مبارک حویلی اندرون موچی دروازہ میں واقع ہے. اکبری گیٹ بازار بھی قریب ہی ہے شاید اس لیے باہر لگی تختی پر " اندرون اکبری دروازہ " درج ہے. بقول سید لطیف یہ حویلی
مغل بادشاہ محمد شاہ( المعروف رنگیلا عہد ۱۷۱۹تا ۱۷۴۸) کے دور میں تعمیر ہوئ.
حویلی کی بنیاد رکھنے والے تین بھائ تھے میر بہادر ،میر نادر اور میر بابر تھے(کہنیالال نے تیسرا نام " بہار علی " لکھا ہے) ۔اس حویلی کی تعمیر میں تین سال لگے تقریباً ١٧٣۰ء میں یہ حو یلی تعمیر ہو چکی تھی۔ اس حویلی کے وجہ تسمیہ کے متلعق ڈاکٹر طاہر کامران لکھتے ہیں " جب حویلی تعمیر ہوئ اسی ماہ میر بہادر علی کے گھر بیٹا ہوا. اسی باعث اس کو "مبارک حویلی" کہا گیا.
مغلوں کا زوال اس حویلی کے لیے بھی زاول کا سبب بنا. یہ حویلی عرصہ تک ویران رہی. رنجیت سنگھ کے دور میں اسکی مر مت کی گئی اور اسے مہمان سراے بنا دیا گیا.
شا ہ شجاع جب کابل سے بے دخل ہو کر آیا تو اسے مبارک حویلی میں ہی قید کیا گیا. رنجیت سنگھ نے شاہ شجاع سے معروف ہیرا کوہ نور چھیننے کی بہت کوشش کی. شاہ شجاع کے حرم کی خواتین سے بھی زیورات و جواہرات چھینے گئے. این کے سہنا کا بیان ہے کہ شاہ شجاع کی بیوی نے جان بخشی کے عوض یہ ہیرا دینے کا وعدہ کیا تھا. شاہ شجاع کو ہیرا دینے پر راضی کرنے میں فقیر سید نورالدین نے اہم کردا ادا کیا جس کی تفصیل انکی تصنیف کردہ کتاب " تاریخ کوہ نور " میں درج ہے. شاہ شجاع نے بعد میں حویلی کی دیوار توڑ کر یا سوراخ کرکے یہاں سے فرار حاصل کیا اور برطانوی حکام کے پاس پناہ حاصل کی.
سکھ عہد میں یہ حویلی غلا م محی الدین شاہ قریشی اور سردار کہر سنگھ کے پاس رہی. اور بقول سید شرافت حسین (مصنف کتاب "گمشدہ لاہور") سردار کہر سنگھ نے یہ حویلی نواب علی رضا خان قزلباش کے ہاتھ فروحت کردی. نواب صاحب نے اور انکے خاندان نے برطانوی حکومت کی ہمیشہ مدد کی. جس کی خاطر خواہ تفصیل گریفن کی کتاب میں درج ہے. برطانوی افواج جب کابل میں گرفتار ہوئیں تو نواب صاحب نے دروان قید انکو خوراک و دیگر ضروریات فراہم کیں اور تاوان دے کر رہا کرایا اسی طرح ہزارہ میں جب انگریز افواج قید ہوئیں تو نواب صاحب نے رشوت ادا کرکے رہائ دلای. ١۸٥٧ء میں بھی انگریزوں سے وفاداری نبھائی بلکہ نواب صاحب کو " تاجِ برطانیہ کی وفادار ترین رعیت " کہا گیا. ایمپریس روڈ کے دونوں اطراف جو زمین ہے وہ نواب صاحب کو انگریزوں سے تحفے میں ملی اسکے علاوہ رائے ونڈ میں زمین اور اودھ کے ١٤٧ گاوں بھی دئیے گے. حویلی کے موجودہ متولی منصور علی قزلباش کا کہنا ہے " نواب صاحب نے اس حویلی کی تعمیر نو ١۸٦٣ء میں کروائی". کہنیا لال بیان کرتے ہیں "… یہ قدیم عمارت ہے اگرچہ اب نقشہ اس کا بدل کر سب نئی عمارت بن چکی ہے مگر جنوبی حصہ اس کا اب بھی پرانی عمارت کا باقی …. نو اب علی رضا قز لباش نے اپنی زندگانی میں اس عمارت میں بہت سا تغیر وتبدل کیا شرق کی طرف بڑا دروازہ نکالا اور بڑے بڑے دالان و صحن و عمارات جدید بنوائیں اور ماہ محرم میں عزاداری کی مجلسیں اس میں مقرر کیں جب نواب جنت نصیب ہوا تو نواب نوازش نے باپ کے وقت کی عمارتوں کو گرا کر اعلٰے درجے کی عمارتیں بنوائیں "قزلباش خاندان نے کربلا گامے شاہ میں ہونے والی مجالس کی بھی سرپرستی کی. آئن ٹالبوٹ اور ڈاکڑ طاہر کامران کی تصنیف کردہ کتاب میں درج ہے کہ نواب رضا علی خان نے ١۸٥۰ء میں لاہور میں ذوالجناح کے جلوس کی ابتداء کی. جو اب بھی اسی حویلی سے برامد ہوتا ہے.
١۹۲۸ء میں جائیداد کی تقسیم پر یہ حویلی بھی تقسیم ہوگئی. اب جس حصے سے عاشورہ کا مرکزی جلوس برآمد ہوتا ہے وہ "نثار حویلی" کہلاتا ہے جبکہ باقی حصہ "مبارک حویلی" کے نام سے ہی پکارا جاتا ہے. جس حصے کو نثار حویلی کہا جاتا ہے یہاں پہلے باورچی خانہ کا سامان رکھا جاتا تھا اور حاضرین کے لیے لنگر تیار کیا جاتا تھا.
ہم ڈرتے ہوے مبارک حویلی میں داخل ہوے مگر حویلی کے منتظم نے نہایت خندہ پیشانی سے ہمیں خوش آمدید کہا. مبارک حویلی سے ۲١ رمضان المبارک یوم شہادت حضرت علی کرم اﷲ وجہہ کے موقع پر چاندی سے بنا تعزیہ برآمد کیا جاتا ہے. ماہ محرم میں تمام مرکزی مجالس یہیں پر ہوتی ہیں. لاہوت میں یوم عاشورہ کا مرکزی جلوس اور شب زوالجناح کا جلوس نثار حویلی سے برآمد ہوتا ہے اور اپنے مقررہ راستوں سے ہوتاہوا کربلاگامے شاہ پہنچتا ہے جہاں مجلس شام غریباں برپا کی جاتی ہے. موچی دروازے میں موجود یہ حویلی شیعہ سنی محبت کی علامت ہے. یہ وسیع و عریض حویلی مذہبی اہمیت کے علاوہ شاندار ماضی کی حامل ہے اور تاریخ سے شغف رکھنے والوں کی منتظر ہے.