دنیا کی آدھی دولت پرپانچ افرادکا قبضہ
یہ میرٹ کی کہانی بہت عجیب ہے۔میرٹ کے نام پر بڑ ی بڑی کمپنیاں اس کو اپنی دولت کا ذریعہ بنا رہی ہیں۔ اس کا بھی حال سنیے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی دولت عالمی مبصرین کی نظروں میں کانٹے کی طرح کھٹک رہی ہے ۔کسی نے کہا ’’سرکاری وسائل استعمال کئے ‘‘ کسی نے وائٹ ہائوس کی طاقت کے بل بوتے پر بزنس پھیلانے کا الزام لگایا۔جتنے منہ اس سے بھی زیادہ باتیں۔ صدر ٹرمپ ،بل گیٹس جیسے امرا کی فہرست میں شامل نہیں پھر بھی ان پر تنقید کے نشتر برس رہے ہیں ۔ اصل لوگ میڈیا کی نظروں سے اوجھل ہیں۔یقین کیجئے، 3.75ارب لوگوں کی دولت کے برابر سرمایہ صرف 5 امراکے پاس ہے ۔آدھی دنیا کے پاس 410ارب اورپانچ امیر ترین آدمیوں کے پاس 400 ارب ڈالر ہیں۔یہ ہے دنیاکا انصاف۔ 8جون 2017ء کے اعداد و شمار کے مطابق دولت کی تقسیم میں ناہمواریاں مسلسل بڑھتی جارہی ہیں۔امراانے ٹرسٹ،ٹیکس اور سب سڈی کی مدد سے غریب ممالک سے 196ارب ڈالر چھین لیے۔ رپورٹوں کے مطابق ان امرا نے 194 ارب ڈالر دنیا کے غریب ترین ممالک میں سے کمائے۔یہ دولت ان ممالک کے مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس سے حاصل کی گئی۔ یہ کمال ہے ملٹی نیشنل کمپنیوں کا۔ مڈل کلاس اورلوئر مڈل کلاس کے ہر فرد نے 17سو ڈالرفی کس ان 5 دولت مندوں کے اکائونٹس میں بھر دئیے۔ اس تحقیق کے مطابق 2016ء میں چند فیصد امیر ترین لوگ دنیا کی 90فیصد دولت پر قابض تھے۔ گزشتہ 8سال میں بدترین مالی بحران کے باوجودامرا کے اثاثے 8سو ارب ڈالر سے 250سو ارب ڈالر تک بڑھ گئے ہیں۔ ان لوگوں نے کیا تحقیق کی، کچھ جائزہ لیتے ہیں۔ امریکی مصنف پائول کے مطابق ان لوگوں میں کوئی مہارت نہیں، بل گیٹس نے کوئی تحقیق کی نہ کسی ’غیرمعمولی ذہنی صلاحیت ‘کا مظاہرہ کیا، بس قسمت ساتھ تھی ۔مارک زکر برگ اور جیف بیزوز نے کون سے کمالات دکھائے؟ تمام جدید ترین ٹیکنالوجی کی بنیاد عام لوگوں کے ٹیکسوں پر رکھی گئی ۔جبکہ امرا نے تحقیق کے لیے ریسرچ کے نام پر سبسڈی لی۔اس طرح ٹیکسوں کی آمدنی ملٹی نیشنل کارپوریشنز کو منتقل کر دی گئی۔ یہ قصہ ہے 1975ء کا ، 20سالہ بل گیٹس نے اپنے سکول کے ہم جولی پائول جولی کے ساتھ مائیکروسافٹ کی بنیاد رکھی۔ اس وقت گیری کلڈال کا سی پی ایس سسٹم عالمی معیار کے مطابق تھا۔ گیٹس کی کمپنی نے ابتدا میںیہی سسٹم استعمال کیا ، کلڈال کے پاس تحقیق تھی ،پیسہ نہ تھا۔ آئی بی ایم کے پاس پیسہ تھا لیکن کلڈال جیسی ذہنی صلاحیت کا فقدان تھا۔ وہ اپنے نئے سسٹم کی تلاش میں تھا۔ مگرگیری کلڈال نے تحقیق کی فراہمی میں تاخیر کر دی۔ اس کا فائدہ بل گیٹس کو پہنچا۔بل گیٹس اور ایلن نے موقع سے فائدہ اٹھا کر فوراً ہی مقامی کمپنی کے ساتھ معاہدہ کر لیا۔ اس کی بنیاد دراصل کلڈال کے سسٹم پر رکھی گئی تھی۔ کلڈال نے مقدمے دائر کرنے کا سوچا لیکن امریکہ میں سوفٹ وئیر انڈسٹری میں پراپرٹی رائٹس کے قوانین سرے سے موجود ہی نہ تھے ، کلڈال بچارہ تلملاتا رہ گیا۔ بل گیٹس نے حال ہی میں طلبہ و طالبات کے رد عمل کو جانچنے کے لیے رسپونس مانیٹر تیار کیے ہیں۔ یہ دراصل ٹیچرز کے لئے ویڈیو ٹیپ کر کے پرفارمنس کو جانچنے کا ایک طریقہ ہے۔ جس کی مددسے سکولوں کے بہترین رزلٹ کا پتہ چلایا جا سکتا ہے۔ سکولوں کے پرنسپلوں کے اختیارات اس سسٹم کو منتقل ہو گئے جس کی مانیٹرنگ مئیر کے پاس ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ 2035ء تک دنیا میں کوئی غریب ملک نہیں بچے گا۔ بات درست ہے کیونکہ ان کے وسائل پر کارپوریشنوں کا کنٹرول قائم ہو جائے گا۔ بل گیٹس کے کاروباری ساتھی جیس بی زو 2015ء سے ٹیکسوں کے خلاف قانونی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں۔ امریکہ میں ہائوسنگ انڈسٹری کا بزنس کھربوں ڈالر ہے۔ جیف بی زوز نے صرف 2سال میں 50ارب ڈالر کما لیے۔ انٹرنیٹ اور انفراسٹرکچر سے کمائی لا محدود ہے۔ ٹیکس بچانے کے لیے انہوں نے ٹیکس ہیون کا چنائو کیا ۔ طاقت ور لابیوں کی مدد لی، ان کی قیمت چکائی اور ٹیکس بچائے۔ وارن بوفے ،دنیا بھر میں امراء پر ٹیکسوں کی شرح میں اضافے کے حامی ہیں مگر وہ اپنے اوپر ٹیکس نافذ کرنے کے حق میں نہیں۔ ان کی کمپنی نے ٹیکسوں کی ادائیگی کا ایک خاکہ پیش کر کے 77ارب روپے کے رئیل سٹیٹ کے بزنس پرٹیکس بچا لیا۔ مارک زکر برگ امریکہ کے چوتھے اور دنیا کے چھٹے امیر ترین آدمی ہیں۔ ہاورڈ یونیورسٹی میں اپنے ہم جولیوں کا فیس بک بنانے کے بعد اب دنیا بھر میں ’فیس بک مین‘ کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ماضی میں یہی کام ایڈم گولڈ برگ اور وین ٹنگ بھی کر رہے تھے ۔ ان دولوگوں نے ’’ کیمپس نیٹ ورک‘‘کے نام سے بہترین سوشل نیٹ ورک بنایا۔ ان کے ساتھ ہاورڈ یونیورسٹی کا نام اور مالی سپورٹ نہ تھی۔ کئی اداروں نے اربوں روپے کی خیراتی تنظیم قائم کر رکھی ہے لیکن یہ بھی دراصل ٹیکس بچانے کا ذریعہ ہے، خیراتی اداروںنے دنیا کی دولت کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ یہ خیراتی سرگرمیاں دراصل امراء کا کھیل ہیں جس کے ذریعے سے وہ اپنے ٹیکس کو بچاتی ہیں۔ امیر امریکیوں نے اپنی تمام دولت اس تحقیق ، تخلیق اور ایجاد کی بنیاد پر کمائی جس کی بنیاد عام لوگوں نے رکھی۔ لیکن وہ سارے عام لوگ غریب ہیں اور دولت چند ہاتھوں میں سمٹ چکی ہے۔
٭…٭…٭
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔