سندس کالج کے گیٹ تک پہنچی تو اسے سامنے ہی خان بابا نظر آگئے۔
"آجاؤ بیٹی گاڑی ادھر ہے۔" خان بابا نے اسکی کتابیں گاڑی میں رکھیں اور اسے بٹھا کر پریجوم سڑک پر مہارت سے ڈرائیو کرنے لگے۔
خان بابا بہت تجربے کار اور ماہر ڈرائیور تھے ۔ سندس کے پیدا ہونے سے بھی پہلے سے اسکے گھرانے کے وفادار اور قابلِ اعتماد ملازم تھے۔ کچھ ہی دیر میں رش سے نکال کر گاڑی بڑی سڑک پر ڈال دی۔
"خان بابا! ذرا سلطان میڈیکل سٹور پر رکیے گا ۔ بڑے ابو کے لیے پانی اور دوا لینی ہے۔" سندس میڈیکل اسٹور کی طرف اشارہ کر کے بولی۔
میڈیکل سٹور سے سندس نے اپنے بڑے ابو کے لئے زنک ، آئرن ، کیلشیم اور پوٹاشیئم کی متوازن مقدار والے پانی کی بوتلیں اور ضروری دوائیاں لی اور دوبارہ گاڑی میں بیٹھ کر گھر کی طرف روانہ ہوگئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سندس پروفیسر ڈاکٹر ہدایت اللہ خان نیازی کی لے پالک بیٹی تھی۔
پروفیسر صاحب نے اسے اپنی بیٹی جیسی پالا تھا۔ پروفیسر صاحب کی اپنی کوئی اولاد نہیں تھی اور بیوی کا انتقال ہو چکا تھا۔ پروفیسر صاحب کی ملازمہ رانی سندس کا بچپن سے خیال رکھا کرتی تھی۔ سندس نے اعلی درجے کے اسکول میں تعلیم پائی۔ وہ کافی ذہین طالبہ تھی۔ خود پڑھنے کے ساتھ ساتھ گھر میں رانی کی بیٹی چندا کو بھی پڑھایا کرتی تھی۔ میٹرک اور ایف ایس سی کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا اور پھر شہر کے سب سے مشہور میڈیکل کالج میں داخلہ لے لیا۔ اب وہ فائنل سال میں تھی۔
سندس اچھی شکل وصورت کی مالک تھی۔ لمبا قد، تناسب سے بھرے بھرے خدوخال، گول چہرہ، نمایاں کالی آنکھیں، گلابی مائل سرخ و سفید رنگت پر کمر تک نیچے بل کھاتے ہلکے سنہری بال۔ جب ڈاکٹروں والا سفید کوٹ پہنے چلتی تو بالکل جنت کی حور دکھائی دیتی تھی۔
اسکول دور سے ہی کئی پروانے اس شمع حسن کے گرد منڈلاتے لیکن سندس نے کبھی کسی پر توجہ نہ دی۔ اسکے لئے زندگی کا مقصد مخنت، اعلیٰ تعلیم اور اسکے بڑے ابو کی دیکھ بھال تھی۔
۔ پروفیسر صاحب ہی اس کے ماں اور باپ تھے وہ انہیں بڑے ابو کہہ کر پکارتی تھی ۔ ایک بیٹی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ ایک ڈاکٹر بھی بن رہی تھی اور اپنے بڑے ابو کی ہر قسم کی دوائی، ایکسرسائز کھانے پینے کا بڑا خیال رکھتی تھی۔
اسکے وجود سے پروفیسر صاحب کے بنگلے ' نیازی ہاؤس' میں چمک دھمک تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"بڑے ابو میں آگئی !" سندس نے گھر میں داخل ہوتے ہی کہا۔
پروفیسرصاحب ٹی وی لان میں بیٹھے تھے۔ سندس کی آواز سنتے ہی انہوں نے اپنے ہاتھ سے مٹھائی کا ڈبہ صوفے کے پیچھے رکھ دیا۔
"وہ آگئی میری ڈک ڈک! میرے گھرکا ضیاءالحق! میری زندگی کا مارشل لاء! " پروفیسر صاحب نے آگے بھر کر ہنس کر سندرس کے سر پر پیار کیا۔
"بڑے ابو یہ لیں آپ کی دوا ، آپ کا من پسند منرل واٹر اور ساتھ میں لائی ہوں آپکے بلڈ پریشر کے لیے فریش کوریانڈر کے پتے اور بیج۔۔۔۔۔"
سندس کچھ کہتے کہتے رک گئی۔
" بڑے ابو۔۔۔!" اس نے ادھر ادھر سونگھ کر کہا، " آپ میٹھا کھاریے تھے نا؟ "
"او تیری خیر! پکڑا گیا پروفیسر۔ ڈک ڈک تمہاری ناک نے پولیس ٹریننگ لی ہےکیا؟ "بڑے ابو ہنس کر بولے۔
سندس نے صوفے کے پیچھے سے مٹھائی کا ڈبہ ڈھونڈ نکالا۔
"یہ دیکھیں۔ میں نے منع کیا تھا نا۔ آپ کو میٹھا منع ہے۔ چندا ! چنڈا ! ذرا دیکھنا بڑے ابو کو اس مٹھائی کے ڈبے کی شکل بھی نہ دکھے۔ "
سندس نے ڈبہ چندا کو دے دیا جو اسے لے کر اپنے کمرے میں گھس گئی۔
"چلیں آئیں اب! کھانا کھا لیں۔ پھر میں نے آپ کے لئے کوری اینڈر کا پانی بھی تیار کرنا ہے۔" سندس نے کھانے کی میز کی طرف اشارہ کیا۔
پروفیسر صاحب اور سندس کھانا کھانے بیٹھ گئے ۔
"چندا! کھانا لے کر آجاؤ اور اپنی امی کو بھی بلا لو".
نیازی ہاؤس کی روایت تھی کہ مالک نوکر سب ایک ساتھ ایک ہی میز پر کھانا کھاتے تھے۔
نیازی ہاؤس ایک چھوٹی سی جنت تھی لیکن ایک مکروہ شیطان اس جنت پر آنکھیں لگائے کسی موقع کی تلاش میں تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پروفیسر ڈاکٹر ہدایت اللہ خان نیازی کے لیے زندگی کا دوسرا نام کیمسٹری تھا۔
یونیورسٹی آف پنجاب کے ریٹائرڈ فل پروفیسر اور معروف پی ایچ ڈی اسکالر تھے۔ آبائی وطن مردان تھا لیکن باپ انگریز دور میں ضلع سیالکوٹ میں سول سرونٹ اپوائنٹ ہو گئے تو سلسلہ پنجاب سے جڑ گیا۔
پروفیسر صاحب سیالکوٹ میں 1948 میں پیدا ہوئے۔ گورنمنٹ پائلٹ اسکول سے میٹرک اور مرے کالج سے ایف ایس سی امتیازی نمبروں سے پاس کی اور جنرل ایوب خان کے ہاتھوں گولڈ میڈل، شیلڈ اور گورنمنٹ کالج لاہور میں فل اسکالر شپ حاصل کی۔ کیمسٹری میں ایم ایس سی کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج ہی میں لیکچرار مقرر ہوئے اور کچھ عرصہ بعد پنجاب یونیورسٹی میں آ گئے۔ ایم فل کرنے کے بعد منرلز اینڈ مٹیلک اورز میں پی ایچ ڈی بھی کر لی۔ اٹھاون برس کی عمر میں ریٹائرمنٹ لی اور تقریباً دو سال پاکستان منرلز اینڈ مٹیلک اورز ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے سربراہ رہے۔ پھر وہاں سے بھی رخصت لے کر سیالکوٹ والے نیازی ہاؤس میں ریٹائرمنٹ کی زندگی گزارنے لگے۔
دماغ میں کیمسٹری کے کیڑے نے تنگ کرنا شروع کیا تو گھر کی اوپری منزل پر ایک جدید کیمسٹری لیبارٹری بنا لی۔ بیشمار طلباء وطالبات کا بھلا ہو گیا۔ وہ اکثر سیمپلز انہیں پہنچا دیتے اور پروفیسر صاحب کے عالی شان علم سے استفادہ کرتے۔
پروفیسر صاحب نے شادی بھی کی تھی لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ بچے کی پیدائش کے دوران ماں اور بچہ دونوں کا انتقال ہو گیا۔
پروفیسر صاحب نے دوبارہ کبھی شادی نہیں کی۔
ایک ہی بھائی تھا جسکا ایک ہی بیٹا وہ بھی شادی کے بارہ سال بعد ہوا۔
کچھ ہی سال بعد انکے وفادار مالی کے بیٹے اور بہو کا حادثے میں انتقال ہو گیا۔ دو سال کی بچی لا وارث ہو گئ۔ پروفیسر صاحب نے اسے اپنے گھر رکھ لیا اور اپنی ملازمہ رانی کی نگرانی میں دے دیا۔
سندس۔۔۔
اب وہ ہی پروفیسر صاحب کا سب کچھ تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"پروفیسر نیازی کا گھر یہی ہے ؟" کورئیر مین نے چندا سے پوچھا جو گیراج میں ماسی سے صفائی کروا رہی تھی ۔
"جی ! یہی ہے۔ " چندا نے جواب دیا۔
"انہیں بلائیے! ان کا لیٹر آیا ہے۔"
" جی وہ اس وقت آرام کر رہے ہیں اور انکی بیٹی کالج گئی ہے۔ آپ مجھے یہ لیٹر دے دیجئے۔ جب اٹھیں گے میں دے دوں گی انہیں۔ "
"دیکھیے یہ رجسٹر لیٹر ہے۔ آپ کا نام اور ان سے تعلق؟ " کورئیر مین نے چندا کی حالت دیکھ کر پین واپس رکھ لیا اور انگوٹھا لگانے والا پیڈ نکال لیا۔
" میں بھی ان کی بیٹی ہوں ۔ میرا نام فرخندہ نور محمد ہے۔ سب پیار سے چندا کہتے ہیں۔ پڑھی لکھی ہوں۔ دستخط کر سکتی ہوں۔" چندا آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر شان سے بولی۔
ماسی ہنسنے لگی۔ کورئیر مین شرمندہ سا ہوا۔ پین نکال کر چندا کو دیا جسے پکڑے ہی چندا نے بائیں ہاتھ کے ایک ہی وار سے انگریزی سٹائل دستخط کر دیے۔
کورئیر مین کی آنکھیں ترچھے انگریزی رسم الخط میں مختصر سے لیکن سٹائلش دستخط دیکھ کر پھٹ سی گئیں۔ جلدی سے خط تھما کر چلتا بنا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
" بڑے ابو میں آ گئی! " سندس نے گھر داخل ہوتے ہی پروفیسر صاحب کو پکارا۔
خلاف معمول پروفیسر صاحب کی کوئی آواز نہ آئی۔ ٹی وی لاونج بھی خالی اور لیونگ روم بھی۔ وہ عام طور پر اس وقت یہی ہوتے تھے۔
"چندا ! چندا ! بڑے ابو کہاں ہیں؟" سندس نے کچن میں چندا سے پوچھا ۔
" بڑے صاحب ابھی تو یہیں تھے۔ میں نے خط دیا۔ شائد اپنے کمرے میں چلے گئے ہوں۔" چندا بولی۔
"خط ۔۔۔؟ " سندس نے پوچھا۔
"جی آپی ۔" چندا بولی۔" ایک رجسٹرڈ لیٹر آیا تھا انکے نام۔"
سندس تیزی سے سیڑھیاں چڑھ کر اپنے بڑے ابو کے کمرے میں گئی۔ پروفیسر صاحب فون پر کسی سے بات کر رہے تھے۔ انہیں سندس کی موجودگی کا احساس بھی نہ ہوا۔ فون ختم کیا تو سندرس پر نظر پڑی ۔
"ڈک ڈک تم آگئی؟ مجھے تو پتہ ہی نہیں چلا۔" پروفیسر صاحب نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا۔
" بڑے ابو کیا بات ہے؟ یہ آپ کے ہاتھ میں لیٹر کیسا ؟ فون کسے کر رہے تھے آپ؟ "
"سندس بیٹا ! جبار واپس آ رہا ہے۔
مار دھاڑ اور نشہ کرنے کی وجہ سے اسے کالج سے نکال دیا گیا ہے۔یہ لیٹر اسی امپیریل لا کالج لاہور کے پرنسپل کی طرف سے آیا ہے۔ ابھی جبار کو ہی فون کر رہا تھا۔" پروفیسر صاحب کی پریشانی واضح تھی ۔
"جبار بھائی۔۔۔۔۔! " سندس گہری سوچ میں پڑ گئی۔ لمحوں میں اس کی گلابی مائل رنگت سفید اور پھول سا درخشاں چہرہ سپاٹ ہوگیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جبار پروفیسر صاحب کے اکلوتے بھائی نعمت اللہ خان نیازی کی اکلوتی اولاد تھا۔
صاحب زادے میں زمانے کی ساری ہی خوبیاں تھیں۔
شادی کے بارہ سال بعد پیدا ہوا۔ ماں باپ کو بے حد پیارا تھا۔ بے جاہ لاڈ پیار نے بچپن سے عادتیں بگاڑ دیں۔ پہلے تو گلی محلے کے دوسرے لڑکوں سے ماڑ پیٹ کی شکایات آتی تھیں۔ ذرا مسیں بھیگی تو منہ میں پان، جیب میں سگریٹ آنے کے ساتھ ساتھ گلی محلے کی نوجوان لڑکیوں کے گھرانوں سے شکایات کی لائن لگ گئی۔
بیچارے ماں باپ، ہمیشہ اسے اپنے تایا جیسا پڑھا لکھا بڑا آدمی بننے کی نصیحت کرتے۔ جس بچے کا بڑے مان سے نام خان عبد الجبار الحق خان نیازی رکھا گیا، اسکے گاؤں میں کئی نام پر گئے؛ جیسے ' چرسی' ، 'ویلر' ، 'تاڑو', ' ٹی ٹو ' اور ' سوٹا' وغیرہ۔
صاحب زادے نے بلا کی مجرمانہ ذہنیت پائی تھی۔ میٹرک میں فل فیل ہوا لیکن گھر بتایا کہ پاس ہوا ہے۔ شہر کالج میں داخلہ لینے کے لیے اچھے خاصے پیسے لیے اور عیاشیوں پر اڑا دہے۔ پھر یہ معمول بن گیا۔ امی آج کیمسٹری کی ٹیوشن دینی ہے۔ آج فزکس کی فیس چاہئے۔ آج فلاں فارم بھرنا ہے۔ آج بنک چالان دینا ہے۔ العرض ہر روز اچھے خاصے پیسے جیب میں ڈالتا، موٹر سائیکل اسٹارٹ کرتا اور نشہ اور دیگر عیاشیوں پر لٹا دیتا۔
ماں باپ یہی سمجھتے رہے کہ بیٹا ایف ایس سی کر رہا ہے۔ جبکہ بیٹے پر ایف آئی آر کٹ گئی۔
ہوا یوں کہ سیکنڈ ائیر میں جبار نے ماں باپ سے کافی پیسے لیے کیونکہ وہ دوستوں کے ساتھ ملکر شہر میں انٹرنیٹ کیفے اور کمپیوٹر ٹرننگ اکیڈمی کھولنا چاہتا تھا۔ پہلے تو والدین نہ مانے لیکن جبار نے سمجھایا کہ کمپیوٹر کی پڑھائی کے لیے ضروری ہے کہ اسے سکھایا جائے۔ سادہ لوح ماں باپ مان گئے۔ حطیر رقم بیٹے کو دے دی۔ بیٹے نے کافی رقم تو اڑا دی۔ جو بچی ، دو اپنے جیسے شہری دوستوں کے ساتھ ملکر دو کمروں کے کرائے کے مکان میں اکیڈمی اور انٹرنیٹ کیفے کھول دیا۔ یہ چڑھتی کمپیوٹر ٹیکنالوجی کا زمانہ تھا۔ کئی ایڈمشن آئے۔ میٹرک، ایف ایس سے فارغ بہت ساری لڑکیاں بھی آ گئی۔
جبار کو اور کیا چاہیے تھا۔
ایک لڑکی بہت پیاری تھی۔ ایک دن باقی سب کو چھٹی دے کر اسے ایکسٹرا کلاس کے لیے روک لیا۔ اسے کام لگا کر اکیڈمی کا دروازا لاک کر لیا اور اپنا اصل 'سبق' شروع کیا۔
بس یہی تو کام آتا تھا جبار صاحب کو ۔
لڑکی کی چیخ و پکار سن کر کچھ اہل محلہ اکٹھے ہو گئے۔ اکیڈمی کا دروازا توڑا اور جبار صاحب انتہائی غیر مناسب حالت میں رنگے ہاتھوں پکڑے گئے۔ مار مار کر پولیس کے حوالے کر دیا۔ لڑکی مقامی کونسلر کی بھتیجی تھی۔ بات بہت بڑھ گئی۔ گاؤں سے ماں باپ بھی بلائے گئے۔ یہیں یہ راز بھی آشکار ہوا کہ یہ تو میٹرک بھی پاس نہیں۔
ماں یہ صدمہ نہ سہ پائی اور اس جہان فائی سے کوچ کر گئی۔
رہ گیا باپ، تو دو سال تک چلے مقدمے نے ایک طرف باپ کی کمر توڑ دی اور دوسری طرف گاؤں کی بیشتر زمین جائیداد بکا دی۔
باپ نے پھر بھی ہمت نہ ہاری اور مار دھاڑ، ڈانٹ ڈپٹ اور کئی ٹیوشنز کی مدد سے آخرکار بیٹے کو پرائیویٹ میٹرک اور ایف اے کروا ہی دیا۔ اب بیٹا ڈاکٹر تو بن نہیں سکتا تھا چنانچہ اسے لاہور لا کالج میں بھیج دیا کہ کم ازکم وکیل ہی بن جائے۔ وقالت جبار نے کیا خاک پڑھنی تھی۔ کالج سے بھی طرح طرح کی شکایتیں آنے لگی۔ ایک دفعہ تو پورے مہینے کے لئے کالج سے نکال دیا گیا۔ باپ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور پورے گاؤں کے سامنے جوتوں سے پٹائی کی۔ پورے گاؤں کے سامنے جواد کی اچھی خاصی بے عزتی ہوئی۔ باپ نے کہا کہ چلو سیالکوٹ تایا کہ گھر چلتے ہیں وہ ہی تمہیں سمجھائیں گے ۔
باپ بیٹا سیالکوٹ آرہے تھے کہ راستے میں گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا۔ گاڑی کی بائیں سائیڈ سڑک کے کنارے لگے کھمبے سے بڑے زور سے ٹکرائی۔ سیٹ بیلٹ دونوں نے پہنی تھی۔ نہ جانے کیسے باپ کی سیٹ بیلٹ کھل گئی۔ باپ بیٹھا بھی اسی طرف تھا۔ جبار ڈرائیو کر رہا تھا۔ باپ موقع پر ہلاک ہوگیا اور جبار کو کچھ خراشیں آئیں اور کندھے کی ہڈی ہل لگی۔
باپ کی موت کے بعد تو جبار مادر پدر آزاد ہو گیا۔ دو ایک ماہ کالج ہاسٹل رہ آیا، دو ایک ماہ گاؤں اودھم مچایا اور کبھی بس آوارہ گردی۔ بچی کچی زمین بھی بک گئی۔ گاؤں کا مکان بھی گروی ہو گیا۔ کافی ادھار چڑھ گیا۔
اور آج آخر کار کالج نے بھی دھکے دے کر نکال دیا۔۔۔
اب صاحب زادے اپنے تایا کے گھر تشریف لا رہے تھے۔۔۔
نیازی خاندان کا اکلوتا وارث نیازی ہاؤس کی رونق بڑھانے آرہا تھا جہاں چوبیس برس کی سندس، سولہ سالہ چندا اڑسٹھ برس کے ایک ریٹائرڈ کیمسٹری پروفیسر کے ساتھ رہتی تھیں۔۔۔۔
چندا کیچن میں کام کر رہی تھی تبھی ماسی نے بتایا کہ باہر کوئی آیا ہے۔ چندا نے دیکھا کہ پتلا سا ایک لڑکا بیگ اٹھائے انٹیریئر دروازے تک آ چکا تھا۔
"کون ہیں آپ اور اندر کیسے آگے؟ " چندا نے پوچھا۔
"یہ سوال تو مجھے تم سے پوچھنا چاہیے کہ تم کون ہو۔" آنے والے نے اسے غور سے دیکھا۔
"جبار ! " پیچھے ٹی وی لاونج سے پروفیسر صاحب کی آواز آئی۔ "آجاو بیٹے! اندر آ جاؤ!".
" تو یہ ہیں جبار بھائی." چندہ نے سوچا۔
پتلی جسامت، لمبا قد ، دھنسی ہوئی آنکھیں ، میلے میلے سرخی مائل دانت، لٹو والے بال اور چھائیوں سے اٹا چہرا۔
جبار نے پاس سے گزرتے ہوئے چندا کوسر سے پیروں تک بغور دیکھا۔
"تایاابو یہ کون ہے؟ "
" بیٹا یہ چندہ ہے وہ رانی آپا یاد ہے نا ، اس کی بیٹی۔ یہی رہتی ہے۔ "
"اسکی ماں بھی یہیں رہتی ہے؟ "
'' نہیں بیٹا وہ تو اب کبھی کبھار آتی ہے ۔ خیر تم سناؤ سفر کیسا گزرا؟ " پروفیسر صاحب نے جبار کو صوفے پر بٹھایا۔ " چندا بیٹا! جبار بھائی کے لیے پانی لاؤ اور ماسی کو کہو کہ بھائی کا سامان اوپر میری لیب کے سامنے کمرے میں رکھوا دے۔ "
"تایا ابو سندس نہیں دکھائی دے رہی۔ اب تو ڈاکٹر بن چکی ہو گی۔" جبار نے پوچھا۔
"نہیں بیٹا ابھی فائنل ائیر میں ہے۔ کالج گئی ہے " پروفیسر صاحب نے بتایا۔ " تم کافی سال بعد آئے ہو".
"ہاں ! چار سال پہلے ابو کی دیتھ پر آیا تھا۔ اسکے بعد اب۔ "جواد بولا۔ " خیر بننا تو میں بھی ڈاکٹر ہیں چاہتا تھا۔ ماں باپ نے بننے ہی نہیں دیا۔ "
"خیر اب ماں باپ کو الزام تو تم نہ ہی دو". پروفیسر صاحب نے گہری سانس لے کر کہا۔ جاؤ اوپر اپنے کمرے میں۔ فریش ہو۔ کھانے کی ٹیبل پر بات کریں گے.
…………………………………….
سندس کالج سے لوٹی تو گھر کا ماحول گھٹا گھٹا لگا۔ سمجھ گئی کہ جبار آ گیا ہو گا۔ چندا سے تصدیق بھی ہو گئی۔
"بڑے ابو کیا جبار بھائی یہاں رہنے آ گئے ہیں؟" آ خر سندس نے پوچھ ہی لیا۔
"نہیں بیٹا! کچھ دن رہے گا ! پھر چلا جائے گا واپس مردان ۔ یہاں کیسے رہ سکتا ہے ۔ "
"ابھی کہاں ہیں جبار بھائی؟"
"اوپر ہوگا اپنے کمرے میں.چندا ! جاؤ بلا لاؤ ! اور کھانا بھی لگا دو۔ ".
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھانے کی میز پر جبار نے چار سال بعد سندس کو دیکھا۔ آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ چار سال میں سندس نے کیا رنگ روپ نکالا تھا۔ اسے وہ دبلی پتلی لڑکی یاد تھی جو کتاب پکڑے ٹیرس پر ادھر ادھر گشت کیا کرتی تھی۔ اور یہ ۔۔۔
جیسے پھل دار لچکدار شاخ جسکے انگ انگ سے جوانی چھلک رہی تھی۔۔۔۔ متناسب جسم کے ہر انداز سے لچک صاف نمایاں تھی۔۔۔۔ ہر پہلو میں ایک دلفریب تھرک تھی۔۔۔۔ وہ آتش گل کہ زیادہ دیکھنے والے کی آنکھیں خیرہ ہو جائیں۔۔۔۔ وہ ملکہ حسن کہ جس کی قربت میں ہر شے رومانوی لگنے لگے۔۔۔۔
جبار نے اپنی زندگی میں ایسی حسینہ نہ دیکھی تھی۔
"سندس تم تو پہلے عینک لگایا کرتی تھی نا ؟ " جبار پوچھے بنا نہ رہ سکا۔
"جی جبار بھائی! ٹریٹمنٹ کروا لی تھی پچھلے سال۔" سندس نے اسے دیکھے بنا جواب دیا۔
"اور یہ چندا یہاں کیوں بیٹھی ہے؟ " جبار کا انداز تمسخرانہ تھا لیکن چندا کو توہین آمیز لگا۔
"آپی میں کچن میں کھانا کھا لیتی ہوں۔ "چندا آٹھ گئی۔
"بیٹھو چندا ! " سندس نے اسکا بازو پکڑ لیا۔
"چندا یہیں بیٹھے گئ". پروفیسر صاحب نے جبار کو دیکھ کر کہا۔ "یہ بھی میری بیٹی ہی ہے".
چندا بیٹھ تو گئی لیکن اسکے گال غصے سے دہکنے لگے۔
" بڑا غصہ آتا ہے اس پھلجھڑی کو۔" جبار نے دل میں سوچا۔" میرا کام بن جائے گا"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سندس اور چندہ کچن میں پروفیسر صاحب کے لیے کوریانڈر واٹر بنا رہی تھی۔
"یہ دیکھو چندا ! پہلے دھنیے کے پتوں کو اچھی طرح سے صاف کر لینا ہے۔ اگر کوئی پتہ تازہ نہ ہو تو اس کو پھینک دینا ۔دھنیے کا پانی صرف تازہ پتوں اور باریک ٹہنیوں سے ہی بن سکتا ہے۔ " سندس نے اسے سمجھایا۔
" جی آپی ! بہت اچھے ! " چندا بولی۔
یہ دھنیے کے پتے ایک بوتل پانی میں ڈال کر دو چار منٹ کے لیے اچھی طرح ابال لینے ہیں۔ دھنیے کا کافی سارا رس پانی میں آجائے گا۔ پھر اس پانی کو ایک گھنٹے کے لیے ڈھک کر رکھ دینا ہے اور بعد میں صاف چھلنی سے فلٹر کرکے اس شیشے کی بوتل میں ڈال دینا ہے۔ پھر ایک بڑے سائز کا لیموں کاٹ کر اس کا رس بھی اندر ملادینا ہے۔".
"جی آپی!"
" بہترین کورینڈر واٹر تیار ہے" ۔ سندس کسی ماہر استاد کی طرح اسے سمجھا رہی تھی۔
"آپی اس کا کیا فائدہ ہوتا ہے؟ "
'چندہ اس کے بے شمار فائدے ہیں۔ بڑی عمر کے لوگوں کے لیے یہ بہت مفید ہے۔ اس سے بلڈ پریشر ٹھیک رہتا ہے۔ گردے صحیح طرح کام کرتے ہیں۔ اسے باقاعدہ استعمال کرنے سے خون میں کولیسٹرول کی مقدار متوازن رہتی ہے۔ بڑی عمر کے لوگوں کے جوڑ، گھٹنے، ہڈیاں وغیرہ درد نہیں کرتے۔"
آپی یہ اتنی اچھی چیز ہے۔۔؟ واہ! " ۔ چندہ حیرانی سے بولی۔
"بالکل" , سندس نے کہا، " پہلے بڑے ابو کے لیے میں بنایا کرتی تھی۔ لیکن اب سے تم بھی بنایا کروں گی ۔"
"بہترین !!!" باہر سے جبار بولا۔
دونوں ایک دم گھبرا گئیں۔
سندس فورا اپنی ڈوپٹے کی طرف لپکی۔ "جبار بھائی آپ
آپ یہاں کیا کر رہے ہیں؟"
جبار کافی دیر سے کچن کے ساتھ والی راہدای میں کھڑکی کی اوٹ سے نہ صرف ان دونوں کی پوری گفتگو سن رہا تھا بلکہ آنکھیں بھی سینک رہا تھا۔
" میں دیکھ رہا تھا کہ تم دونوں کیا بنا رہی ہو؟ " جبار نے اپنے میلے میلے دانت نکالے ۔
"جبار بھائی عورتیں تو کچن میں کام کرتی ہی ہیں لیکن مرد اس طرح چھپ کر نہیں دیکھتے۔" چندا کہے بغیر نہ رہ سکی۔
" عورتیں اگر ایٹم بم بنا رہی ہوں تو ان پر نظر رکھنا پڑتی ہے۔" جبار ہنس کر بولا۔
"جبار بھائی میں یہ دھنیے کا پانی روز بڑے ابو کے لئے بناتی ہوں۔ ان کی صحت کے لئے بہت ضروری ہے۔ وہ صرف اسی پانی کو پیتے ہیں۔ " سندس سپاٹ لہجے میں بولی۔ اسے یہی بہت برا لگا کہ جبار اتنی دیر سے اسے دیکھ رہا ہو گا ۔ "چندا ! پانی شیلف پر رکھ دو اور جب ٹھنڈا ہو جائے تو شیشے کی بوتل میں ڈال کر فریج کے دروازے میں رکھ دینا۔ اور آؤ اپنے کمرے میں! میں تمہیں۔سوالات سمجھا دوں" ۔ سندس جبار کو دیکھے بنا چندا کا بازو پکڑ کر اسے کچن سے لے گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"جبار! آگے کا کیا ارادہ ہے؟ " پروفیسر صاحب نے ڈنر ٹیبل پر پوچھا۔
"تایاابو اب میں بزنس کرنا چاہتا ہوں۔"
"بزنس؟؟؟ "
"جی تایا ابو ! میرا ایک دوست کنسٹرکشن کمپنی کھول رہا ہے میں سوچتا ہوں کے اس کے ساتھ جائن کر لوں۔ ھم ریئل اسٹیٹ میں انویسٹ کریں گے بہت ہی منافع بخش بزنس ہے"۔
"بیٹا بزنس تو اچھا ہے لیکن دو باتیں ہیں۔ ایک تو تمہیں اس کا تجربہ نہیں۔ یہ بہت تجربے اور ہوشیاری والا بزنس ہے۔دوسرا مجھے نہیں لگتا کہ یہ تھوڑے بہت پیسے سے چل پائے گا۔ یہ بزنس بہت بڑا انویسٹمنٹ مانگتا ہے۔"
"جی تایا ابو ! ابھی شروع ا اسٹارٹ میں 2 کروڑ سے ابتدا کی جاسکتی ہے."
" 2 کروڑ۔۔؟ بیٹا ! اتنے پیسے ہیں تمہارے پاس؟ میرا خیال ہے مردان والی زمین اور مکان وہ تو۔۔۔"
" ارے نہیں تایا ابو ! زمین تو ویسے ہی ختم ہے۔ مکان گروی پڑا ہے۔ "
" تو بیٹا کہاں سے لاؤ گے دو کروڑ؟ "
" تایا ابو ! اسی لیے تو آپ کے پاس حاضر ہوا ہوں۔ آخر آپ ہی تو میرے بڑے ہیں۔ "
"بیٹا کیا مطلب؟ میں کہاں سے دوں اتنے پیسے ؟ " پروفیسر صاحب حیران ہو کر بولے۔
" تایاابو ! آپ نے ہیڈمرالہ کے ساتھ کافی زمین لے رکھی ہے۔ تھوڑی بہت بیچ کر میری مدد کردیں۔"
" بیٹا تم کیسی باتیں کر رہے ہو۔ ساری زندگی سے تنکا تنکا جوڑا ہے۔ کچھ ریٹائرمنٹ کے پیسے ہیں ہیں کچھ اس بوڑھی عمر میں جو پروجیکٹز مکمل کیے ہیں ان کے پیسے سے تھوڑی بہت زمین لے کر ٹھیکے پر دی ہے۔ اسی سے یہ گھر چلتا ہے۔تمہاری بہن سندرس کی پڑھائی ہے۔ پینشن کا خال تو تمہیں معلوم ہی ہے۔"
" اچھا تایا ابو! چلیں ایک کروڑ ہی کردیں۔ "
" جبار !!! تم ہوش میں تو ہو بیٹا؟؟؟ کیسی باتیں کر رہے ہو؟ "
"دیکھیں تایا ابو! آخر آپ کا سب کچھ میرا ہی تو ہے۔ میں ہی تو ہوں آپ کا واحد وارث" ۔ جبار نے سندس کی طرف دیکھ کر کہا جو تب سے خاموشی سے سر جھکائے کھانا کھا رہی تھی۔
" کیسی بہکی بہکی باتیں کر رہے ہو۔ سندس میری بیٹی ہے۔ سب کچھ اس کا ہے۔"
جبار قہقہے سے ہنس پڑا۔
" تایا ابو ! آپ نے کیمسٹری بہت پڑھی ہے، لیکن قانون ذرا سا بھی نہیں جانتے۔ "
" کیا مطلب ؟؟؟ " پروفیسر صاحب کی آواز تیز ہوگی۔
تایا ابو! بیٹی تو سگی بھی پوری وارث نہیں ہوتی۔ " جبار نے سندس کی طرف دیکھ کر کہا، " اور لےپالک اولاد تو ویسے ہی ایک روپے کی بھی وارث نہیں ہوتی۔"
سندس کے ہاتھ کانپنے لگے۔ وہ بڑی مشکل سے ضبط کیے بیٹھی تھی۔ چندا بھی اندر اندر ابل رہی تھی۔
" اس خوش فہمی میں مت رہنا جبار !" پروفیسر صاحب نے اک عظم سے کہا " ہاں ! اگر ایسی ہی بات ہے تو میں ابھی سے سب کچھ سندس کے نام لکھ دیتا ہوں"
" ارے تایا ابو! یہ آپ تو غصے میں آ گئے !!! " ۔جبار نے فوراً پینترا بدلا اور معصومیت سے بولا۔ " میں اتنا بھی برا آدمی نہیں ہوں جتنا سب سمجھتے ہیں۔بات کا ایک بہت ہی پیارا دوسرا حل بھی ممکن ہے۔"
"کیسا حل؟؟؟ " پروفیسر صاحب نے پوچھا۔
" دیکھیں تایا ابو ! اب میں اور سندس ہی تو آپ کے بچے ہیں۔ بات تو بڑوں کو کرنی چاہیے تھی لیکن وہ تو جنت میں ہیں۔ بس آپ ہم دونوں کو ایک کردیں تو سب کچھ ٹھیک۔۔۔! " جبار نے مسکرا کر سندس کو دیکھا۔
سندس جو اتنی دیر سے سر نیچے کئے یہ ساری باتیں سن رہی تھی اب برداشت نہ کر سکی۔ جھٹ سے اٹھ کھڑی ہوئی۔ " بڑے ابو ! مجھے بھوک نہیں۔ میں اپنے کمرے میں جا رہی ہوں. "
چندا بھی اٹھ کھڑی ہوئی۔
" سندس!!! یہی رکو اور میری بات سن کر جانا" ۔ پروفیسر صاحب نے سندس کو اس کے پورے نام سے پکارا۔ "جبار !!! کان کھول کر سن لو۔ آج ایسی بات کی ہے دوبارہ ایسا سوچنا بھی نہیں۔ ورنہ میں بھول جاؤں گا کہ تم میرے مرحوم بھائی کے بیٹے ہو۔۔۔ بہت ہوگیا ۔۔۔۔ ایک آدھ دن میں اپنا انتظام کرو، اور یہاں سے چلتے بنو ! اور چلو سندس! مجھے میری دوائیاں میری کمرے میں پہنچا دو۔چندا ! بھائی کھانا کھالے تو برتن اٹھا دینا۔ "
پروفیسر صاحب اپنے کمرے کو چل پڑے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(جاری ہے)