بے جان سرد جسم، بے نور آنکھیں، ساکت چھاتی،
دل کی بیرونی عضلاتی دیوار اور ہمارے تیزی سے حرکت کرتے ہاتھ، بے ترتیب سانسیں، سینے سے باہر نکلتا دل! ہم بے طرح ہانپ رہے تھے لیکن رک نہیں سکتے تھے۔ اس ٹھٹھرے ہوئے جسم کے بے بس دل کی منجمد حرکت کو واپس لانا تھا ہمیں!
ایک دو تین چار پانچ …. پندرہ دفعہ چھاتی دبانا تھی اور پھر منہ سے منہ ملا کے ایک سانس دینا تھی۔ سانس کے بعد پھر وہی ایک دو تین چار پانچ… اور پھر ایک سانس…..
نہ جانے کتنا وقت گزر چکا تھا، چند منٹ، ایک گھنٹہ یا ایک صدی۔ اف خدایا، کتنی دیر اور؟ یہ زندگی جب روٹھنے لگتی ہے تو منانا اتنا مشکل کیوں ہو جاتا ہے آخر؟ رخصت ہونے والا اتنا سنگدل کیوں ہو جاتا ہے کہ برسوں کے رشتے توڑ کے جانے میں ایک پل بھی نہیں لگاتا، ہم نے دل ہی دل میں سوچا۔ تھکاوٹ کے مارے نہ جانے کون کون سی سوچیں حملہ آور ہو چکی تھیں۔ ہماری اپنی سانس جواب دے چکی تھی اور دل یہ چاہ رہا تھا کہ کوئی ہمیں سانس دے دے اب!
” ڈاکٹر کاظمی، آپ کی ہتھیلیاں صحیح سے چھاتی پہ پریشر نہیں ڈال رہیں، دیکھیے ڈمی کی بتی نہیں جل رہی، تھوڑا زور اور لگائیے ” انسٹرکٹر کی آواز آئی۔
ہم نے بے بسی سے اپنی دونوں ہتھیلیوں کو دیکھا جو اس سخت پلاسٹک کی ڈمی کو دبا دبا کے انتہائی لال ہو چکی تھیں۔ یوں لگتا تھا ابھی خون پھوٹ پڑے گا۔
“یہ منحوس ڈمی اتنی سخت ہے کہ کیا ہی کسی گینڈے کا جسم ہو گا؟ انسانی جسم اتنا ٹھوس کہاں، وہ تو گداز ہوا کرتا ہے”، ہم غصے سے بڑ بڑائے۔
گداز… اور برفیلا… اور اداس… اور اور ہمیں بے اختیار وہ یاد آ گیا۔ وہ… ہماری پیشہ ورانہ زندگی میں ہمارے ہاتھوں میں اپنی آخری سانس لے کر دم توڑنے والا پہلا انسانی جسم!
کم و بیش تیس برس پہلے جب ہم نے موت کو رو برو دیکھا تھا۔ وہ بہت دبے پاؤں آئی تھی، کچھ دیر ساکت کھڑی رہی، ہمیں اور اسے چپ چاپ دیکھتی رہی اور پھر ہمارے ہاتھ سے اس کا ہاتھ آہستگی سے چھڑایا اور اپنے جامد چہرے کے ساتھ رخصت ہو گئی۔ ہم نے اسے محسوس کیا، اپنے آس پاس، اپنے بہت نزدیک کہ فضا منجمد سی ہو گئی تھی اور گھڑی کی سوئیاں تھم گئی تھیں۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے ہمکلام نہ ہوئے۔ ہم دونوں ہی جانتے تھے کہ جس پھیر میں ہم ایک دوسرے کے سامنے ہیں، نہ وہ خالی ہاتھ پلٹے گی اور نہ ہم اتنی جلد ہار مانیں گے۔
اس نے ہماری تمام وحشت، بے قراری، بے چینی، اضطراب کو دیکھا اور سکون سے وقت کا انتظار کیا… وہ لمحہ جب ہم ہانپ جائیں جب ہمارے ہاتھ مزید حرکت نہ کر سکیں، جب سانس محض ہوا بن جائے، جب آنکھ کی جوت بجھ جائے، جب دل مضطر گھبرا کے تھک جائے، جب دوا مٹی بن جائے۔ اس وقت… ہاں اس وقت، وہی لمحہ وہ رخصت ہوا کرتا ہے۔
ارے صاحب ہم بھی کیا خوب ہیں، آپ کو یہ تو ابھی تک بتایا نہیں کہ ہم پہ کیا آن پڑی تھی کہ ناسٹلجیا کا حملہ ہو گیا۔ کیا ہے کہ ہمارے شعبے میں ہر بنیادی مہارت کو کچھ عرصے بعد جانچنے اور سرٹیفیکٹ لینے کی ضرورت پڑ جاتی ہے۔ سٹاف ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ نے ہمیں یاددہانی کروائی تھی کہ ہمیں بیسک لائف سپورٹ کورس پھر سے کر کے لائسنس کی تجدید کروانی ہے۔
یہ بیسک لائف سپورٹ ہے کیا؟
زندگی اور موت کی کشمکش اور اس سرحد پہ کھڑے ہوئے شخص کی ڈوبتی نبض کی بحالی اور سانس پھر سے لینے کی تڑپ، آس اور آرزو کا نام بیسک لائف سپورٹ ہے۔ بجھتی آنکھوں کا انتظار کہ کوئی مہرباں رکتے، تھمتے دل کو پھر سے رواں کر دے، سانس کو تھوڑا سا سہارا دے دے، نصیب میں اس زندگی کے کچھ اور لمحے لکھ دیے جائیں، اپنے پیاروں کی دید کے لئے کچھ مدت اور مل جائے۔
اس کورس میں مرتے ہوئے شخص کے دل کو رواں رکھنا اور آکیسجن فراہم کرنا سکھایا جاتا ہے جسے سی پی آر یا (cardiopulmonary resuscitation) کہا جاتا ہے۔ سی پی آر کرنا بنیادی طور پہ ہر انسان… جی ہر ذی روح کو، چاہے وہ ڈاکٹر ہو یا نہیں، سیکھنا چاہیے تاکہ اگر کبھی کوئی پیارا آنکھوں کے سامنے دم توڑ رہا ہو، یا کوئی اجنبی راہ چلتے چلتے موت کی سرحد پہ جا کھڑا ہو تو ہسپتال پہنچنے تک دل اور سانس کی حرکت چالو رکھی جا سکے۔
یہ سطریں لکھتے ہوئے دل تاسف سے بھر جاتا ہے کہ کاش ڈاکٹر آصف فرخی کی مدھم ہوتی حرکت قلب اور ڈوبتی سانس کو ہسپتال پہنچنے تک کسی ہمراہی سے سی پی آر کا سہارا مل گیا ہوتا!
جی تو ہم کہہ رہے تھے کہ ہم ڈمی کی سخت چھاتی کو اپنی لال ہتھیلیوں سے دباتے اور پھولی سانسیں قابو کرتے ایک گمشدہ یاد کو چھیڑ بیٹھے تھے۔
ہاؤس جاب کا زمانہ تھا، نئے نئے ڈاکٹر بن کے میڈیکل وارڈز میں گھومتے پھرتے تھے۔ کیا کیا نہ نظر آتا تھا؟ پیچیده امراض میں مبتلا زندگی کی آس میں امید بھری نظروں والے بچے، لاغر ہڈیوں کی مالا بنے جوان، دوپٹے میں منہ چھپائے بیماری کی شدت سے گھبراتی سسکیاں بھرتی لڑکیاں، آخری سانسیں لیتے بوڑھے، نحیف ونزار بوڑھیاں۔ ہمارا دل ہر دن کئی ٹکڑوں میں بٹتا اور ہمیں ہر روز رفوگری کرنی پڑتی۔ سرکاری ہسپتال کے اجلے بستروں پہ موت کا انتظار کرتے ہمیں یہ لوگ کسی اور ہی دنیا سے آئے ہوئے لگتے، ایک ایسی دنیا جو معاشرے کے آسودہ حال کی نظر سے ہمیشہ اوجھل رہتی ہے۔
ایک دن ہم وارڈ میں حسب معمول راؤنڈ کرنے آئے تو ہمیں وہ نظر آیا، شاید پچھلی رات داخل ہوا تھا۔ ہم نے چونک کے نرس سے پوچھا،
“سسٹر، اس بستر پہ تو وہ باباجی تھے نا جو ہر وقت پوچھتے تھے کہ وہ کب چھٹی پا کے گھر جائیں گے؟ کیا چھٹی ہوگئی؟”
“ہو گئی جی کل رات… ہمیشہ کے لئے” وہ لاپرواہی سے بولی۔
ہمارے دل پہ گھونسا سا لگا، کئی دنوں سے انہیں دیکھنے اور تسلی دینے کے عادی ہو چکے تھے۔ امید کی شمع تو ہاتھ میں پکڑانا ہی ہوتی تھی، جانتے ہوئے بھی کہ زیادہ تر لاعلاج ہونے کی منزل پہ ہیں۔ اپنے پیاروں کو الوداع کہہ کے آخری منزل کو کوچ کرنا آسان نہیں ہوا کرتا۔ سو کیا مضائقہ ہے اگر امید کی تتلی کے رنگ دیکھ کے کسی کے لبوں پہ مسکراہٹ پھیل جائے۔
تو ہم کہہ رہے تھے کہ وہ اپنے بستر پہ لیٹا ہواتھا۔ سترہ اٹھارہ برس کی عمر، پیلی رنگت، اندر کو دھنسی آنکھیں، ویران چہرہ، ساکت لب، جسم کی ہڈیوں پہ منڈھی جلد۔ وہ رک رک کے سانس کھینچتا تھا، ادھر ادھر دیکھتا اور پھر آنکھیں موند لیتا۔ ساتھ میں پڑی بنچ پہ ایک کھچڑی بالوں والی ضیعفہ، اداس چہرہ لئے بیٹھی تھیں۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد اسے پوچھتیں، بیٹا پانی دوں گلوکوز ملا کے، تھوڑی طاقت آ جائے گی۔ وہ آنکھیں کھولے بغیر نفی میں سر ہلا دیتا۔
ہم نے فائل دیکھی، وہ جگر کے کینسر کی آخری سٹیج پہ تھا۔ تمام ٹیسٹ ابنارمل تھے۔ وہ شاید اس لئے داخل کیا گیا تھا کہ زندگی کے پھسلتے لمحات کا سفر سہل ہو سکے۔ ہم نے کچھ بات کرنے کی کوشش کی مگر اس نے ہوں ہاں سے آگے پیش قدمی نہ کرنے دی۔
اگلے چند روز ہم اسے وارڈ میں راؤنڈ کرتے، آتے جاتے دیکھتے رہے۔ وہ بستر پہ لیٹا ہوتا اور اس کے سرہانے ایک چھوٹا ریڈیو بج رہا ہوتا۔ گمشدہ زمانوں کے المیہ گیت! راؤنڈ کے دوران ہم وہی روایتی فقرے بول دیتے، فکر نہ کرو، ٹھیک ہو جاؤ گے۔ وہ مندی آنکھوں سے سنتا، ہلکی سی مسکراہٹ اس کے چہرے پہ پھیلتی اور ہلکے سے سر ہلا دیتا۔ ہم نے اسے کبھی شکایت کرتے نہیں سنا۔
اور پھر وہ رات آ گئی!
اس رات ہماری ڈیوٹی تھی، شام کا راؤنڈ کر کے تھکے ماندے بستر پہ لیٹے ہی تھے کہ آنکھ لگ گئی۔ دور کہیں آدھی رات کا گجر بجا تھا اور ساتھ میں ہی دروازہ کسی نے پیٹ ڈالا،
“ڈاکٹر جی، ڈاکٹر جی، جلدی چلیں، مریض کی حالت خراب ہے” یہ وارڈ کی آیا اماں تھیں۔
ہم نے سرعت سے کوٹ پہنا، سٹیتھو سکوپ پکڑا اور تیز تیز قدموں سے وارڈ کی طرف چل پڑے۔ نہ جانے کون ؟ … دل بوجھل سا ہو چلا تھا۔
وارڈ میں داخل ہوئے تو نرس نے ایک طرف اشارہ کیا۔ بستر کے ارد گرد پارٹیشن کھڑی کر دی گئی تھی، آکسیجن سلنڈر اور ای سی جی ٹرالی بھی موجود تھی۔ وارڈ کے باقی مریضوں میں یہ ہلچل دیکھ کے ایک بے چینی سی پھیل چکی تھی۔ خاموشی ایسی کہ سوئی گرنے کی آواز سنائی دے۔ یہ موت کا سناٹا تھا۔
وہ اسی کا بستر تھا، شباب کی دہلیز پہ کھڑے ہوئے موت سے آنکھیں ملانے کرنے کو تیار! ہمارے دل کی جنبش ایک لحظه رکی اور پھر تیز ہو گئی۔
“ڈاکٹر جی، میں نے ای سی جی کر لی ہے، دل کی دھڑکن بے ترتیب ہے۔ سانس بھی رک رک کے آ رہی ہے، میں نے آکسیجن لگا دی ہے” نرس نے ہمیں تفصیل سے آگاہ کیا۔
ہم نے معائنہ کیا ، حرکت قلب بہت آہستہ ہو چکی تھی، ہونٹ نیلے پڑ چکے تھے، سانس کی رفتار بھی دھیمی تھی، آنکھیں بند تھیں لیکن گوشے کچھ نم نظر آتے تھے۔ پاس ہی بنچ سے کسی کی آہستہ آہستہ سسکیوں بھرتی آواز تھی
“میرا بچہ ، میرا بچہ“
“سسٹر جی، رجسٹرار کو بلائیں”، ہم اضطراب میں بولے۔ موت کو رو برو دیکھنے کا پہلا موقع تھا۔
“جی میں نے کال بھیجی ہوئی ہے لیکن ڈاکٹر جی آکیسیجن کا لیول گر رہا ہے۔ ایک کوشش آپ ہی کر لیں، شاید کچھ اور جی لے یہ”
“کیا مطلب؟” ہم نے ہونق بن کے پوچھا،
“سی پی آر شروع کریں”
“ہم ؟ یعنی کہ ہم… “ ہماری بوکھلاہٹ عروج پہ تھی،
“ڈاکٹر جی، سانسیں ڈوب رہی ہیں، آپ نے سی پی آر کی ڈمی پہ اتنی پریکٹس کر رکھی ہے، کر لیں نا اب” نرس نے ہمارا حوصلہ بڑھایا۔
سر کے نیچے سے تکیہ نکال دیا گیا، چھاتی پر سے ای سی جی کی تاریں نکال دی گئیں۔ ہم نے اللہ کا نام لے کے دونوں ہتھیلیوں کو جوڑا اور لرزتے ہوئے اس کی چھاتی پہ رکھ کے دبانا شروع کیا۔ اس کی پلکوں کی لرزش کے پیچھے ہمیں پتلیوں کی ہلکی سی رمق دکھائی دی… “نہ جانے یہ کیا سوچ رہا ہے اس وقت…..” ہم نے چھاتی دباتے ہوئے سوچا …….ایک ، دو، تین، چار پانچ…. جسم گداز تھا، کچھ گرم اور کچھ سرد تھا اور دل ٹھہر ٹھہر کے چلتا تھا۔ ہم پورا زور لگاتے تھے اور ہمارا دل سرپٹ بھاگتا تھا۔
پندرہ کے بعد ہمیں سانس دینا تھی… اس کے لب آپس میں پیوست اور خاموش تھے، اور گوشے نیلے ہوئے جاتے تھے۔
ہم نے پتلی ململ سی پٹی کا ٹکڑا اس کے ہونٹوں پہ رکھا، اس کا منہ کھولا، اپنے منہ میں لمبی سانس کھینچی اور اپنا منہ اس کے منہ پہ رکھ کے زور سے سانس پھونک دی…. سرد مردہ ہوتے ہونٹ، ہم سسکیاں بھرتے تھے۔
اب پھر چھاتی دبانا تھی… ایک، دو، تین، چار، پانچ، چھ…. پندرہ اور پھر سانس!
ایک دو ، تین، چار پانچ، چھ…. پندرہ اور پھر سانس!
گنتی، سانس اور پھونک کا یہ کھیل نہ جانے ہم نے کتنی دیر کھیلا۔ یوں لگتا تھا کائنات کی گردش تھم چکی، چاند ڈوب چکا، ستارے ٹمٹما کے بجھ چکے بس وہ تھا، ہم تھے جو اپنے حصے کی صلیب اٹھائے ہوئے ہانپ رہے تھے۔ ہمارے ہاتھ رکتے نہیں تھے اور ہمارے آنسوؤں کی ایک لڑی دو برف سے ٹھنڈے ہونٹوں اور گلیشئر سے جسم پہ گرتی تھی۔ دور کہیں بہت دور سے کچھ بھنبھناہٹ سنائی دیتی تھی۔ نہ جانے کچھ ٹوٹی ہوئی سسکیاں تھیں یا ریڈیو پہ سنائی دیتے کسی گیت کے ادھورے بول!
یک لخت ہمارا ہاتھ کسی نے روک دیا،
“ڈاکٹر جی، بس کریں بس۔ اب کوئی فائدہ نہیں”
ہمیں ایسا لگا کہ زمیں اپنے مدار پہ گھومتے گھومتے تھم سی گئی، چاروں طرف گھپ اندھیرا چھا گیا۔ کچھ لمحوں کے لئے ہم ایک ایسی خاموشی میں ڈوب گئے جہاں ہمیں صرف اپنی آہیں اور سسکیاں سنائی دیتی تھیں۔
عمر رسیدہ نرس جو ان مناظر کی عادی تھی، نے ہماری پشت پہ تھپکی دی، ہمارے لرزتے ہوئے ہاتھوں کو تھاما اور ہمیں ڈیوٹی روم کی طرف لے چلی۔ تھکے ہوئے قدموں سے دور جاتے ہوئے ہم نے ایک دفعہ مڑ کے دیکھا، وارڈ بوائے ڈرپ کی نالی اتار کے چہرے پہ چادر اوڑھا رہا تھا۔ ریڈیو ابھی بھی بج رہا تھا، نہ جانے موت کا حزنیہ تھا یا کچھ اور۔ بنچ پہ بیٹھی ضیعفہ کے چہرے پہ حسرت، بے کسی، غم، جدائی اور درد رقم ہو چکا تھا۔
موت سے کچھ منٹ کے لئے پنجہ آزمائی کر کے ہم نے اس سے کچھ لمحے چھینے تھے۔ زندگی کو ہمارے ہاتھوں سے اچٹ کے لے جاتے ہوئے ہم نے پہلی دفعہ اس کی آنکھوں میں دیکھا تھا۔ نوعمری میں ایسا تجربہ کر لینا دل پہ ایک داغ دے گیا تھا اور ہم نے دل گرفتہ ہو کے سوچا تھا، بس، تو یہ ہے زندگی کی حقیقت، کچھ دھڑکنیں اور کچھ سانس!