پولیس آرڈر 2002 کا سیکشن 156 ڈی کہتا ہے کہ پولیس کا کسی بھی شخص پر تشدد کرنا جرم ہے۔کسی شخص (ملزم یا مجرم) پر تشدد کرنے والے پولیس افسر یا اہلکار کو 5 سال تک قید کی سزا اور جرمانہ کیا جائے گا۔ پولیس قوانین کہتے ہیں کہ ایسے افسر یا اہلکار کو نوکری سے بھی برخواست کیا جائے گا۔
اس قانون کو اب ایک دوسری نظر سے بھی دیکھتے ہیں۔
تعزیرات پاکستان کی دفعات 96 سے 106 تک ہر شخص کے اپنی زندگی،عزت اور اپنی جائیداد کے دفاع کے بارے میں بات کرتی ہیں۔ یہ دفعات کہتی ہیں کہ اگر کسی بندے کو اپنی جان جانے یا اپنی یا کسی کی عزت لٹنے وغیرہ کا خطرہ ہوتو بچاؤ کیلئے وہ حملہ آور کو جان تک سے مار سکتا ہے، شدید زخمی کرسکتا ہے۔ مثلا کسی گھر میں ڈاکو گھس آئے ہیں۔ تو یہاں اس گھر کے ہر فرد کو دفاع کا حق حاصل ہے۔
تاہم اس قانون کی دفعہ 99 کہتی ہے کہ اگر کوئی سرکاری ملازم اپنے فرائض کی انجام دہی کے دوران کوئی کام کر رہا ہے۔اس کام سے کسی شہری کی جان جانے یا شدید زخمی ہونے کا کوئی خطرہ نہ ہو تو یہاں اس شہری کو اوپر بیان کئے گئے قانون کے تحت اس طرح اپنے دفاع کا حق حاصل نہیں ہے جس طرح عام حالات میں ہوتا ہے۔ مثلا کوئی پولیس اہلکار کسی کو گرفتار کرنے گیا ہے تو اس پر جوابی حملہ نہیں ہوسکتا۔
میں نے ایک پوسٹ شیئر کی تھی جس سے یہ بحث شروع ہوئی کہ اس قانون کے تحت پولیس افسر یا اہلکار کے تشدد کے جواب میں اپنے دفاع میں اسے مارنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔
اس قانون کو تھوڑا سمجھنے کی ضرورت ہے۔
سیکشن 99 کی تھوڑی تشریح کرتے ہیں۔
1۔ یہ دفعہ کہتی ہے کہ شہری کو اس صورت میں دفاع کا حق حاصل نہیں ہے جب اس کی جان جانے یا شدید زخمی ہونے کا خطرہ نہ ہو۔ تاہم اگر اسے لگتا ہے کہ اس نے اس پولیس افسر یا اہلکار کو نہ روکا تو وہ اسے جان سے مار دے گا یا اسے شدید زخمی کردے گا تو اس صورت میں اسے اپنی زندگی کے دفاع کا حق حاصل ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح اوپر بیان کیے گئے عام قانون کے مطابق اسے حاصل ہے۔
2۔ یہ قانون کہتا ہے کہ پولیس یا سرکاری ملازم کو یہ استثنیٰ تب حاصل ہے جب وہ اپنے فرائض کی انجام دہی کر رہا ہو۔
ایک پولیس افسر یا اہلکار خوامخواہ کسی کو تنگ کرتا ہے۔ متاثرہ بندے کیخلاف کوئی ایف آئی آر ہے نہ کوئی شکایت۔ مثلا وہ اس سے بھتہ وغیرہ مانگتا ہے۔ نہ دینے کی صورت میں تشدد کا نشانہ بناتا ہے تو یہاں یہ سرکاری ملازم اپنے فرائض کی انجام دہی نہیں کر رہا۔ بلکہ بلاوجہ ایک شہری کو تشدد کا نشانہ بنارہا ہے۔تو ایسی صورت میں بھی اس شہری کو اپنے دفاع کا ویسا ہی حق حاصل ہے جیسا عام حالات میں اس کے پاس ہوتا ہے۔
اب ان سارے قوانین کی تھوڑی سی مشترکہ تشریح کرتے ہیں۔
آئین کے پہلے ہی باب کا آرٹیکل 9 فرد کی سلامتی کی بات کرتا ہے۔یہ آرٹیکل پاکستانی شہری کو کہتا ہے کہ آئین تمہاری زندگی اور تمہاری سلامتی کو یقینی بناتا ہے۔ پولیس آرڈر 2002 اور پولیس رولز 1934 پولیس کے کسی بھی شخص پر تشدد کو جرم قرار دیتے ہیں۔ دفاع کے حق کے قانون میں پولیس افسر یا اہلکار(سرکاری ملازم) کو جو تھوڑی چھوٹ دی گئی ہے وہ بھی اس صورت میں ہے جب وہ کسی کو گرفتار کرنے گیا ہے اور دوسری طرف سے مزاحمت وغیرہ کی جا رہی ہے۔تو اس صورت میں وہ اس گرفتاری وغیرہ کیلئے کچھ طاقت استعمال کرسکتا ہے۔ ایک ملزم خود سرنڈر کر رہا ہے۔پولیس کے ساتھ چلنے کو تیار ہے۔ یا ایک شخص کیخلاف کوئی ایف آئی آر نہیں۔ پولیس روزنامچے میں کوئی شکایت درج نہیں۔ پولیس اس کے گھر یا دکان پر آتی ہے۔ وہ پولیس سے تعاون بھی کر رہا ہے لیکن پولیس اسے پھر بھی تشدد کا نشانہ بنانا شروع کر دیتی ہے تو پھر قانون کی میری سمجھ بوجھ کے مطابق پولیس افسر یا اہلکار کو اس قانون کے تحت کوئی استثنیٰ حاصل نہیں ہے۔ پھر دفاع کے حق کے قانون کے مطابق تھپڑ کا جواب تھپڑ ہی بہتر ہے۔ انہیں روکنا ہوگا۔
اگر پولیس کا تشدد جائز ہوتا تو اسے جرم قرار دے کر پولیس کو سزا کا مستوجب قرار نہ دیا گیا ہوتا۔کسے سزا دینی ہے اور کسے نہیں یہ عدالت کا اختیار ہے۔ کوئی بھی شخص اپنی عدالت لگا کر کسی کو سزا نہیں دے سکتا۔
یہ پوسٹ پولیس تشدد کی کہانیوں کے پیش نظر تحریر کی گئی ہے۔ ہم میں سے ہر کسی کو اپنے حقوق کا پتہ ہونا چاہئے۔ ظلم اور زیادتی ہو تو اسکے خلاف بولنا چاہیے۔ امن و امان کے قیام کیلئے پولیس وغیرہ سے ہر حال میں تعاون کرنا چاہئے لیکن جب لگے کہ یہ لوگ ناحق کر رہے ہیں اور زیادتی کر رہے ہیں تو پھر ہمیں قوانین کے بارے میں آگاہی ہونا چاہئے کہ میرے کیا حقوق ہیں اور اس افسر یا اہلکار کے اختیارات کیا ہیں۔
اس موضوع پر بات نہ کی گئی اور قانون کی عملداری کی طرف توجہ نہ دی گئی تو پھر راؤ انوار پیدا ہوتے رہیں گے۔ نقیب اللہ مرتے رہیں گے۔ پھر ایک دن میری باری بھی آئے گی اور آپ بھی بچ نہیں پائیں گے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...