*** بشریٰ اعجاز ***
===============
ملک کی نامور شاعرہ، کالم نویس، ادیبہ بشریٰ اعجاز ایک خوبصورت شخصیت کی مالک ہیں۔ ان کی شاعری اور تحریر میں تصوف کا رنگ جھلکتا ہے۔ وہ بیک وقت اردو پنجابی دونوں زبانوں میں شاعری کرتی ہیں۔لیکن پنجابی کلام سے انہیں خاص لگائو ہے۔ 1993ء میں ان کی پنجابی شاعری کی کتاب’’ پباں بھار‘‘ شائع ہوئی۔ اس کے علاوہ ان کے دو سفرنامے جن سے ایک حج پر اور دوسرا بھارت کے سفر سے متعلق ہے،منظر عام پر آچکے ہیں۔ 1992ء میں افسانوں کا یک مجموعہ’’ بھلیکھا‘‘ بھی شائع ہو چکا ہے۔
بشریٰ اعجاز 18جون 19599ء کو سرگودھا میں پیدا ہوئیں۔ ان کا تعلق ایک روایتی زمیندار گھرانے سے ہے۔ اسی ماحول میں انہوں نے آنکھ کھولی اور پھر اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ان کا لوہا منوانے میں کامیاب رہیں۔
بشریٰ اعجاز نے شاعری کا آغاز 1989ء میں کیا جب کہ باقاعدہ شاعری کا آغاز 19911ء میں کیا۔ وہ اپنے بارے میں کہتی ہیں کہ جب گھر اور فیملی میں سب یہ محسوس کرتے ہیں کہ کوئی شخص سنجیدگی سے کام کر رہا ہے اور انہیں اس کام سے کوئی مسئلہ نہیں آرہا تو انسان کو اجازت مل جاتی ہے کہ وہ اپنے ذوق و شوق کے سفر کو جاری رکھے۔دراصل میرے حالات تھوڑے سے مختلف تھے کیونکہ میرے بچے بڑے ہو چکے تھے۔ میرا بیٹا اس وقت میٹرک میں تھا جب میں نے لکھنا شروع کیا ۔ اس لئے فیملی کے لئے یہ کوئی عجیب چیز نہ تھی۔
بشریٰ اعجاز کا ایک بیٹا اور دو بیٹیاں ہیں۔ دونوں بیٹیوں کی شادی ہو چکی ہے۔ ان کے خیال میں بیٹیوں کے فرض سے سبکدوش ہونے کے بعد ادب اور مطالعہ کے لیے مکمل طور پر وقت مل جاتا ہے۔ بچوں کی تعلیم کے دوران وہ خود بھی پڑھائی میں مصروف رہیں۔ انہیں شروع سے ہی پڑھنے کا شوق تھا اور پڑھتے پڑھتے انہیں یہ محسوس ہوا کہ کہ کچھ کہنا چاہیے۔ جس کے بعد شاعری شروع کی اور اس کے بعد افسانہ لکھنا شروع کیا۔ 1992ء میں انہوں نے اپنا پہلا افسانہ لکھا۔ اس کے بعد افسانے بھی لکھتی رہیں اور شاعری بھی جاری رکھی مگر سب سے پہلے انہوں نے اردو شاعری کی۔
بشریٰ اعجاز کے بیٹے کو بھی شاعری سے لگائو ہے۔ وہ شعر کہتا ہے اور اس کی کچھ شاعری مختلف جرائد واخبارات میں بھی شائع ہو چکی ہے۔ وہ بچوں کی سوچ پر پابندی لگانے کی قائل نہیں ہیں۔انہوں نے جتنا کام بھی کیا وہ میرٹ پر کیا۔ انہوں نے افسانہ لکھا حالانکہ ان کا کوئی بیک گرائونڈ نہیں تھا، ان کا کوئی تعارف نہیں تھا۔
ان کے افسانوں کی 19955ء میں پاک بھارت کے بہترین افسانوں کے انتخاب میں بھی سلیکشن ہوئی جوان کے لیے ایک اعزاز کی بات ہے۔ ان کے بہت سے افسانوں پر ٹی وی ڈرامے بھی بنے۔ ان کی شاعری بھارت اور پاکستان دونوں ملکوں میں پسند کی جاتی ہے۔ ان کی مشہور کتابوں میں بارہ آنے کی عورت، آنکھیں دیکھتی رہتی ہیں، بھلیکھا، پباں بھار شامل ہیں۔
بشریٰ اعجاز مختلف ٹی وی پروگراموں میں بھی اپنی خدمات سرانجام دے چکی ہیں۔ آج کل روزنامہ ’’نئی بات‘‘ کے ساتھ منسلک ہیں اور ’’تیسرا کنارہ‘‘ کے نام سے کالم نگاری کرتی ہیں۔
بشریٰ اعجاز کے مشہور افسانے ’’بارہ آنے کی عورت‘‘ سے ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے:
’’میرا ریٹ!‘‘ وہ رکی۔ اک اسہتزائیہ مسکراہٹ اس کے خشک لبوں پر جاگی۔ اس نے مرد کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالتے ہوئے بڑے ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا۔ ’’بارہ آنے ہے۔‘‘ پھر اس نے مرد کے حیرت زدہ چہرے کی طرف دیکھے بغیر کار کا دروازہ کھولا اور فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گئی۔
مرد ابھی تک بے یقینی سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ پھر اس نے مشکوک نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے کار اسٹارٹ کر دی۔ ’’پاگل ہے بیچاری‘‘ اس نے اس کے الجھے ہوئے بالوں اور بے ترتیب حلئے پر نظر ڈالی۔
وہ ونڈ اسکرین پر نظریں جمائے خاموش بیٹھی تھی۔ اس کے اندر بگولوں کی طرح اٹھنے والے سوالات کی بازگشت کا سلسلہ موقوف ہو چکا تھا۔ اب وہ جانتی تھی کہ وہ کون ہے‘ صرف اور صرف بارہ آنے کی عورت۔
بشریٰ اعجاز کی پنجابی شاعری سے ایک نمونہ:
میں آکھاں میں کملی ہوئی
جد عشق دے اتھرو ویٹے
ہر اک منہ وچ سو سو گلاں
مینوں لگے زہر دے ٹیک
یہ کالم فیس بُک کے اس پیج سے لیا گیا ہے۔