کچھ عرصہ قبل کشمیر کونسل آف آسٹریلیانے یومِ کشمیر منایا جس میں مقبوضہ کشمیر میں کشمیری عوام کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ذکر بھی کیا گیا اور اس کی مذمت بھی کی گئی ۔ اس تقریب کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں آسٹریلین پارلیمنٹ کے ممبرMr Chris Hayes نے بتایا کہ وہ ایک عرصے سے دنیا بھر میں ہونے والے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے خلاف آواز اٹھاتے آرہے ہیں لیکن جموں وکشمیر میں انسانی حقوق کی اتنی زیادہ خلاف ورزیوں کے متعلق مجھے آج پہلی دفعہ علم ہوا ہے۔ ورنہ میں اس پر اس سے پہلے بھی ضرور آواز اٹھاتا۔ Chris Hayes کی یہ بات کہ انہیں جموں وکشمیر میں پچھلے بیس تیس سال میں میں ہونے والی اتنی اموات اور انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزیوں کے کے بارے میں پہلی مرتبہ علم ہوا ہے، پاکستان کی وزارت خارجہ ، پارلیمنٹ کی کشمیر کمیٹی اور آسٹریلیا میں پاکستان کے سفارت کاروں کے لیے لمحہِ فکریہ ہے خصوصاً اس صورت میں کہ حکومت پاکستان اس مد میں کثیر سرمایہ خرچ کرتی ہے۔
سرگودھا میں ایک درگاہ کے سجادہ نشین کے انتقال پر درگاہ پر قبضے کی جنگ میں بیس لوگ شہید کر دیے گئے اور کئی شدید زخمی ہیں ۔ اس موقع پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے حکومت پنجاب کے نمائندے زعیم قادری نے کہا کہ یہ درگاہ حکومت پنجاب کی ذمہ داری نہیں تھی۔ ان کے بقول اس درگاہ کو حکومت پنجاب کے محکمہ اوقاف میں رجسٹرڈ نہیں کروایا گیا تھا اس لیے اس میں ہونے والے قتل عام کی حکومت پنجاب ذمہ دار نہیں ہے۔ زعیم قادری کا بیان اور حکومت کا اتنے بڑے واقع سے اتنا معصومانہ اظہاربریت سنہرے حرفوں میں تحریر کرنے کے قابل ہے۔ اتنا بڑا واقعہ ہو گیا ہے لیکن حکومت اور اس کا محکمہ اوقاف ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں۔ بڑی معصومیت سے قادری صاحب نے فرما دیا کہ یہ درگاہ رجسٹرڈ نہیں کروائی گئی تھی لہٰذا یہ ہماری ذمہ داری نہیں تھی۔ گویا اگر کوئی ادارہ غیرقانونی طور پر کام کر رہا ہو اور انہوں نے حکومت کے ساتھ رجسٹریشن نہ کروائی ہو تو پھر اس کو کھلی چھوٹ ہے۔ وہاں حکومت کی کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی ہے ۔ اگر کوئی گاڑی رجسٹرڈ نہ ہو تو وہ کسی پر چڑھا کر اسے کچل سکتی ہے۔ حکومت اس کی ذمہ دار نہیں ہو گی۔ جس صفائی سے زعیم قادری نے حکومت کو بری الذمہ کرنے کی کوشش کی ہے اس پر وہ داد کے مستحق ہیں۔ حکومت کے ترجمان کے اس طرز استدلال پر انہیں تمغہ دینے کی ضرورت ہے ۔ واہ رے پنجاب حکومت۔
سڈنی کی ایک تقریب میں پاکستان کے مشہور مبلغ اور سابق گلوکار جنید جمشید مرحوم کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔ جنید جمشید مرحوم کی یاد میں اس پروقار تقریب کا اہتمام جناب شاہد جاوید نے کیا تھا جس میں بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ مقررین نے جنید جمشید کی زندگی پر روشنی ڈالی اور بحثیت گلوکار اور اس کے بعد بحثیت مبلغ ان کے کارناموں کو سراہا۔ مقررین میں شفقت علی اور طاہر قریشی صاحب شامل تھے جبکہ ربط نامی بینڈ نے جنید جمشید کے مشہور گانوں کی دھنوں پر گانے گا کر حاضرین کو محظوظ کیا۔ زندہ قومیں اپنے مشاہیر کو اسی طرح یاد کرتی ہیں اور انہیں خراج عقیدت پیش کرنے میں کوئی کمی روا نہیں رکھتیں۔ جنید جمشید نے گلوکار، مبلغ اور ٹی وی اینکر کی حیثیت سے ایک بڑی تعداد میں لوگوں کو متاثر کیا اور وہ اس داد وتحسین کے بجا طور پر مستحق ہیں۔ اللہ ان کے درجات بلند کرے۔ آمین
یوم پاکستان کے موقع پر تحریک انصاف نیوساؤتھ ویلز نے سڈنی میں ایک شاندار تقریب منعقد کی جس میں بہت بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ شرکاء میں نوجوان، خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی ۔ تقریب نہایت منظم انداز میں منعقد کی گئی۔ اس میں پاکستان کے جھنڈے، پاکستان کا قومی ترانہ، پاکستان کے گیت اور پاکستان سے محبت کی باتیں کی گئیں۔ نوجوان انتظامیہ پر مشتمل پی ٹی آئی کے منتظمین داد کے مستحق ہیں جنہوں نے پاکستان کے قومی دن پر اتنی شاندار تقریب منعقد کی اور اتنی بڑی تعداد میں پاکستانیوں کو نہ صرف محذوظ کیا بلکہ انہیں وطن کی محبت سے سرشار کرنے کا فریضہ بھی ادا کیا۔
ایک بیان میں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے فرمایا ہے کہ نیب کے چیئرمین کی یہ جراٗت نہیں کہ وہ میرے اُوپر کوئی مقدمہ قائم کر سکے۔ یہ بیان ان دنوں سامنے آیا جب پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عاصم کو جن کے اوپر اربوں روپے کی کرپشن کا الزام تھا ، اچانک رہا کر دیا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی کے ایک خودساختہ جلا وطن راہنما شرجیل میمن جو کرپشن کے الزام کے بعد ملک سے فرار ہو گئے تھے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں اور نیب کو انتہائی مطلوب تھے وہ بھی وطن واپس آ گئے ہیں۔ وہ نہ صرف آزاد گھوم رہے ہیں بلکہ سندھ میں ان کا شاندار استقبال بھی کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں ایان علی کو بھی بیرون ملک جانے کی اجازت مل گئی ہے۔ یہ ساری مہربانیاں اچانک اور بلا وجہ نہیں ہو سکتیں۔ زرداری صاحب اتنے وثوق سے کیسے کہہ سکتے ہیں کہ ان کے خلاف کیس کرنے کی نیب جراٗت نہیں کر سکتا۔ ڈاکٹر عاصم کے خلاف اتنے سنگین الزامات اتنے جلدی کیسے نرم ہو گئے۔ شرجیل میمن کو ایک مفرور مجرم سے ہیرو کیسے بن گیا۔ ایان علی کے خلاف منی لانڈرنگ اور کسٹم آفیسر کے قتل کے الزامات کیسے ہوا میں تحلیل ہو گئے۔ ان سب کے پیچھے کوئی تو کہانی ہے، کوئی تو ڈیل ہے ، کوئی تولین دین ہے۔ ورنہ یہ سب کچھ اچانک کیسے ہو گیا ۔ بقول غالبؔ ، کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔
مارچ میں مجھے جاپان جانے کا موقع ملا۔ اس دورے کی دعوت مجھے اُردو نیٹ جاپان اور جاپان انٹرنیشنل جرنلسٹ ایسوسی ایشن نے دی تھی۔ اردو نیٹ نے ٹوکیو میں میری تین کتابوں کی ایک شاندار تقریب رونمائی منعقد کی۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان مسلم لیگ جاپان کے یونس ملک، ایڈیٹر انچیف مسلم لیگ نیوز پیپرالحاج فواد مشتاق ، ماہرتعلیم مرزا شہزاد، پی آئی اے کے منیجر وحید رانا، کشمیرفورم جاپان کے چیئرمین اور مساوات جاپان کے ایڈیٹرانچیف شاہد مجید نے میرے اعزار میں تقریبات منعقد کیں جہاں بڑی تعدا د میں پاکستانی شخصیات سے ملاقات ہوئی۔ جاپان میں پاکستانی میڈیا اور جاپان میں جنگ کے نمائندے جناب عرفان صدیقی کے توسط سے جنگ پاکستان نے میرے اس دورے کی بھرپور کوریج کی۔ جاپان میں پاکستانی بھائیوں کے اس والہانہ استقبال اور ان کی محبت مجھے ہمیشہ یاد رہے گی۔ خصوصاً میرے میزبان ناصرناکاگاوا کی میزبانی کے انمٹ نقوش میرے صفحہ دل پر تحریر رہیں گے ۔ یہ روایتی پاکستانی میزبانی کی خوبصورت مثال ہے جس کی بازگشت اور جس کی خوشبو نہ صرف آسٹریلیا بلکہ کینیڈا، یورپ، امریکہ اور پاکستان میں بھی پھیل گئی ہے۔
’ہم وطن‘ آسٹریلیا نے دو برس قبل پندرہ روزہ اخبار سے اپنا سفر شروع کیا تھا۔ اس کے بعد یہ اخبار آن لائن بھی شائع ہونے لگا۔ یہ دونوں کام تواتر سے ہو رہے ہیں۔ اب ہم وطن نے ہم وطن ویب ٹی وی کا بھی اجرا کر دیا ہے جو آسٹریلیا میں پاکستانی کیمونٹی کے لیے ایک خوش آئند امر ہے۔ میں’ ہم وطن‘ کے ایڈیٹرانچیف راجہ تاثیر کو اس کاوش پر مبارکباد دیتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ صحافت کی دنیا میں ان کی کاوشوں کو مزید کامرانیاں نصیب ہوں اور ’ہم وطن‘ دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کرے۔ آمین
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔