گئے دِنوں کا ذکر ہے، نا چیز نے اسلام آباد میں منعقد صنعتی نمایش میں اسٹال لگایا۔ ایک انگریزن نے اپنی مادری زبان میں کچھ پوچھا۔ میں نے انتہائی ’شستہ انگریزی‘ میں جواب دیا۔ بجاے اس کے وہ میرا مذاق اُڑاتی، یہ کہتی کہ مجھے تو انگریزی نہیں آتی، جا کے پہلے انگریزی سیکھو پھر بات کرنا۔ اس نیک بی بی نے وہی جملہ درست کر کے یوں دہرایا کہ مجھے شرمندگی بھی نہ ہو، اور بات بھی بن جاے۔
اردو کو ہماری قومی زبان کہا جاتا ہے، جب کہ یہاں کئی اقوام بستی ہیں، اور ہر قوم کی اپنی زبان ہے۔ بحث میں الجھنے کی بجائے یوں کہتے ہیں، کہ اردو پاکستانی اقوام کے درمیان رابطے کی سب سے بڑی اور موثر زبان ہے۔ ذہن نشین رہے، سب سے بڑی رابطے کی زبان کہا ہے، سب سے بلیغ نہیں۔ پاکستان کے ہر خطے میں بولی جانے والی اردو کا اپنا لہجہ ہے۔ مقامی زبانوں کے الفاظ اور چاشنی اردو کا دامن بھرتے ہیں۔
ایک بار شکیل عادل زادہ سے کہا گیا، کہ بے نظیر بھٹو بہت غلط اردو بولتی ہیں۔ انھوں نے جھٹ سے جواب دیا۔
’شکر کریں وہ اردو بولتی ہیں۔ یہ ان کا اردو پر احسان ہے۔ وہ چاہیں تو انگریزی میں بات کر سکتی ہیں، نہیں تو ان کی مادری زبان سندھی ہے‘۔
سوچیں تو یہ بات دل کو لگتی ہے۔ آخر قائد اعظم بھی تو تھے، جنھیں اردو کا ایک لفظ نہیں آتا تھا۔ رٹا لگا کر جو خطاب کیا، اس میں ایک ہی بات خود سے کَہ دی ”میری اردو تانگے والے کی اردو ہے“۔ ان کی اردو سے نا واقفیت ان کی مقبولیت میں کمی کا باعث بنی؟
کیا سبب ہے، غلط اردو بولنے پر کسی کا ٹھٹھا اڑایا جاتا ہے؟ گلابی اردو۔ اردو کی ٹانگیں نہ توڑو جیسے طنزیہ جملے پھینکے جاتے ہیں؟ ایک شخص جو ایسے خاندان میں پیدا ہوا ہے، جہاں اردو بولی ہی نہیں جاتی۔ پھر وہی شخص اپنی صلاحیت کے بل بوتے پر اس زبان کو سیکھتا ہے۔ اردو زبان کی کتب پڑھنے کو ترجیح دیتا ہے، اس زبان میں لکھتا ہے۔ کہیں چُوک جائے تو ہم اس کا مذاق اڑانے لگتے ہیں، کہ آپ پہلے اردو سیکھ کر آیے۔
یہ مسئلہ زبان کا نہیں ہے، ہمارا ہے۔ غور کیجئے، یہ ہمی ہیں۔ اگر ہم میں سے کوئی انگریزی زبان کا غلط تلفظ بولے تو اس کا بھی وہی حال کرتے ہیں، جو غلط اردو بولنے پر کیا جاتا ہے۔ جب کہ اوپر اس خاتون کا ذکر ہوا، جس کی مادری زبان کا ایک جملہ غلط بولا گیا، لیکن اس نے بے نیازی کا مظاہرہ کیا۔ یہاں ایک اور بات بھی کہ دوں، میں یہ نہیں کہ رہا کہ آپ کسی زبان کو غلط بولنے کے لیے یہ جواز پیش کریں، کہ یہ میری مادری زبان نہیں۔ خوب سے خوب تر کی تلاش رہنی چاہیے۔ سیکھنے کا جذبہ ماند نہیں پڑنے دینا چاہیے۔
یہ انتہائی دل چسپ مطالعہ ہے، کہ جب کوئی آپ کی مادری زبان میں بات کرنے کی کوشش کرتا ہے، چاہے وہ ٹوٹی پھوٹی ہی کیوں نہ بولے، آپ خوش ہوتے ہیں۔ ایک پختون ٹوٹی پھوٹی پنجابی زبان بولے گا، تو پنجابی کبھی ناراض نہیں ہوگا، بل کہ خوشی کا اظہار کرے گا، کہ پٹھان اس کی زبان میں بات کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ اسی مثال کو دیگر اقوام پہ چسپاں کر کے دیکھیے۔
تو پھر اردو اور انگریزی کے غلط بولنے پر ہم لوگ کیوں احساس برتری، یا کم تری کا شکار ہوتے ہیں؟ کیا اس لیے کہ اردو کو ہم نے زبان نہیں دانش کا خزانہ سمجھ لیا ہے؟ انگریزی کو اظہار کا ذریعہ نہیں، علم کا منبع ماننے لگے ہیں؟ جی ہاں! ایسا ہی ہے۔ لا شعوری طور پر سہی بوجوہ ہم نے ان زبانوں میں بات کرنے والوں کو اشرافیہ سمجھ لیا ہے۔ انگریزی تو حاکم کی زبان تھی اور ہے۔ لیکن اردو تو کبھی حاکم کی زبان نہیں رہی۔
احساس برتری در حقیقت احساس کم تری ہی کی ایک شکل ہے۔ جو آپ سے بہ تر، رواں، یا شستہ لہجے میں اشرافیہ کی زبان بولتا ہے، آپ اس کے مطیع ہونے لگتے ہیں۔ شاید مقامی زبان بولنے والوں کی نظر میں اردو، اور اردو کے لیے انگریزی حاکم کی زبان ہے۔ پاکستان میں کچھ لوگوں کی اردو زبان سے نفرت کے اظہار کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ہم نے غلط اردو بولنے والوں کا مذاق اُڑایا۔ انھیں جاہل سمجھا۔ قوم پرستوں نے ایسے رویوں کو بطور مثال پیش کیا۔
انگریزی سے نفرت کیوں نہیں؟ اس لیے کہ انگریزی دنیا بھر میں کام آتی ہے، اور پاکستان میں تجارتی ادارے ڈگری سے زیادہ انگریزی زبان کو اہلیت ماننتے ہیں۔ یعنی انگریزی رزق کے مواقع اور آسانیاں فراہم کرتی ہے۔ جو اردو سیکھتا ہے، یہ اس کی ملازمت کے لیے کسی کام نہیں آتی۔
یہ سب باتیں اپنی جگہ، لیکن لکھنے والے جس زبان کو ذریعہ اظہار بناتے ہیں، انھیں چاہیے، وہ اپنی زبان کو بہ تر سے خُوب تر کریں۔ ایسا نہیں ہے، کہ جو نک سک الفاظ لکھتا ہے، وہ دانش ور ہے، لیکن ایسا ضرور ہے، کہ مصنف اور خطیب کی شکستہ زبان، اس کی بات کی تاثیر میں کمی لاتی ہے۔ سُر تال پورے ہوں، تو ہم گھٹیا شاعری برداشت کر لیتے ہیں، بے سُرا اچھے سے اچھا کلام منتخب کرے، مزاج پہ گراں ہوتا ہے۔
فروری 2016؛ کراچی۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔