"انتقام"
شوکت میرا جگری یار ہے۔ بچپن سے ایک ساتھ کھیل کُود کر پلے بڑھے۔بڑے ہونے کے ساتھ شوکت بھی بہت بڑا بندہ بن گیا۔ گاؤں کے کھیت کھلیان اُداس چھوڑ کر شہر میں ڈیرے ڈال دئیے۔اور گریڈ سترہ کا افسر بن گیا۔ اب شوکتے سے وہ شوکت بن گیا تھا۔
بیٹا افسر بن گیا،تو گاؤں کی غریب ماں اپنے لئے اپنی ہی جیسی سخت جان بہُو ڈھونڈنے لگی۔جو سر پر دو کی بجائے پانی کےتین تین گھڑے رکھ سکے۔ بچہ جننے کے فوراً بعد اُٹھ کر مہمانوں کےلئے کھانا تیار کرسکے۔ شوہر کی بات کو قرآن کی آیت سمجھ کر ساری زندگی اس کی تفسیر پہ سر دُھنتی رہے۔
خیر خدا خدا کرکے ماں نے ایک لڑکی پسند کرلی۔جو سو فی صد انہی صفات پر پُورا اُترتی تھی۔ گاؤں کی اس چھوکری نے اپنی آنکھوں میں انتظار کی گھڑیاں سجالیں۔ مگر شوکت نے شہر میں ایک گوری چٹی لڑکی سے شادی کرلی۔ ایک دن کنوئیں سے پانی بھرتے ہوئے دیہاتن چھوکری کا پاؤں پھسلا،اور سو فٹ گہرے کنوئیں میں ڈوب کر مر گئی۔ لوگ آج بھی اس واقعے کو ایک حادثہ ہی سمجھتے ہیں۔
شوکتے کو اب اپنی ماں، رشتہ داروں اور گاؤں کے لوگوں پر ایک عجیب سی شرمندگی محسوس ہونے لگی۔ کبھی کبھار وہ اگر بیوی کو لےکر گاؤں آ بھی جاتا۔تو اس کی ماں اور بہنیں نوکرانیوں کی طرح بیگم کے سامنے ہر وقت ہاتھ باندھےکھڑی ہوتیں۔ کہ ان بھابھی اور بہو کی نازک مزاجی پر کچھ گراں نہ گزرے۔
مجھے یاد ہے جب شوکت کی بیگم پہلی بار گاؤں آرہی تھی۔تو شوکت نے پرانے دوستوں کو فون کرکرکے خبردار کیا تھا۔کہ بیگم سے ملنے کے لئے گاؤں کی ہر عورت نہا دھو کر اور عطر لگا کر آئے۔تاکہ بیگم پر اچھا امپریشن پڑسکے۔ بیگم صاحبہ کے آنے سے تین دن قبل گاؤں کی ساری خواتین پہلی بار باجماعت نہائیں۔ اور کپڑے دھونے والے صابن سے خود کو اتنا مل مل کر صاف کیا تھا۔ کہ اگلے دن ساری کی ساری بیمار ہوگئ تھیں۔کیونکہ جسم میل چڑھنےکے مستقل عادی ہو چُکے تھے۔
بیگم صاحبہ آئیں۔ اور اُن سب کو دیکھا۔تو ناک بھوں چڑھا کر کہا۔کہ ان سے اچھی تو میرے گھر کی نوکرانیاں ہیں۔ اور اسی طرح گاؤں کی عورتوں کی محنت کسی کام نہ آئی۔
خیر شوکت نے آہستہ آہستہ گاؤں آنا کم کردیا۔ ایک دن سرِ راہ شہر میں اس سے ملاقات ہوگئی۔شوکت مجھے اپنے دفتر لے کر گیا۔ دفتر کا دروازہ بند کرتے ہی وہ مُجھ سے لپٹ گیا۔ اور اس کے آنسو میرا کندھا بھگونے لگے۔ میں حیران وپریشان کہ اتنا مضبوط انسان کیوں بچوں کی طرح رو رہا ہے۔ سالوں پہلے گاؤں میں کسی نے اس کے باپ کو قتل کردیا تھا۔ پانچ بہنوں کا اکلوتا بھائی اس دن بھی ماں اور بہنوں کو دلاسا دے رہا تھا۔اور ہم یار دوست ہمیشہ کی طرح اس کےحوصلے کو سراہ رہے تھے۔ خوش قسمتی اور اپنی قابلیت کی بدولت ترقی کرتے کرتے بیس گریڈ تک پہنچ گیا۔ بنگلہ، گاڑی، نوکر اور بچے سب بیکن ہاؤس میں پڑھ رہے تھے۔ لوگ تو گاؤں میں آج بھی اپنے بچوں کو شوکتے کی مثالیں دیتے ہیں۔ پھر ایسا کیا ہوا کہ آج وہ کامیاب دوست، شوہر اور افسر اتنا دلگرفتہ و اُداس تھا۔
میں نے پوچھا شوکتے ہوا کیا ہے؟
تو آگے سے وہ جیسےپھٹ پڑا۔کہ یار کچھ سمجھ نہیں آرہا بالکل برباد ہوگیا ہوں۔ بیوی اتنی بدزبان ہے۔ کہ یہ نہیں سوچتی کہ سامنے کون بیٹھا ہوا ہے۔ گالی گلوچ پر اُتر آتی ہے۔ بچوں اور اپنے رشتہ داروں کے سامنے میری تذلیل کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتی۔ میری عزت کا جنازہ نکال کے رکھ دیتی ہے۔ ایک بار تو مجھ پر ہاتھ بھی اُٹھا چکی ہے۔ گھر سے باہر لوگ عزت کرتے ہیں ۔مگر گھر کے اندر میری عزت نفس کے ساتھ جو کھیلواڑ ہوتا ہے۔ اس سے میں نفسیاتی مریض بن کر رہ گیا ہوں۔ کبھی کبھار سوچتا ہوں،کہ طلاق دے دوں۔مگر پھر بچوں کا سوچ کر کمزور پڑ جاتا ہوں۔ ایک بار میں نے ہاتھ اُٹھایا تھا۔تو بیوی نے فوراً طلاق کا مطالبہ کرڈالا۔ایسے میں عزت سنبھالنی مشکل ہوجاتی ہے۔ اگر ٹی وی ڈرامہ دیکھ رہی ہو۔اور اس ڈرامے میں ہیرو کو بے وفا دکھایا جارہا ہو۔تو اس کا نزلہ بھی مجھ پر گرتا ہے۔ کہ تم بھی ایسے ہی ہوگے۔ پتہ نہیں میری پیٹھ پیچھے کیا کرتے رہتے ہو۔ ایک بار کسی لڑکی کا پیغام آیا۔اس نے پڑھا،اور اُس کی پاداش میں پھر مُجھے ہفتوں گھر سے باہر رہنا پڑا۔ایک بار چُھری سے حملہ کردیا تھا،اور بات بات پر بچوں کو مارنے کی باتیں کرتی ہے۔کہ میں تیرے بچوں کو بھی مار دوں گی،اور خود بھی خود کشی کرلوں گی،یا گھر چھوڑ کر لاپتہ ہوجاؤں گی۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کن گُناہوں کی سزا بُھگت رہا ہوں۔
شوکتے کی کہانی سن کر میں بھی لرز گیا۔ اور اسے کہا کہ ابھی تم جوان ہو۔ دوسری شادی کرلو،کیونکہ ایسی عورت کےساتھ تمہارا مزید رہنا خطرناک ہے۔چُپکے سے کسی غریب عورت کےساتھ شادی کرلو۔ اور وقت آنے پر بیگم پر بم گرا دو۔تاکہ اسے معلوم ہو کہ شوہر سمجھوتہ تو کرسکتا ہے۔مگر عزت نفس پہ بات آئے۔تو اُسے مجروح ہونے سے بچانے کو وہ کچھ بھی کرسکتا ہے۔
میں بوجھل قدموں کے ساتھ شوکتے کو شہر چھوڑ کر آگیا۔ اس نے دوسری شادی کرلی۔اور ببانگ دہل کرلی۔اس شادی سے پہلی بیوی ٹوٹ کر رہ گئی۔
سالوں بعد شوکتے کو اسلام آباد ایئرپورٹ پر دیکھا اب تو بال مکمل طور پر سفید ہوچکے تھے۔ بہت کمزور ہوگیا تھا۔ مشکل سے میں نے پہچان لیا۔ اُسے گلےسے لگایا۔چائے منگوا لی۔ پھر باتوں باتوں میں پوچھا۔
اور سُنا،زندگی کیسی گزر رہی ہے؟
بتایا،،،کہ میرے مشورے پر اس نے غریب عورت سے شادی کرلی۔ پہلی والی نے چُپ سادھ لی۔اور گھر کے ایک کونے تک محدود ہوکے رہ گئی۔ میں نے گن گن کر بدلے لینے شروع کئے ہی تھے۔کہ دوسری والی اس سے بھی بدتر نکلی۔ میرے سامنے میرے بچوں پر تشدد کرنے لگ گئی۔ اور اس جاہل عورت کی وجہ سے محلے میں،میں ایک تماشہ بن کے رہ گیا۔
یہ سُن کر میں حیرت سے بےہوش ہوتے ہوتے رہ گیا۔اور پوچھا،کہ پھر؟
اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ پھر کیا،،،
دونوں کو ایک ساتھ طلاق کے پیپرز تھما دیئے۔ اور بچے لیکر اسلام آباد شفٹ ہوگیا۔ اب زندگی میں سکون ہی سکون ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
رخصت ہوتے وقت میں بھی کافی حد تک پُرسکون ہوچکا تھا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔