"ڈھلتی شام" ، کوئ عجیب سافسوں ہے ان دو لفظوں میں، کوئی سِحر سا یا پھر ایک پرُ اسراریت جو اپنی طرف کھینچے بغیر نہیں رہتی۔ یوں تو ڈھلتی شام مراجعت کا استعارہ ہےمگر صرف سہنے والا ہی جانتا ہے کہ یہ مراجعت وصل ہے یا فراق۔ گھونسلوں کو لوٹتے ہوئے پرندوں کےلئے ڈھلتی شام علامتِ وصل ہے تو ڈوبتے سورج کے لئے پیغامِ فراق۔
کتنی ہی ڈھلتی شامیں اور ان سے وابستہ ان گنت کہانیاں ایک ایک کر کے پردہِ ذہن پہ منعکس ہونے لگی ہیں۔ مثلاً عمر کی ڈھلتی شام، اقتدار کی ڈھلتی شام، اور پھر جوانی کی ڈھلتی شام۔ سب ےبڑھ کر یادوں کی ڈھلتی شام، یا پھر کسی کی یادوں کےساتھ ڈھلتی شام ۔ہے نا ہر ایک میں سِحر اور پراسراریت۔۔
"ڈھلنے" سے ناصر کاظمی یاد آگئے کہ:
'دن بھر تو میں کھویا رہا دنیا کے دھندوں میں
جب دیواروں سے دھوپ ڈھلی تم یاد آئے'
میں ہمیشہ حیران ہوتی ہوں کہ خالقِ وقت نے وقت کے آٹھوں پہروں کو کیسی الگ الگ تاثیر عطا کی ہے۔ صبحِ صادق کا پہر شعور اور آگہی کا تو ڈھلتی شام کا پہر احتساب اور حسابِ سود و زیاں کا وقت ہے۔
حساب ِسود وزیاں سے یاد آیا کہ علامہ فخرالدین رازیؒ اپنی تفسیر میں ایک بزرگ کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ میں نے سورہ العصر کی تفسیر ایک برف فروش سے سیکھی جو بازار کے بیچ و بیچ، دھوپ میں بیٹھا برف پیچ رہا تھا اور آواز لگاتا تھا کہ "رحم کرو اس شخص پر جس کا مال گھلا جاتا ہے" تب مجھے پتہ چلا کہ 'والعصر۔ ان ا لانسان لفی خسر' کا کیا مطلب ہے۔
سوچتی ہوں ہم سب کا حال بھی تو دھوپ میں برف رکھ کر بیچنے والے کا سا ہے کہ مال بِکے یا نہ بِکے اس برف نے پگھلنا ہر حال میں ہے۔ ہمارے وجود کے کاندھے پر لدی زندگی سانس سانس کر کے ختم ہوتی جارہی ہے۔ یہ اس کا خاموش خاتمہ کیا ہمیں بھی کبھی ایسی آواز لگانے پہ مجبور کرتا ہے کہ رحم کرو اِس شخص پر جس کا مال گھلا جاتا ہے؟! یہی ہے والعصر اور اسی کانام ہے ڈھلتی شام۔
ڈھلتی شام کے حوالے سے یادوں کی جھیل میں ایک پنجابی ٹپے نے گر کر نیا طلاطم برپا کردیا ہے۔ گرمیوں کی روپہلی چاندنی میں اپنے گھر کی چھت پہ، کسی کنوارے بدن کی طرح بان کی کسی ہوئی چارپائی پہ لیٹے (جس کی پائینتی پہ میر ی ماں کے ہاتھ کے کاتے سوت سے بنا ہوا مجنوں اور سرہانے پڑا سفید تکیہ جس پہ میری بہن کے ہاتھ کے کاڑھے پھول ستاروں کی طرح چمکتے تھے) ،ساتھ والے گاؤں کی کسی "باہک" سے آتی ایک پر سوز اور مہجور آواز کی کُوک، میں آج بھی سن سکتی ہوں کہ
'کوئی پھل ٹُٹیا کاہی نالوں
دیگر ویلا ہائی نی مائے
جدوں میں وچھڑی ماہی نالوں'
جانے یہ گانے والے کی شخصی فریاد تھی یا لکھنے والے کی کسی مکانی یا زمانی جدائی کا مرثیہ ،مگر مجھے تو اس سے جُڑی اب ایک ہی بات یاد آتی ہے کہ کہتے ہیں جب بھی کوئی مرتا ہے اور رو ح وجود سے جداہوتی ہے تو مرنے والے کو لگتا ہے کہ یہ وقت ڈھلتی شام کا ہے، یہ وقتِ عصر ہے۔ اب اس سے کیا فرق پڑتا ہے کہ جدائی زمانی ہو یا مکانی، ہے تو موت ہی نا!
ہر ڈھلتی شام بھی نام ہے جدائی کا، خاتمے کا اور موت کا۔
'دیگر تے دن آیا محمد اوڑک نوں ڈب جانا'
یعنی محمد بخشا جب دن عصر پہ پہنچ گیا تو شام ڈھلے اس نے ڈوب بھی جانا ہے ۔