گزشتہ کچھ دن میں بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو سے بھارتی قونصلر کی پے درپے تین ملاقاتیں کروائی گئی ہیں۔ اس سے پہلے حکومت پاکستان نے 20 مئی کو انتہائی خاموشی کے ساتھ ایک ارڈیننس جاری کیا۔ اس ارڈیننس میں فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ غیر ملکی قیدیوں کیلئے قانون کو نرم کیا گیا ہے۔ اس ارڈیننس میں کہا گیا ہے کہ کوئی بھی غیر ملکی قیدی جو پاکستان ملٹری ایکٹ 1952 کے تحت قائم کردہ کسی پاکستانی فوجی عدالت سے سزا یافتہ ہو وہ اس ارڈیننس کے نفاذ کے 60 دن کے اندر اپنی سزا کیخلاف ہائیکورٹ میں نظر ثانی کی درخواست دائر کر سکتا ہے۔
کلبھوشن کو فوجی عدالت سے سزائے موت سنائی جا چکی ہے۔اس سزا کیخلاف اسکا اپیل کا وقت بھی ختم ہوچکا ہے۔ اندر کی خبر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ ارڈیننس خاص طور پر کلبھوشن کیلیے جاری کیا گیا اور کروایا گیا۔ 20 مئی کو یہ ارڈیننس جاری ہوا۔اس کے 60 دن کے اندر کلبھوشن نے درخواست دائر کرنی تھی۔یہ 60 دن 20 جولائی کو پورے ہوجائیں گے۔صرف تین دن باقی بچے ہیں اور اچانک کلبھوشن سے بھارتی قونصلر کی ملاقاتیں کروائی گئی ہیں۔ اندر کی خبر رکھنے والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت اس بات پر مان نہیں رہا کہ وہ کلبھوشن کی رہائی کیلئے درخواست دائر کرے۔ بھارت کا کہنا ہے کہ کسی بھی درخواست کے بغیر کلبھوشن کو رہا کیا جائے۔ ہم اس کی رہائی کی بھیک نہیں مانگیں گے۔ہم اسے ایسے ہی رہا کروا کے دکھائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ارڈیننس میں 60 دن دیے جانے کے باوجود ابھی تک کلبھوشن کی طرف سے کوئی درخواست دائر نہیں ہوئی۔اب جب کہ 60 دن مکمل ہونے جارہے تھے تو کلبھوشن سے بھارتی قونصلر کی پے درپے ملاقاتیں کروائی گئیں کہ درخواست دائر کرنے کی ہامی بھری جائے۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ پاکستان میں ایسے کون سے غیر ملکی قیدی موجود ہیں جنہیں فوجی عدالتوں سے سزا ملی ہو اور وہ یہاں قید ہوں۔ سب سے پہلے معروف نام کلبھوشن یادیو ہی ذہن میں اتا ہے۔ وہ غیر ملکی ہے۔اسے فوجی عدالت سے سزا ہوئی۔
دوسرا سوال یہ اٹھتا ہے کہ گزشتہ 4،3 دن میں اچانک،جبکہ ارڈیننس میں درج 60 دن کی مدت ختم ہونے والی ہے، کلبھوشن سے بھارتی قونصلر کی ملاقاتیں کیوں کروائی گئیں۔نوازشریف کے دور میں یہ ملاقات کروائی گئی تھی تو بڑا واویلا کیا گیا تھا۔مودی کا یار کے نعرے لگوائے گئے۔ اب جبکہ کشمیر والا ایشو بھی ہوگیا۔ بھارتی ائین میں کشمیر کے سٹیٹس میں تبدیلی کے اقدام پر پوری مسلم امہ مودی سے ناراض ہے۔ کلبھوشن سے بھارتی قونصلر کی پے درپے ملاقاتیں کروائی گئیں اور میڈیا خاموش ہے۔ دال کالی لگتی ہے۔
سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ ارڈیننس تب جاری کیا جاتا ہے جب کوئی معاملہ ہنگامی نوعیت کا ہو۔پارلیمنٹ سے قانون پاس کروانے میں تاخیر ہوجائے گی۔فوری طور پر صدر سے ارڈیننس پر دستخط کروائے جاتے ہیں کہ معاملہ رکے نہ۔ایسی کون سی ایمرجنسی بن گئی تھی کہ غیر ملکی قیدیوں کیلئے ہنگامی ارڈیننس لایا جاتا؟
ارڈیننس تب بھی لایا جاتا ہے جب پارلیمنٹ ان سیشن نہ ہو یا حکومت وقت کو ڈر ہو کہ اپوزیشن وغیرہ اس قانون سازی پر ساتھ نہیں دیں گے۔یہ قانون ریجیکٹ ہونے کا خدشہ ہے۔وقتی طور پر کام چلانے کیلئے ارڈیننس لے ایا جائے۔
سوال یہ بھی ہے کہ یہ اچانک حکومت کو ویانا کنونشن کے تحت غیرملکی یا دشمن ملکوں کے قیدیوں کو حاصل حقوق کا خیال کیسے اگیا؟
اگے بڑھیے۔
اس ارڈیننس میں دو شقیں ڈالی گئیں۔
1۔اس قانون سے وہ غیر ملکی قیدی بھی فائدہ اٹھا سکتے ہیں جنہیں سزائیں پرانی ہوئی ہوئی ہیں اور وہ قید ہیں۔ وہ اس ارڈیننس کے نفاذ کے 60 دن کے اندر درخواست دائر کر سکتے ہیں۔
2۔ائندہ اگر کسی غیر ملکی قیدی کو فوجی عدالت سے سزا سنائی جائے تو وہ بھی نظر ثانی کی درخواست دائر کر سکتا ہے۔
شق نمبر 2 کی تو سمجھ اتی ہے کہ یہ مستقبل میں پکڑے جانے والے اور سزا پانے والے قیدیوں کیلئے ہے۔لیکن شق نمبر 1 میں پرانے قیدیوں کیلئے رعایت کیوں شامل کی گئی؟
واضح رہے کہ قوانین مستقبل (پراسپیکٹو ایفیکٹ) کیلئے بنتے ہیں۔ ماضی کے مجرموں کی سزائیں ختم کرنے یا انہی ریلیف دینے کیلئے (ریٹراسپیکٹو ایفیکٹ والے) قوانین شاذ و نادر ہی بنائے جاتے ہیں۔
معاملہ مشکوک ہے۔
ارمی پبلک اسکول کے بچوں سمیت دہشتگردی کے درجنوں واقعات کی ذمہ داری قبول کرنے والے احسان اللہ احسان کو بقول خود دنیا کی نمبر ون ایجنسی اور فوج کی طاقتور ترین حراست سے فرار کروایا جاسکتا ہے اور کوئی چوں تک نہیں کرتا تو پھر کلبھوشن تو کوئی مسئلہ ہی نہیں تھا۔اسے بھی ایسے ہی نکال دیا جاتا۔قانون کیوں لایا گیا؟ وجہ ایک ہی سمجھ اتی ہے۔فیس سیونگ۔۔۔۔۔
اور ہائیکورٹ کے کندھے پر رکھ کر چلائی جائے۔
نوٹ:اوپر بیان کیا گیا میرا یہ تجزیہ قانون کے ایک طالبعلم کے طور پر ہے۔ یہ درست بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی۔ یہ میری رائے ہے۔ اپ اس سے اتفاق کر سکتے ہیں اور اختلاف بھی۔
اس ارڈیننس کے نفاذ (جبکہ اس وقت اس کی ایسی کوئی خاص ضرورت نہیں تھی) اور گزشتہ کچھ دن میں کلبھوشن سے قونصلر رابطوں میں تیزی،میری نظر میں معاملے کو مشکوک بناتی ہے۔وجوہات میں نے اوپر تحریر کر دی ہیں۔
یہ بھی واضح رہے کہ میں دونوں ملکوں کی جانب سے جاسوسوں کو موت کی سزائیں دینے کے حق میں بھی نہیں ہوں۔ میں امن کا داعی ہوں۔ جنگوں سے نفرت کرتا ہوں۔ خواہش ہے کہ دونوں ملک امن سے رہیں۔جو پیسہ گولہ بارود پر لگتا ہے وہ یہاں کے عوام کیلئے تعلیم،صحت کی سہولیات مہیا کرنے اور بھوک،غربت ختم کرنے پر لگے۔ یہ پوسٹ اسلئے کہ اگر واقعی معاملہ اس طرح ہے جیسے مجھے لگ رہا ہے تو پھر کل تک کلبھوشن کو لے کر دوسرے لیڈروں کی کردار کشی کرنے والے اج اس پر بھی یوٹرن لے رہے ہیں؟ غداری کے فتوے۔۔۔؟
کشمیر پر "گھنٹہ" احتجاج اور اب کلبھوشن۔