت حاصل کرنے والے الحاج فضل خان اپنے سماج میں انتہائی متقی و پرہیز گار تصور کیے جاتے۔ حاجی صاحب کے بارہویں حج کا محرک اخبار کی وہ خبر بنی، جو انہوں نے ناشتے کی میز پر غربت اور مہنگائی سے تنگ آکر اپنے بچے بیچنے والی ماں کی خبر کے عین نیچے اس باد شاہ زادے کا تذکرہ تھا جو گیارہویں حج کے لئے عازم سفر ہوا تھا۔ اس خبر کو پڑھنے کے بعد حاجی صاحب کے دل میں اس عورت کے لئے نفرت جبکہ دوسری طرف اس بادشاہ زادے سے سبقت لے جانے کا خیال پیدا ہوتا ہے۔ اس ساری صورتحال کو مصنف کہانی میں کچھ اس طرح سے بیان کرتے ہیں کہ:
"تف ہے ایسی ماں پر جو معمولی مسائل کا سامنا نہیں کر سکتی، بچے بیچنے بازار چلی آتی ہے۔" اس کا جی متلایا تو اس نے تلملا کر کہا تھا۔ پھر اس نے حقارت بھری نظروں سے اس خاتون کی طرف دیکھا تھا اور دیگر خبروں کی جانب متوجہ ہو گیا تھا۔ پہلی تصویر کا تاثر ابھی اس کے ذہن پر باقی تھا کہ دوسری تصویر اسے نظر آتے ہی بھا گئی تھی، اس تصویر نے تو جیسے اسے نہال کر دیا تھا۔ یہ تصویر آپ نے ملک کے بادشاہ زادے کی تھی، جو اعلیٰ قسم کا احرام زیب تن کی ہوئے خانہ کعبہ کا طواف کرتا ہوا دکھائی دیتا تھا۔ تصویر کے نیچے بادشاہ کا نام لکھا تھا۔ یہ بھی لکھا تھا کہ یہ بادشاہ زادے کا گیارواں سرکاری حج تھا۔ اخبار کے سرورق پر چھپی ہوئی دوسری تصویر اس کے مزاج کا عین عکس تھی۔ جسے دیکھتے ہیں بادشاہ زادے پرسبقت لے جانے کی چاہ اس کے دل میں انگڑائی لے کر جاگ اُٹھی تھی اور وہ عازم حج ہوا تھا۔"(2)
کہانی میں ایک ایسے طبقے کو موضوع بحث بنایا گیا ہے جو خلق خدا وندی سے بے نیاز ہوکر خدا کی خوشنودی حاصل کرنے میں مصروف عمل نظر آتا ہے۔ جن کے ہمسائے فاقوں سے مر رہے ہوتے ہیں، جبکہ وہ بیچ چوراہے میں نیاز بانٹتے نظر آتے ہیں۔ساتھ ہی ساتھ ایک ایسے حاکم وقت کو بھی آڑے ہاتھوں لیا جاتا ہے جو اپنی رعایا کے مسائل سے بے خبر خدا کا قرب حاصل کرنے میں محو نظر آتا ہے۔ مجموعی طور پر کہانی میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی ہے کہ خدا کا قرب حاصل کرنے سے پہلے خلق خداوندی کا قرب حاصل کیا جائے۔ ان کے مسائل کے حل کے لئے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔
ہمارے ہاں کسی بھی شخص کے معیار و مرتبہ اور مقام کا تعین اس کا نام ونسب یا مال و دولت کو مد نظر رکھ کر کیا جاتا ہے۔ ہم کسی بھی شخص کی کردار سازی کرتے وقت اس کی ظاہر پر ہی دھیان دیتے ہیں، جبکہ اس کے باطن کو یکسر بھلا دیتے ہیں۔ حالاں کہ انسان کے اصل کا پتا اس کے باطن سے چلتا ہے۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ دنیا ظاہر کی دلدادہ ہے۔ آپ اچھے نام ونسب یا مال و دولت کے مالک ہیں، تو دنیا آپ کو جھک کر سلام کرے گی، بصورت دیگر آپ بھلے ہی اعلیٰ اوصاف کے مالک ہوں آپ کی کوئی قدر نہیں کرے گا۔ "تھڑے کا افسانہ" لکھ کر اسرار احمد شاکر نے ان حقائق سے پردہ اٹھایا ہے جس کا شکار آج کے بہت اچھے قلمکار ہیں۔ یہ کہانی ایک ایسے قلمکار کی ہے جو نہ صرف کہانیاں لکھتا ہے بلکہ وہ انہیں کسی میگزین میں چھپوانے کا بھی خواہش مند ہوتا ہے۔ گو کہ اس کی کہانیوں کا موضوع جاندار ہوتا ہے لیکن وہ کسی اچھے نام و نسب کا مالک نہیں ہوتا، جس کی وجہ سے اس کی کہانیاں منظرعام پر آنے سے قاصر رہتیں ہیں۔ لیکن ایک دن غلطی اس کی کہانی کسی بڑے اخبار کے ادبی صفحہ کی زینت بن جاتی ہے۔ لیکن غلطی سے اس کے اصل نام کے ساتھ ڈاکٹر لکھ دیا جاتا ہے۔ ایک طرف کہانی چھپنے کی خوشی اور دوسری طرف نام کی تبدیلی اسے بے چین کر دیتی ہے۔ اسی عالم میں وہ اپنے استاد کے پاس جا پہنچتا ہے اور استاد کو ساری صورتحال سے آگاہ کرتا ہے۔ استاد نہ صرف اسے چھپنے والے نام کے ساتھ لکھنے کی نصیحت کرتا ہے بلکہ اسے دور جدید کے تقاضوں سے بھی آگاہ کرتا ہے۔ اس حوالے سے کہانی کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
"استاد دور سے ہی اس کی بے چینی بھانپ گیا تھا۔ کیونکہ یہ کیا دھرا سب اس کے استاد کا تھا۔ کمال خان جیسی ہی اس کے قریب آیا ۔۔۔۔ شہر کے معروف ادیب اور اس کے استاد نے اس کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا:
"بیٹا گھبراؤ نہیں۔۔۔۔۔ یہاں بندے کا کام نہیں۔۔۔۔۔ نام دیکھا جاتا ہے۔ آئندہ تم اسی نام سے کہانی لکھنا، امید ہے چھب جائے گی۔"
کمال خان اپنے استاد کی بات سمجھ چکا تھا۔"(3)
ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ ہر شعبے میں نام و نسب اور ظاہری عہدے کو دیکھا جاتا ہے، اور انہی عناصر کو مد نظر رکھ کر کسی بھی شخص کی آؤ بھگت کی جاتی ہے۔ جس کا بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ اہل بندے کی جگہ نا اہل لے لیتا ہے۔ جس معاشرے میں یہ برائی عام ہو جائے اس معاشرے کا تباہ ہونا لازم ہو جاتا ہے۔
کتاب میں شامل ایک اور کہانی "پانچ سیکنڈ کی کہانی" جسے قاری بظاہر پانچ منٹ میں پڑھ لیتا ہے، لیکن یہ کہانی قاری کو غوروفکر کے بحر بیکراں میں لے جاتی ہے۔ کہانی کا بنیادی موضوع ایک ماں کی ممتا اور طبقاتی استحصالی کے گرد گھومتی ہے۔ کہانی کا مرکزی کردار "مُنا" جو اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہے۔ حاجو کے بطن سے جنم لینے والا منا اپنے والدین کی تمام تر امیدوں اور توجہ کا مرکز ہوتا ہے۔ منا کو اس کی پیدائش کے وقت سے ہی ممتا کا بے پناہ پیار اور والدین کی قربت ملتی ہے۔ اس حوالے سے کہانی کا اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
"جس دن وہ پیدا ہوا ماں کا جیون اس کے ساتھ جڑ چکا تھا۔ وہ نہ صرف خود اس پرواری جاتی، بلکہ اپنے خاوند سے بھی بچے کے لیے ویسے ہی پیار کی متمنی رہتی تھی۔ وہ بار بار اس کی توجہ بچے کی جانب مبذول کرائی، لیکن ماں کی محبت شاید دنیا میں کوئی نعم البدل ہی نہیں ہے۔ بچہ روتا تو وہ تڑپ اٹھتی تھی۔ جب وہ ہنستا، کلکاریاں مارتا غوں غوں کرتا تو وہ بھی کھلکھلا اٹھتی تھی۔"(4)
منا کا باپ رانجھن محنت مزدوری کرتا ہے اور اپنے بیٹے کی ہر خواہش پوری کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ وہ نہ صرف اپنے بیٹے سے کئی توقعات لگا بیٹھتا ہے، بلکہ ان کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ہر ممکن کوشش بھی کرتا ہے۔ رانجھن منا کی تعلیم و تربیت کے لیے شہر کا رخ اختیار کرتا ہے۔ اسی دوران منا کا باپ اس کی منگنی اس لڑکی سے طے کرتا ہے جس سے منا بے پناہ محبت کرتا تھا۔ لیکن منا اس خبر سے نا واقف ہوتا ہے۔ اس کی ماں اس خبر کو راز میں رکھتی ہے۔ منگنی کے اگلے روز منا جب اسکول جانے لگتا ہے تو اس کی ماں واپسی پر اُسے ایک خوشخبری سنانے کا وعدہ کرتی ہے۔ لیکن حاجو اس بات سے بے خبر ہوتی ہے کہ اس کا بیٹا ہمیشہ کے لئے جا رہا ہے۔ منا اپنی سائیکل پر سکول کی راہ لیتا ہے کہ اسی دوران ایک کار والا اس سے ٹکر مار کر گرا دیتا ہے۔ یہ محض کوئی حادثہ نہ تھا بلکہ سوچی سمجھی سازش تھی۔ اس کار سے شراب کے نشے میں چور اپنے ہاتھوں میں پستول لئے ایک نوجوان اترتا ہے۔ منا کے قریب آ کر اس کی کنپٹی پر پستول رکھتا ہے اور فائر کرنے سے پہلے بلند آواز سے چیختا ہے:
"میری معشوقہ سے شادی کرے گا۔۔۔۔ تیری تو۔۔۔۔"(5)
اوباش لڑکا ہمارے معاشرے کے طاقتور طبقے کی وہ بدترین علامت ہے جس کا سامنا ان کے راستے میں آنے والی رکاوٹوں کو کرنا پڑتا ہے۔ اس دوران جائز یا ناجائز راستہ ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ ان کا مقصد صرف اور صرف حصول ہوتا ہے بھلے ہی اس دوران انسانیت کا خون ہی کیوں نہ ہو جائے۔ "پانچ سیکنڈ کی کہانی" کا بنیادی موضوع ایسے طبقے کو تنقید کا نشانہ بنانا ہے، جو اپنی پسند و نا پسند کی خاطر معصوم لوگوں کے جذبات، احساسات اور خوابوں کا خون کرتے ہیں۔
"آدھی ادھوری کہانیاں" میں افسانوں کے علاوہ کچھ افسانچے بھی شامل ہیں۔ گزشتہ مختصر عرصے میں اردو زبان و ادب کے میدان میں نئی متعارف ہونے والی صنف "افسانچہ" جسے Micro Fiction بھی کہا جاتا ہے، فکشن لکھنے والوں کی توجہ کا مرکز بن چکی ہے۔اسرار احمد شاکر کی افسانچہ نگاری کے حوالے سے اگر بات کی جائے تو ان کے افسانچے بھی دیگر افسانوں کی طرح سماجی حقیقت نگاری سے لیس نظر آتے ہیں۔
یہ بات انسان کی فطرت میں شامل ہے کہ وہ خود بھلے ہی جیسا بھی ہو لیکن دوسروں میں نقطہ چینی کرنا اس کا محبوب ترین مشغلہ ہے۔ ہمارے ہاں ہر کوئی دوسرے پر انگلی اٹھاتا نظر آتا ہے، لیکن اپنا محاسبہ کوئی نہیں کرتا۔ ہم لوگ ایک دوسرے کو معاشرے کی تباہ حالی کا سبب گردانتے ہیں ، لیکن اس تباہی و بربادی میں اپنی حصے کو فراموش کر دیتے ہیں۔ مصنف اس ساری صورتحال کو افسانچہ"حرام خور" میں بڑی عمدگی کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ جہاں ایک طرف بجلی کی بندش پر پورا سماج منتظمین کو برا بھلا کہہ رہا ہوتا ہے اور دوسری طرف وہ خود غیر منصفانہ رویوں پر عمل پیرا ہوتا ہے۔ ملاوٹ شدہ اشیاء بیچنے والے بھی واپڈا والوں کی کارستانیوں پر انہیں لعن طعن کرتے نظر آتے ہیں، لیکن اپنا قبلہ درست کرنے کے بارے میں نہیں سوچتے۔
اندھی تقلید ہمارے ہاں ایک بہت بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔ ہم اپنے سیاسی و مذہبی رہنما کی تقلید کرتے وقت ایسا جنونی رویہ اختیار کر لیتے ہیں، کہ ہم اپنے ارد گرد سے بھی غافل ہو جاتے ہیں۔ آج کے سوشل میڈیا کے دور میں ہم لوگ ہمہ وقت اپنے رہنماؤں کی تعریف و توصیف اور ان کے دفاع میں مگن رہتے ہیں۔ اس حوالے سے افسانچہ "جیالا" کا اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
"دراصل وہ اپنے محبوب سیاسی لیڈر اور ہلکے کے پشت پشتی نمائندے کے متعلق توصیفی کلمات پر مشتمل پوسٹ لکھنے لگا تھا۔ کچھ یوں کہ:
"میر خیانت خان مخلص، ایماندار اور عوام دوست لیڈر ہے۔ وہ کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ اس نے شہر میں ترقیاتی کاموں کا جال بچھا دیا ہے۔ شکریہ میر صاحب ۔۔۔۔۔۔ شکریہ "
ابھی وہ تحریر کی سیٹنگ و ایڈیٹنگ میں محو تھا کہ ناگاہ اسے اپنے قدموں کے نیچے سے شڑاب شڑاب کی آواز سنائی دی۔ اس نے جوں ہی موبائل کی اسکرین سے نظر ہٹا کر دیکھا، وہ روڈ پر ابلتے گٹر اور نالیوں کے گندے پانی میں دنس چکا تھا۔"(6)
اس مختصر سی کہانی میں یہ بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ ہم سیاسی و مذہبی راہنماؤں کی تقلید کرتے وقت اپنی آنکھوں کو کھلا رکھیں۔
"شہر اقتدار کا کارندہ" افسانچے دو مختلف تہذیبوں کی روداد بیان کی گئی ہے۔ ایک طرف جدید اور ترقی یافتہ تہذیب کی بنیاد جبکہ دوسری طرف خستہ حال اور بنیادی ضروریات سے محروم تہذیب کی منظر کشی کی گئی ہے۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو ہم لوگ پہلے سے موجود اشیاء کی قدر کرنے کی بجائے اپنی نظریں کہیں اور جما لیتے ہیں۔ ایسی ہی صورتحال کی عکاسی "شہر اقتدار کا کارندہ" میں کی گئی ہے۔ کہانی سے اقتباس ملاحظہ فرمائیں:
"شہر سے کچھ دور مقامی باشندوں کی بستی آباد تھی۔ وہی پرانے گھروندے، سادہ لوگ، کشتی رانی کے لئے استعمال ہوتے شکستہ حال بیڑے۔۔۔۔ کوسوں دور، گندے گدلے جوہڑوں سے پانی بھرنے، قطار در قطار عورتیں سروں پر مٹکے اور مشکیزے اٹھائے ہوئے جاتی تھیں۔۔۔۔۔ نئے آباد ہوتے شہر کا ہر رنگ نرالا تھا۔ ہر چیز اچھوتی، ہر منظر دیدنی تھا۔۔۔۔ اور وہ بستی بھی ۔۔۔۔۔؟؟؟
شہر اقتدار کا کارندہ، ترقی یافتہ شہر کے مسحور کن مناظر میں کھو چکا تھا"(7)
زیر بحث کہانی میں مصنف جہاں جدید تہذیب کی بنیاد کے حوالے سے بات کرتے ہیں تو وہیں پہلے سے موجود تہذیبوں کے مسائل پر بھی روشنی ڈالتے ہیں۔ سماجی حقیقت نگاری کے حوالے سے یہ کہانی عمدہ مثال ہے۔ اگر ہم اپنے اردگرد دیکھیں تو نئی آباد ہونے والی کالونیوں پر لوگ اربوں روپے خرچ کر دیتے ہیں، جبکہ ان کے ساتھ موجود بنیادی ضروریات سے محروم غریب بستیاں بے یارومددگار اپنے انجام کی منتظر نظر آتی ہیں۔
کتاب میں شامل دیگر افسانچوں میں "تربیت" افسانچہ ایک ایسے طبقے کی نفسیات کا احاطہ کرتا جو معاشرے میں اصلاح تو چاہتا ہے لیکن خود عملی طور پر اصلاحی کام کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ کہانی کا کردار نعیم اپنے بچوں کو آداب و اخلاق کی تربیت دیتا ہوا نظر آتا ہے کہ، اسی دوران نعیم کی ماں اس سے مخاطب ہونے کی کوشش کرتی ہے۔ نعیم بجائے اپنی ماں کی بات کو سنتا وہ اپنی ماں کی بات پر تلملا اٹھا اور کہا :
"تمہیں دکھائی نہیں دیتا ماں۔۔۔۔ میں بچوں کو تہذیب سکھا رہا ہوں ، اور تم لگاتار بولے جا رہی ہو۔" اس کا چہرہ غصے سے تمتما اٹھا تھا۔
بیٹے کو یوں آپے سے باہر ہوتا دیکھ کر اس کی بوڑھی ماں، کچھ بولے بغیر الٹے پیر واپس لوٹ گئی تھی، جب کہ نعیم بدمزہ ہو چکا تھا۔
اس نے زور سے چٹکی بجائی اور بچوں سے کہا:
"چلو بچو۔۔۔۔! آج کے لیے اتنا کافی ہے۔"(8)
نعیم اپنے بچوں کی اچھی تربیت کا خواہاں ہے، لیکن خود اس حوالے سے وہ بالکل ان اوصاف سے خالی ۔ حاصل بحث یہی ہے کہ ہم جب بھی کسی قسم کی تبلیغ کرنے کا تہیہ کریں تو سب سے پہلے خود اس پر عمل پیرا ہونے کی عملی کوشش کریں۔ تاکہ لوگ شخصیت اور قول و فعل سے متاثر ہو کر ہماری پیروی کریں۔
کتاب میں شامل افسانچہ "دہشت گرد " ان مظلوموں کی کتھا ہے جو آزادی اور انصاف کے حصول کے لیے آواز اٹھاتے ہیں اور بدلے میں انہیں دہشت گرد قرار دے کر مار دیا جاتا ہے۔ اس حوالے سے اسرار احمد شاکر کا افسانچہ ملاحظہ فرمائیں:
"دہشت گرد"
"بھون ڈالو! انہیں، یہ دہشت گرد ہیں۔"
ہر دن کی طرح آج بھی وردی پوشوں کے سینئر افسر نے آزادی کے حق میں نعرے لگاتے نوجوانوں کو آگے بڑھتے دیکھا تو، اپنے سپاہیوں کو سخت حکم دے دیا تھا۔
حکم ملتے ہی، بیک وقت غاصب آرمی کے بندوق برداروں نے فائر کھول دیے تھے۔ فضا گولیوں کی تڑتڑاہٹ سے گونجتی اٹھی تھی اور خون میں لت پت 'دہشت گرد' نوجوان زمین پر آگرے تھے۔
ان کے ہاتھوں کی بند مٹھیوں میں چھوٹے چھوٹے کنکر اور پتھر تھے۔۔۔۔!!"(9)
زیر بحث افسانچہ صرف ہمارے ہی نہیں بلکہ بین الاقوامی سطح پر کئی ممالک میں جاری بربریت کی عکاسی کرتا ہے۔ جہاں حقوق اور انصاف کے حصول کے لیے آواز اٹھانے والوں کو بدلے میں ریاستی و سامراجی دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کتاب کے آخر میں شامل افسانچہ "تضاد" جس میں انفرادی سوچ کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس کہانی کا موضوع کتاب میں شامل گزشتہ افسانے "بستی کا کرب" سے ملتا جلتا ہے۔ جب معاشرہ اجتماعی سطح پر حل ہونے والے مسائل کو انفرادی سطح پر حل کرنے کی کوشش کرے تو یہ ناممکن ہوتا ہے کہ وہ مسائل حل ہو جائیں۔ اجتماعی سطح پر پیدا ہونے والے مسائل کو حل کرنے کے لئے اجتماعی سوچ کا ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح ایک اور افسانچہ "سخی" کا موضوع کتاب میں شامل افسانے "حاجی صاحب کے بارہویں حج کی تکمیل کا قصہ" سے خاصا ملتا جلتا ہے۔ جس کا موضوع معاشرے کا وہ متقی و پرہیزگار طبقہ ہے، جو اپنی سخاوت کا اظہار کرنے کے لیے بیچ چوراہے میں نیاز بانٹتا ہوا نظر آتا ہے۔ جبکہ اس کا ہمسایہ فاقوں سے مر رہا ہوتا ہے۔
مجموعی طور پر اسرار احمد شاکر کی کہانیاں کوئی دیو مالائی کہانیاں نہیں، بلکہ ان کا حقیقت کے ساتھ گہرا ربط ہے۔ ان کی کہانیوں میں جنسی امتیاز، عورتوں کے حقوق، دیہی زندگی کے مسائل، طبقاتی استحصالی، وڈیرہ شاہی نظام اور مظلوم طبقے کی بھرپور عکاسی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ جنس نگاری بھی کہیں کہیں واضح انداز میں نظر آتی ہے جس سے سماج میں جنسی گھٹن کی بھر پور عکاسی ہوتی ہے۔ وہ اپنے سماج اور سماج سے جڑے لوگوں کی نفسیات سے نہ صرف اچھی طرح واقف ہیں بلکہ اس کا اظہار ان کی کہانیوں میں بھی ہوتا۔ قصہ مختصر اسرار احمد شاکر، ڈاکٹر سلیم اختر کے اس قول پر بالکل پورا اترتے ہیں جس میں وہ ایک ماہر افسانہ نگار میں پائے جانے والے اوصاف کا تذکرہ کرتے ہیں۔ سلیم اختر کے بقول:
"ذہین افسانہ نگار جب افراد کا مطالعہ کرتا ہے تو ظاہر اور عیاں سے قطع نظر کرتے ہوئے سائیکی کے نہاں خانوں میں جھانکنے کی کوشش کرتا ہے۔ جس طرح طبقات الارض کا ماہر زمین کی سطح سے دھوکا نہیں کھاتا اسی طرح انسانی فطرت کی نبض بھی خفیف سے خفیفف محسوس کرنے والا افسانہ نگار یہ جانتا ہے کہ اصل انسان باہر نہیں بلکہ اندر ہے۔"(10)
اسرار احمد شاکر کی کہانیاں سماج کی وہ کتھائیں ہیں، جن کو بیان کرنے کے لیے دل جگر ے کا ہونا ضروری ہے۔ان کی کہانیوں کے موضوعات عام روزمرہ کے ہیں، جن کو خاص میں پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔اسرار احمد شاکر کی آدھی ادھوری کہانیاں اُس وقت تک ادھوری رہیں گی، جب تک سماج سے اُن مسائل کا خاتمہ نہ ہو جائے، جن کا اظہار شاکر کی کہانیوں میں کیا گیا ہے۔
حوالہ جات:
۱- اسرار احمد شاکر،)۲۰۲۰ء(، "آدھی ادھوری کہانیاں"، مہر در انسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ اینڈ پبلی کیشن،
کوئٹہ، ص- 39
۲- ایضاً، ص-58
۳- ایضاً، ص-83
۴- ایضاً، ص- 86
۵- ایضاً، ص- 92
۶- ایضاً، ص- 99
۷- ایضاً، ص- 102
۸- ایضاً، ص- 104
۹- ایضاً، ص- 106
۱۰- سلیم اختر ،)۱۹۸۰ء(، " افسانہ حقیقت سے علامت تک" ، اردو رائٹرز گلڈ، الہ آباد، ص- 126