اکادمی ادبیات پاکستان
پریس ریلیز
محمد حمید شاہد کا شمار نمائندہ افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ ڈاکٹر قاسم بگھیو
تخلیقی عمل میں خیالات کی برتری اسے ناقص کرتی ہے۔ محمد حمید شاہد
تقریب ’’اہل قلم سے ملیے‘‘ کے تحت محمد حمید شاہد کے ساتھ ملاقات
اسلام آباد (پ ر)۔ فکشن نظریاتی روح سے نہیں بلکہ مزاج اور حسیات کی روح سے جنم لیتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار ناول نگار، افسانہ نگار اور ادیب محمد حمید شاہد نے اکادمی ادبیات پاکستان کے رائٹرز کیفے کے زیرِ اہتمام منعقدہ تقریب ’’اہلِ قلم سے ملیے‘‘ میں کہی۔ ادیبوں اور دانشوروں نے ان کی فنی زندگی اور شخصیت کے حوالے سے گفتگو کی۔ محمد حمید شاہد نے کہا کہ افسانہ لکھتے ہوئے لگ بھگ ہر بار یوں لگا کہ جیسے تخلیقی عمل سے جڑنا تو زندگی سے از سرِ نو تخلیق کرنا ہوتا ہے۔ ایک عجب طرح کے درد سے دہکتے ہوئے الاؤ کو چیر کر پار نکلنا اور ایک اور نوع کی زندگی کا سراغ پا لینا یا پھر اس سراغ جیسے سراب میں بھٹک جانا ہی کہانی لکھنے کی تاہنگ کا اسیر رکھے ہوئے ہے۔ انہوں نے کہا کہ میرے لیے فقط لکھنا اور اس کے عمل سے حظ اُتھانا کبھی اہم نہیں رہا کہ میں زندگی کے بھیدوں کو کھولتے چلے جانے سے اور ہر تہہ کے اترنے پر بے پناہ حیرت یا شدید صدمے کے مقابل ہو جانے کو ہی تخلیقی عمل کی عطا سمجھتا آیا ہوں، میرے افسانے بھی انہی لمحوں کی دین ہیں۔ انہوں نے کہا میں 23 مارچ 1957 کو پنڈی گھیب (اٹک) میں پیدا ہوا۔ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے زراعت اور بستانیت میں فاضل ہونے کے بعد زرعی ترقیاتی بنک سے عملی زندگی کا آغاز کیا۔ طالب علمی کے زمانے سے ہی تصنیفی سرگرمیوں کا آغاز کیا۔ مجھے افسانہ نگار، ناول نگار اور نقاد کی حیثیت سے شناخت ملی۔ انہوں نے کہا کہ ہر فکشن کی دانش علمیت سے الگ اور اعلٰی ہوتی ہے۔ فکشن نظریاتی روح سے نہیں بلکہ مزاج اور حسیات کی روح سے جنم لیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تخلیقی عمل میں خیالات کی برتری اسے ناقص کرتی ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر محمد قاسم بگھیو، چیئرمین، اکادمی ادبیات پاکستان نے کہا کہ محمد حمید شاہد کا شمار نمائندہ افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے فکشن کے ساتھ ساتھ فکشن کی تنقید پر بھی بہت کام کیا ہے۔ ان کی افسانوں، ناولوں اور تنقید کی متعدد کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ محمد حمید شاہد کا اسلوب بیان انفرادیت کا حامل ہے۔ انہوں نے اپنے افسانوں میں سیاسی اونچ نیچ اور ملکی صورتحال کو بڑی خوبصورتی سے اپنے فن پاروں میں لکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اکادمی کے لیے مختلف منصوبوں میں ان کی مشاورت حاصل رہی ہے۔ انہوں نے اکدمی کے لیے حال ہی میں نئے لکھنے والوں کے لیے رہنما کتاب ’’افسانہ کیسے لکھتے ہیں‘‘ تحریر کی جس سے نئے لکھنے والوں کو بہت مدد ملے گی۔ رائٹرز کیفے کے زیرِ اہتمام اکادمی ادبیات پاکستان کا پروگرام ’’میٹ اے رائٹر اوور اے کپ آف ٹی‘‘ کے تحت محمد حمید شاہد کے ساتھ یہ تقریب اس سلسلہ کی چوبیسویں تقریب ہے اور اکادمی آئندہ بھی ادیبوں اور دانشوروں کے ساتھ اس طرح کی ملاقات کا اہتمام کرتی رہے گی۔ پروفیسر فتح محمد ملک، مسعود مفتی، ڈاکٹر احسان اکبر، کشور ناہید، محمد اظہارالحق، پروفیسر جلیل عالی، علی اکبر عباس، حلیم قریشی، حفیظ خان، فریدہ حفیظ، وقار بن الٰہی، سرفراز شاہد، نسیم سحر، ضیاء الدین نعیم، قیوم طاہر، علی محمد فرشی، منظر نقوی، ڈاکٹر نجیبہ عارف، افشاں عباسی، شکیل جازب، واحد بزدار، منظور وسیریو، رحمان حفیظ، محمد علی، ارشاد احمد ناشاد، اقبال افکار اور دیگر نے صاحب شام کے فن و شخصیت اور ان کی ادبی خدمات پر روشنی ڈالی جب کہ ان کے قریبی احباب نے ان کی شخصیت کے حوالے سے گفتگو کی۔
(طارق شاہد)
افسرِ تعلقاتِ عامہ