پیاری باجی مبارکہ صاحبہ کے وصال پر
۔۔۔۔۔۔ تیرے بعد
صحن ویران ہے ، خاموش ہے در تیرے بعد
گھر کسی طَور بھی لگتا نہیں گھر تیرے بعد
شورشِ شعر نہ شعلہ نہ شرر تیرے بعد
سُونی سُونی ہے ہر اک راہ گذر تیرے بعد
اے دھنک رنگ مہِ فکر شہِ خوب بتا!
زیست کس طرح کرے خود کو بسر تیرے بعد
کون اب کُچلے گا اے میرے مسیحا یہ بتا !!
دل کے اس درد کا اٹھتا ہُوا سَر تیرے بعد
وہ گھٹا ٹوپ اندھیرا ہے کہ چھٹتا ہی نہیں
دل کے افلاک ہیں محرومِ سحر تیرے بعد
روز دفناتا ہوں دے کر انہیں یادوں کا کفن
دل دریدہ تو بریدہ ہے جگر تیرے بعد
تکتا رہتا ہے کتابوں میں رکھے پھولوں کو
دل کے جزدان سے اک مور کا پر تیرے بعد
سج گیا گو تیرے جانے سے اُدھرکوہے “ اُدھر “
پر اِدھر رہ نہیں پایا ہے اِ دھر تیرے بعد
جس کو طوفان گذرتے ہوئے دیتے تھے خراج
ہے ہواؤں کے کرم پر وہ شجر تیرے بعد
چاند ڈوبا ہے تو رہ رہ کے ستارے صآحب
سوچتے اب ہیں کہ جائیں گے کدھر تیرے بعد