صبح سویرے ہی میں نے یہ دلگیر خبر سُنی کہ رفیق کو دورانِ شب دل کا شدید دورہ پڑا ہے اور وہ اسپتال میں زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا ہے۔مجھ پر اداسی چھا گئی اوردل میں درد کی ٹیسیں اٹھنے لگیں ۔رفیق کی پُر درد کہانی فلمی مناظرکی طرح میرے ذہن کے پردے پر چلنے لگی… کل کی ہی تو بات تھی کہ میں جھیل کنارے واقع پارک کے دلفریب مناظر سے لطف اندوز ہورہا تھا ،در اصل بہت دنوں سے مجھے ایک سنسنی خیز رومان پرور کہانی کی تلاش تھی لیکن کوشش کرنے کے باوجود بھی میں نہ کسی رومانی موضوع پر اپنی توجہ مرکوز کر سکا اور نہ کسی کہانی کا تانا بانا بُن سکا۔آخر تھک ہار کر کہانی بننے کی کوشش ترک کرکے پارک میں موجود دوسرے مرد و زن کی طرح نظاروں سے لطف اٹھانے میں محو ہوگیا۔ٹہلتے ٹہلتے دفعتاً میری نظر رفیق پر پڑی،جو جھلستی دھوپ میں پسینے سے شرابور ہانپتا ہوا پارک کی زیر تعمیر دیوار کے لئے پتھر ڈھورہا تھا ۔اس کی آنکھیں مرجھائی ہوئی تھیں جب کہ ماتھے پہ بے بسی و لاچاری کی لکیریں رقص کررہی تھیں۔میں اس کو ایک نظر دیکھنے کے بعد اپنی ہی دُھن میں مست نظارے دیکھنے میں محو ہوگیا… شکل و شباہت سے گبرو جوان جیسا دکھ رہا رفیق کوئی اور نہیں میرا پڑوسی تھا۔جس کی زندگی بذات خود ایک دردناک کہانی تھی۔ وہ ایک تعلیم یافتہ،نہایت ہی ذہین،قابل،خوددار اور جفا کش لڑکا تھا ،جو چھوٹی عمر میں ہی ایک حادثے میں باپ کے ناکارہ ہوجانے کی وجہ سے گھریلو ذمہ داریوں کے سخت بوجھ تلے دب گیاتھا۔اس کے باپ کی بھی ایک الگ سی دکھ بھری داستان تھی۔وہ پیشے سے ڈرائیور تھا ۔اسے اپنے بچوں کو تعلیم کے نور سے آراستہ کرنے کا بڑا شوق تھااوروہ بچوں کو ہر سہولت میسر رکھنے کیلئے جی جان سے محنت کرتا تھا ۔بچے بھی خوب دل لگا کر پڑھائی کرتے تھے ۔حالات خراب تھے لیکن وہ اپنی مجبوریوں کے سبب حسب معمول کام پر جایا کرتا تھا ۔ایک دن وہ گاڑی لے کر بس اڈے میں پہنچا ہی تھا کہ وہاں موجود فوجی کیمپ پر حملہ ہوا،ایک گرینیڈ نشانہ چوک کر اس کی گاڑی سے جا ٹکرایا اور ایک سماعت شکن دھماکے کے ساتھ پھٹ گیا، بعد ازاں بندوقوں کے دہانے کھل گئے اور گولیوں کی آگ برسنا شروع ہوگئی۔اس خونین واقعہ میں کئی معصوم لوگ اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے اور بہت سے زخمی ہوکر خون میں لت پت ہوگئے۔وہ بھی شدید زخمی ہوکر کئی ماہ تک اسپتال میں زیر علاج رہا ۔اس حادثے میں اگر چہ خوش قسمتی سے اُس کی جان بچ گئی لیکن ایک ٹانگ مکمل طور پر ناکارہ ہونے کی وجہ سے وہ عمر بھر کے لئے اپاہج ہو کر رہ گیا…
کم سن رفیق کے لئے یہ تکلیف دہ صورتحال کسی بڑی آزمائش سے کم نہیں تھی ۔وہ اپنا خون پسینہ ایک کرکے گھر کے اخراجات بھی چلاتا رہا اور دو بہنوں کی تعلیم کی طرف بھی دھیان دیتا رہا۔لیکن قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ رفیق اچانک دل کے عارضے میں مبتلا ہوگیا۔اس کی حالت پر ترس کھا کر رشتہ داروں اور یاردوستوں کی رفاقت اور مدد سے کچھ وقت تک اس کا علاج معالجہ چلتا رہا ا ور گھر کا چولہا بھی جلتا رہا، لیکن مادیت کے اس دور میں رشتوں میں اب خلوص ہی کتنا بچا ہے؟آخر کب تک لوگ اس کی مدد کا جو کھم اُٹھاتے؟دھیرے دھیرے سب نے ہاتھ کھینچ لئے۔دوائیوں کے سہارے جی رہا بے یار و مدد گار رفیق جب کوڑی کوڑی کا محتاج ہوگیا اور افرادِ خانہ نان شبینہ کر ترسنے لگے تو اپنی ادویات اور گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لئے اس نے اپنی پشتینی زمین بھی بیچ ڈالی۔بیماری کی حالت میں ہی اپنی تعلیمی اسناد کی بنیاد پر روز گار حاصل کرنے کی سر توڑ کوشش کی۔حکام اور منسٹروں کی کوٹھیوں کے چکر کاٹتے کاٹتے جوتے گھسائے۔اپنے عزت نفس کو ٹھیس پہنچا کران کے سامنے گڑگڑاتے ہوئے اپنے قابل رحم حالات کی داستان بیان کی۔سماجی اور فلاحی اداروں کو مدد کے لئے دہائیاں دیں،لیکن کہیں بھی اس کے درد کا کچھ مداوانہ ہوسکا۔
ہر دروازے سے نا اُمید لوٹ کر جب اس کے من میں یہ بات اچھی طرح گھر کر گئی کہ خود غرضی اور حرص کی اس نیلام گاہ میں انصاف مانگناپتھر سے دودھ مانگے کے مترادف ہے تو اپنی ادویات کا خرچہ اور گھر کے اخراجات پورے کرنے کے لئے محنت مزدوری کے سوااس کے پاس کوئی چارہ نہیں رہا ،حالانکہ اس کی صحت بالکل اس کی اجازت نہیں دیتی تھی، جن سے ہم پڑوسی اور اس کے رشتہ دار بخوبی واقف تھے۔رفیق کی کہانی کئی دنوں تک میرے تصور میں گشت کرتی رہی۔آخر میری غیرت بھی جاگی اور میں اس کی مزاج پرسی کے لئے اسپتال پہنچ گیا۔وہ چار پائی پرٹیک لگائے مایوسی کے عالم میں خلائوں میں گھور رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں درد کا بیکراں سمندر سا پنہاں تھا۔ڈاکٹروں کے مطابق اگر چہ اس کی حالت اب خطرے سے باہر تھی لیکن مکمل علاج و معالجہ اور سخت احتیاط کی ضرورت تھی۔اس کا علاج کررہے ایک ڈاکٹر کو میں نے یہ کہتے ہوئے سُنا۔
’’مسٹر رفیق…خوش قسمتی سے آج آپ کی جان بچ گئی لیکن اگر پھر سے دوائیاں کھانے میں لیت و لعل ہوئی یا کوئی بھی بے احتیاطی برتی تو آپ پر پھر سے دل کا دورہ پڑسکتا ہے جو جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے۔‘‘
ڈاکٹر کی یہ وارننگ سن کر میں نے اس سے پوچھا۔
’’ رفیق… کیا سچ مچ تم نے دوائیاں لینے میں……‘‘
’’ ہاں کچھ دنوں سے میں نے دوائیاں نہیں لی تھیں۔‘‘
اس نے میری بات کاٹ کر معذرت خواہانہ انداز میں کہا تو میں اس پر برس پڑا۔
’’ تعلیم یافتہ ہوکر بھی انتہا درجے کے لا پروا ہوتم… زندگی بچانے والی ادویات لینے میں لاپروائی کرنے کی کیا ضرورت تھی… شرم آنی چاہئے…‘‘۔
میں نہ جانے کیا کیا اناپ شناپ بول رہا تھا کہ اس کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو گرنے لگے۔
’’مجھے دوائی نہ لینے کا قصور وار ٹھہراتے ہوئے ہر کوئی یہی کہتا ہے…لیکن میری مجبوری کوئی نہیں سمجھتا۔‘‘
’’کیسی مجبوری… اپنی جان سے زیادہ کوئی بھی چیز قیمتی نہیں ہوتی ہے۔‘‘
’’قیمتی ہوتی ہے میرے دوست‘‘۔
اس نے جھر جھری لیتے ہوئے اکھڑتی سانس کو درست کرتے ہوئے اپنی بات جاری رکھی۔
’’کئی دنوں سے میرے پاس دوائیاں نہیں تھیں نہ مجھ میں کام کرنے کی ہمت اورسکت تھی۔اس روز میں مجبوراً چکراتے ہوئے کام پر گیا تاکہ کچھ کما کر دوائیاں خرید سکوں۔شام کو مزدوری لے کر جب واپس گھر پہنچا تو چولہا ٹھنڈا پڑا تھا ۔گھر میں اناج کا ایک دانہ بھی موجود نہیں تھا۔بھوک سے نڈھال ،بابا،ماں اور بہنوں کے چہرے مرجھائے ہوئے تھے ۔ان کی حالت دیکھ کر مجھ سے رہا نہ گیا،میںاُلٹے پائوں بازار گیا اور وہاں سے چاول،سبزی وغیرہ خرید لائی اور یہ ارادہ کیا کہ کل کام کرکے دوائیاںخریدونگا… لیکن رات کوہی…‘‘۔
اس کی زبانی یہ تلخ حقیقت سُن کر کچھ دیر شرمند گی کی حالت میںبُت بنے میں اس کو دیکھتا رہا، پھر من من بھاری قدم اُٹھاتے ہوئے وہاںسے نکل آیا۔راستے میں سوچتے سوچتے مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا کہ جیسے رفیق کی درد بھری آواز میرا پیچھا کرتی ہوئی کہہ رہی ہے ۔
’’ہا…ہا…ہا… ذہنی عیاشی،تفریح اور واہ واہ بٹورنے کے لئے جھوٹ موٹ کے گُل وبُلبل کے قصے کہانیاںگھڑنے کے عادی ہوتم… اپنے ارد گرد درد کی شدت میں کرارہے مجھ جیسے مجبور ،بے بس و لاچارانسانوں کی غم ناک کہانیاںتمہاری نظروں سے اوجھل ہیں؟ یا تم انہیں درخور اعتناء بھی نہیں سمجھتے ہو؟‘‘
٭٭٭
رابطہ؛ اجس بانڈی پورہ (193502)کشمیر