ایک خواب اور تھوڑی سی تنہائی
(عنوان: نصیر احمد ناصر کی نظم سے مستعار)
میں اُس کا ہاتھ تھامے بیٹھا تھا؛ یہ تلاش رہا تھا کہ اُس کے ہاتھوں کی ریکھاوں میں میں کہاں ہوں۔ ایسے میں جل ترنگ سی سنائی دی، ”تمھارے ہاتھ بہت ٹھنڈے ہیں؛ یہ بے وفا لوگوں کی نشانی ہوتی ہے۔“ میں نے وہیں بیٹھے تک بندی کی، ”میرے ٹھنڈے ہاتھوں کو؛ تم جو بے وفائی سے منسوب کرتی ہو؛ تمھیں خبر ہی نہیں کہ تمھاری رفاقت میں آ کے؛ میرے ہاتھ تو کیا، میرا بدن بھی کپکپاتا ہے۔“ نہ میں شاعر تھا نہ پامسٹ؛ جیسے عروض سے آشنائی نہ تھی، ویسے ہی ریکھائیں سمجھنے سے بھی قاصر تھا۔ بس عاشق تھا، کہ ہاتھ تھامنے کا بہانہ چاہیے تھا۔ وائے دِلم کہ عاشقی کب نیک نام ہوئی ہے!
کنول ٹھیرے پانیوں میں کیوں کھِلتے ہیں، میرے لیے یہ بتانا مشکل ہے۔ اُدھر ایک دیس ہے، وہیں کہیں کنول جھیل ہے۔ رِکارڈنگ کے لیے مائک پتوں میں چھپایا گیا تھا۔ اِدھر سے اُدھر جاتے مجنوں کا پاوں تار سے اُلجھا؛ ہدایت کار گرجا کہ کس خیال میں ہو؟ لیلےٰ کے سِوا کون تھا، جو دِل آسا بنتا۔ مجھے یاد ہے شوٹ کے دوسرے ہی دِن اُس نئی اداکارہ سے تلخ کلامی ہو گئی تھی؛ پھر کیا ہوا کہ پانچویں روز میں اُس کا دیوانہ بن چکا تھا۔ ظالم کیوپڈ نے دیکھ بھال کے لوہے کا تِیر مارا تھا۔
سردیوں کی یخ بستہ شبوں میں لحاف میں دُبکے اُس کو ٹیلے فون کال کرنا، دیر تک جاگنا؛ اُس کی سُننا اپنی کہنا؛ قصے تھے کہ ختم ہونے کا نام نہ لیتے تھے۔ حیف! اُن ایک ہزار ایک راتوں میں چاند کی کوئی شب نہ تھی۔
کہتی، جس سے وہ محبت کرتی ہے وہ بے وفا کسی طور قابو نہیں آتا۔ میں اُس کی بے اعتنائیوں کا گِلہ کس سے کرتا! یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ کسی اور سے محبت کرتی ہے، میں اُس کا دَم بھرتا رہا۔ اُدھر اُس کا محبوب دُور دُور ہوتا چلا گیا، اِدھر میں پاس پاس آنے کی سعی کرتا رہا۔ میں اس ساکن تعلق سے کنول کی اُمید لگائے بیٹھا تھا؛ پر اس جھیل میں نہ کنول کھِلنا تھا نہ کھِلا۔ سنتے ہیں کہ اُس دیس میں آج بھی وہ کنول جھیل ہے، خدا معلوم اب اُن پانیوں میں کنول کھِلتے ہیں یا نہیں۔
کہتی، وہ میری نہیں بن سکتی؛ بھول جاوں۔
کہتی، تم وہ نہیں جو مطلوب ہے۔
کہتی، اُس کو آسایش چاہیے ہر قیمت پر۔
کہتی، میں اُس سے شادی کروں گی، جو متمول ہو؛ تم وہ نہیں ہو۔ مجھے بنگلا چاہیے، گاڑی اور بہت کچھ؛ تمھارے پاس نہیں ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ میری انا مجروح ہوتی، لیکن عاشقی میں انا کیسی؟ ہر طرح سے منت سماجت کر دیکھا؛ لیکن سب بے سود۔
آج وہ کیوں یاد آ گئی؟
کسی کو اسکرین کے لیے ایک رومانی کھیل لکھوانا ہے؛ مجھ سے رابطہ کِیا تو مجھے یہ قصہ یاد آ گیا۔ اِس کہانی میں رومان تو ہے لیکن انجام ہزاروں بار کا دُہرایا ہوا۔ کچھ الگ سا سوچنا ہے۔
سوچا ہے، فسانے کا انجام ایسا کر دوں کہ اس داستان کا ہیرو بعد میں کسی اور سے شادی کر لیتا ہے۔ برسوں بعد وہ اپنی بیوی بچوں کے ساتھ کار میں بیٹھا آئس کریم کا آرڈر دیتا ہے؛ ایسے میں اک بھکارن ہتھیلی بڑھا دیتی ہے۔
”خدا کے نام پر کچھ دیتا جا، بابو“۔
ریکھائیں بدل چکی ہیں مگر ہاتھ جانے پہچانے ہیں؛ ہیرو نظریں اُٹھاتا ہے، تو سامنے اُس کی وہی محبوبہ ہے، جس نے کبھی اُس کو اُس کی غربت کی وجہ سے ٹھکرا دیا تھا۔ بھکارن بھی اپنے عاشق کو پہچان جاتی ہے؛ جھٹ سے پلٹتی ہے اور یہ جا وہ جا۔
ایسا معشوق جو عاشق سے مآل و دولت کا خواہش مند ہو، اُس سے ایک دِل جلا کہانی کار اور کیا انتقام لے سکتا ہے؟!
اس بار نہ سہی کسی روز میں یہ انتقام ضرور لوں گا۔
(اپریل دو ہزار سترہ؛ کراچی)
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔