ناول : جرس نما فانوس (The Bell Jar)
مصنف : سلویا پلاتھ (امریکا)
اردو ترجمہ : ڈاکٹر صہبا جمال شازلی (نیوزی لینڈ)
(زیرِ طبع ناول کا ایک باب)
باب : 1
وہ ایک عجیب ، سخت گرم موسم گرما تھا۔ایسا گرما جس نے روزن برگ کے باشندوں کو بجلی سے جلا کر مار دیا گیا ، اور میں نہیں جانتی تھی کہ میں نیویارک میں کیا کررہی تھی۔پھانسی کے ذریعہ دی جانے والی سزاۓ موت میری سمجھ سے باہر تھی۔اور بجلی سے کسی کو مارنا مجھے پریشان کیے دیتا تھا۔بس یہی ہوتا تھا اخبارات میں پڑھنے کے لیے۔۔۔ خیرہ چشم سرخیاں گلی کے ہر نکڑ پر مجھے گھورتی ہوئی دکھائی دیتیں ، اور مونگ پھلی کی بو سے بھرے زمین دوز راستوں کے داخلے۔ ویسے ان تمام چیزوں کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں تھا ، لیکن میں اس بات پر متعجب ہوے بغیر نہیں رہ سکتی تھی کہ آخر کسی کے سارے اعصاب کے ساتھ زندہ جلا دیا جانا کیسا ہوتا ہوگا۔
میرے خیال سے یہ دنیا کا بدترین عمل ہونا چاہیے۔
نیویارک ویسے کافی بری جگہ تھی۔ صبح کے نو بجے ہی مصنوعی ، دیہی علاقہ کی نم تازگی جو ساری رات برستی رہتی تھی ، بھاپ بن کر اڑ جاتی تھی ،کسی خوبصورت خواب کے آخری حصہ کی طرح۔سراب کی طرح سرمئی رنگ کی سنگ خاراں (granite) کی وادی کے نیچے ، گرم سڑکیں چمکتے ہوے سورج کے ساتھ ڈولتی چلی جا رہی تھیں ، کار کی چھت گرمی کی تپش سے چمکنے لگتی تھی اور وہاں اڑنے والی خشک اور گرم دھول اس کی آنکھوں اور حلق میں داخل ہو جایا کرتی تھی۔
روزن برگ کے باشندوں کے بارے میں میں برابر ریڈیو پر اور آفس میں سنتی رہا کرتی تھی ، اس وقت تک جب تک میں انھیں اپنے ذہن سے پوری طرح نہ نکال پائی ۔ جیسے میں نے اپنی زندگی میں پہلی مرتبہ کوئی لاش دیکھی تھی۔اور اس کے بعد کئی ہفتوں تک ، اس لاش کا سر ۔۔۔۔ یا پھر جو کچھ بھی بچ سکا تھا ۔۔۔۔ میرا پیچھا کرتا رہتا ، ناشتہ کی میز پر ( انڈوں اور بیکن میں) ، بڈی ویلارڈ (Buddy Willard) کے چہرے کے پیچھے جو اولاً مجھے اس لاش کو دکھانے کا ذمہ دار تھا ، اور جلد مجھے احساس ہو گیا کہ جیسے میں اس لاش کا سر ڈوری سے باندھے اپنے ساتھ لیے پھرتی رہی کسی سرکہ کی بو سے بھرے سیاہ غبارہ کی طرح ۔
میں جانتی تھی کہ اس گرما کے موسم میں کہیں نہ کہیں کچھ غلط ضرور تھا ، کیونکہ ان دنوں جو کچھ بھی میں سوچ رہی تھی وہ بس روزن برگ کے باشندوں کے بارے میں ، اور میری دوسری حماقت یہ تھی کہ میں سارے غیرآرام دہ اور مہنگے کپڑے خریدتی چلی گئی جو بے جان مچھلیوں کی طرح میری کپڑوں کی الماری میں لٹک رہے تھے ، اور وہ چھوٹی چھوٹی کامیابیاں جو میں نے خوشی خوشی کالج سے جمع کی تھیں وہ سب بیکار دکھائی دینے لگی تھیں ،اس میڈیسن اوینیو(Madison Avenue) کے ساتھ ساتھ لگے صاف سنگ مرمر اور سامنے لگے حلبی شیشہ کے آگے۔
میرے لیے لازمی تھا کہ میں اپنی زندگی کو وقت دوں۔
میں ان میری ہی جیسی ، سارے امریکا میں پھیلی ، ہزاروں کالج جانے والی لڑکیوں کے لیے قابل رشک بن ہوئی تھی ، جو کچھ اور نہیں بس چاہتی تھیں کہ وہ بھی انھی اعلٰی قسم کے سیاہ چمڑے کے بنے ، سائیز ۔۷ ، جوتے پہن کر تھرکتی پھریں جو میں نے بلومنگڈیل(Bloomingdale) سے دوپہر کے ایک گھنٹے کے وقفہ میں جاکر خریدے تھے اور ان کے ہم آہنگ ہی سیاہ بہترین چمڑے کا بیلٹ اور جیبی نوٹ بک بھی خریدا ۔اور جب میری تصویر اس رسالہ میں چھپی جہاں ہم بارہ لوگ کام کرتے تھے ۔۔۔ قلیل مقدار میں شراب(martinis) پیتے ہوے ، بادل کی طرح سفید جالی کی پوشاک کے اوپری حصہ پر مصنوعی چاندی کی تزئین کاری ، جیسے کوئی ( رولس۔رویس Rolls-Royce) کے چھت کی سجاوٹ (Starlight Roof) کی گئی ہو ، کئی نامعلوم امریکی نوجوانوں کے ساتھ جنھیں صرف اس موقع کے لیے کرایہ پر بلایا گیا تھا ۔۔۔ ہر شخص سوچ رہا ہوگا میں سچ مچ کا بگولہ (تیز گھومتی ہوا) ہوں۔
لوگ کہتے ہیں ، دیکھو اس ملک میں کیا کیا ہو سکتا ہے۔ ایک غریب لڑکی شہر سے دور کسی علاقہ میں انیس سال سے رہ رہی ہے۔ وہ اتنی غریب ھیکہ ایک رسالہ بھی خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتی ، اور پھر اسے کالج کی طرف سے تعلیمی وظیفہ دیا گیا ، اور پھر وہ انعام پر انعام جیتتی چلی گئی اور بالآخر سارے نیویارک کو خود کی کار کی طرح گھماتی رہتی ہے۔
بس میں تھی جو کچھ نہیں چلاتی تھی یہاں تک کہ خود کو بھی نہیں۔ہوٹل سے کام کی طرف دوڑنا ، پھر پارٹیوں میں ، پھر ہوٹل اور پھر واپس کام پر ، کسی بجلی کی تاروں سے چلنے والی بے حس بس کی طرح۔میرا قیاس تھا کہ مجھے بھی اور لڑکیوں کی طرح جوشیلی ہونا چاہیے تھا ، لیکن میں ایسا کوئی رد عمل دکھا نہیں سکی۔میں خود کو بہت ساکت اور خالی محسوس کرتی تھی ، کسی طوفان سے پہلے کی خاموشی کی طرح ، سست رفتاری سے اس افراتفری کے ماحول میں حرکت کرتی ہوئی۔
ہم بارہ لوگ ہوٹل میں رہ رہے تھے۔
ہم سب نے مضامین ،کہانیاں نظمیں اور فیشن کے مختصر اشتہارات لکھ کر فیشن میگزین کا مقابلہ جیتا تھا ، اور انعام کے طور پر انھوں نے ہمیں ایک مہینہ کے لیے نیویارک میں ملازمت فراہم کی تھی ، سارے اخراجات اور کئی اضافی انعامات کے ساتھ جیسے ڈرامائی رقص (ballet) کے ٹکٹ ، فیشن شو کے پاسیس ، کسی مشہور اور مہنگے آرائش کدہ ( beauty salon) پر بالوں کو سنوارنے کا موقع اور اپنی پسند کے کامیاب شخصیتوں سے ملاقات ، اور چہرے کی خاص رنگت کے لیے مفید مشورے۔
وہ میک اپ کیٹ(make-up kit) جو انھوں نے مجھے دی تھی، اور جو کسی بھوری آنکھوں اور بھورے بالوں والے شخص کے لیے بہت مناسب تھی ، ابھی تک میرے پاس ہے : لمبا سا بھورا مسکارا چھوٹے سے برش کے ساتھ ، نیلے رنگ کا آنکھوں کو سنوارنے والا مادہ (eyeshadow)ایک گول چھوٹے سے کٹورے میں جس میں انگلی کے سرے کو چھو سکے ، تین قسم کے لپ اسٹک کے شیڈس _ سرخ سے گلابی رنگ تک ، تمام چیزیں ایک سونے کے ملمع کیے ڈبہ میں جس میں آئینہ بھی لگا تھا۔ میرے پاس ایک دھوپ کی عینک کو رکھنے کا ڈبہ بھی ہے جس پر رنگ برنگی سیپیوں کے ساتھ ستارے اور ایک سبز اسٹار فش بھی جڑے تھے ۔
۳
مجھے احساس تھا کہ ان سارے تحفوں کے میں نے ڈھیر لگا رکھے تھے وہ ان کمپنیوں کے اشتہارات کی طرح تھے ، لیکن میں اس سلسلہ میں بدگمان یا گھٹیا سوچ نہیں رکھتی تھی۔ان تمام تحایف سے جو مجھ پر برساے گیے تھے ، مجھے ہٹا دیا گیا۔ اس کے بعد کافی عرصہ میں نے انھیں چھپا دیا تھا، لیکن بعد میں جب میں ٹھیک ہو گئی تو پھر انھیں باہر نکالا اور وہ ابھی بھی میرے گھر میں پڑے ہیں۔ میں اب بھی اکثر وہی لپ اسٹکس استعمال کرتی ہوں ، اور گذشتہ ہفتہ ہی میں نے اس دھوپ کے چشمہ کے کیس سے اسٹار فش نکال دی اور اسے کھیلنے کے لیے میرے بچہ کو دے دیا۔
تو ہم بارہ لوگ ہوٹل کے ایک ہی حصہ میں ، ایک ہی منزل پر ، ایک ہی قطار میں ، سنگل کمروں میں ، رہ رہے تھے جو مجھے کالج کے ہاسٹل کی یاد دلاتا تھا۔ویسے یہ کوئی عام ہوٹل نہیں تھا جہاں مرد اور عورتیں ایک ساتھ اسی منزل پر گھومتے رہیں۔
یہ ہوٹل ۔۔ امیزان ۔۔ صرف عورتوں کے لیے تھا ، اور وہ زیادہ تر میری عمر کی ، امیر گھروں کی لڑکیاں جن کے والدین اس بات کا یقین کرنا چاہتے تھے کہ ان کی بیٹیاں ایسی جگہ رہ رہی تھیں جہاں مردووں سے ان کا کوئی تعلق ہوگا اور نہ ہی کوئی مرد انھیں دھوکہ دے پائیگا۔وہ لڑکیاں کیٹی گیبس (Katy Gibbs) جیسےشہر کے سیکریٹیریل اسکولس (Secretarial schools) میں پڑھتی تھیں۔وہ اعلٰی افسروں کی معتمد بنی نیویارک شہر میں گھوما کرتیں اور کسی اعلٰی عہدے پر فائیز شخص سے شادی کی منتظر تھیں۔
یہ لڑکیاں مجھے انتہائی بیزار اور اکتائی ہوئی دکھائی دیتی تھیں۔میں نے انھیں کار کی چھت کے کھلے حصہ (sunroof) پر دیکھا ، کبھی جمائیاں لیتی ہوئی ، کبھی ناخنوں کو رنگتے ہوے ، اور برمودا ٹین(Bermuda Tan_ a tanning salon) سے مسلسل اپنی رنگت کو برقرار رکھتے ہوے مجھے زہر لگتی تھیں۔ ان میں سے میں نے ایک سے بات کی تو پتہ چلا کہ وہ تفریحی کشتیوں سے بیزار تھی ، وہ ہوائی جہازوں سے بیزار تھی ، وہ کرسمس کے موقع پر سویٹزرلینڈ ( Switzerland) کی برف پر سکیینگ(skiing) کرنے سے بیزار تھی اور برازیل (Brazil ) کے مردووں سے بیزار تھی۔
اس طرح کی لڑکیاں مجھے پریشان کردیتی ہیں۔مجھے ان سے اتنی حسد ہوتی ھیکہ میں بتا نہیں سکتی۔انیس سالوں میں میں کبھی بھی نیو انگلینڈ(New England) سے جب چاہے باہر نہیں گئی سواے نیویارک کے اس سفر کے۔یہ میرا پہلا بڑا موقع تھا ، لیکن میں یہاں تھی ، اس موقع کو پانی کی طرح میری انگلیوں سے بہتے ہوے دیکھ رہی تھی۔
میرے خیال سے میری ساری مصیبتوں میں سے ایک مصیبت تھی ڈورین( Doreen)۔
ڈورین جیسی لڑکی میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔اس کا تعلق نشیبی دکنی علاقہ کے سوسائٹی زنانہ کالج سے تھا۔ اس کے بال کسی چمکتی ہوئی سفید ملائم کینڈی فلاس( candy floss) کی صورت میں سر کے اطراف گیند کی طرح جمے ، نیلی آنکھیں لا زوال شفاف عقیق کی گولیوں کی طرح سخت اور پالش کی ہوئی ، اور ہونٹوں پر دائمی حقارت آمیز مسکراہٹ ۔ میرا مطلب اس کی اس ناگوار مسکراہٹ نہیں ، بلکہ بہلانے والی پراسرار مسکراہٹ جیسے اس کے اطراف سارے لوگ کچھ حد تک بیوقوف ہوں اور وہ جب چاہے ان کا مذاق اڑاسکتی تھی۔
ڈورین کا برتاؤ میرے ساتھ ابتدا ہی سے سب سے مختلف تھا۔ اس نے مجھے احساس دلایا کہ میں دوسروں سے زیادہ تیز ہوں ، اور وہ واقعی بے حد مزاحیہ طبیعت کی مالک تھی۔ وہ ہمیشہ کانفرنس میز پر میرے ساتھ ہی بیٹھا کرتی تھی اور جب مدعو مشہور شخصیت بات کر رہا ہوتا تو وہ میرے کان میں کوئی تیز فہم اور اہانت آمیز جملہ آہستہ سے کہہ دیا کرتی تھی۔
اس نے بتایا کہ اس کا کالج فیشن سے اتنا زیادہ واقف تھا کہ یہاں کی لڑکیاں ان کی جیبی نوٹ بک کا سر ورق بھی اپنے لباس کے کپڑے سے بنواتی تھیں ۔ اس طرح سے وہ جب بھی لباس تبدیل کرتیں تو اس کے مماثل جیبی نوٹ بک بھی لیتیں۔ان تفصیلات نے مجھے بڑا متاثر کیا۔اور میں مقناطیسی کشش کے ساتھ اس شاندار اور وسیع عیاشی سے بھری پوری زندگی کی گرودہ ہو گئی۔
ایک ہی موقع ہوتا تھا جب ڈورین مجھ پر چلانے لگتی تھی اور وہ تب جب میں اپنے اسائینمنٹس وقت پر تیار کر دیا کرتی تھی۔
“ تم اسقدر محنت آخر کس لیے کررہی ہو ؟” ڈورین سرخی مائل نارنجی رنگ کے سلک گاؤن پہنے میرے بستر پر آرام سے بیٹھ کر اپنے لانبے ہلکے زرد رنگ کے ناخنوں کو کاغذی ریگ مال سے گھس رہی تھی ، اور میں ایک سب سے زیادہ پسندیدہ ناول نگار سے انٹرویو کا مسودہ ٹائپ کر رہی تھی۔
وہ ایک الگ بات تھی ۔۔۔۔ باقی ہم سب کے پاس اسٹارچ کیے ہوے سوتی گاؤن( خواتین کا رات میں پہننے کا لباس) اور گھر میں پہننے کے گھر میں سلے لانبے کوٹ تھے یا شائد ٹیری کلاتھ کے لانبے لبادے (terycloth robes) ، جبکہ ڈورین پہنتی تھی فیتوں سے مزئین نائلون کے شفاف لانبے لباس ، اور جلد کے رنگ کے جسم سے چپکے لباس ۔ اور ویسے اس کے پاس سے ہلکی سی پسینہ کی بو آتی تھی جو مجھے مشرقی۔شمالی امریکہ میں پائی جانے والی میٹھی فرن کے مچھلی نما پتوں کو توڑ کر اپنے ہتھیلیوں میں مسلنے کے بعد آنے والی مشک کی سی خوشبو کی یاد دلاتی تھی۔
“ تم جانتی ہو اس بوڑھی جے سی(Jay Cee) کو رتی برابر بھی پرواہ نہیں کہ وہ کہانی کل چھپے یا پیر کو۔” ڈورین نے سگریٹ سلگائی اور دھواں اس کے نتھنوں سے آہستہ سے پھیلتے ہوے اس کی آنکھوں پر چھا جا گیا ۔“جے سی کسی گناہ کی طرح بد صورت ہے ،” ڈورین نے بڑے اطمینان سے بتایا۔ میں شرطیہ کہہ سکتی ہوں کہ اس کا بوڑھا شوہر ضرور اس کے قریب جانے سے پہلے ساری روشنیاں بند کر دیتا ہوگا ورنہ شائد اسے متلی ہونے لگتی ۔”
جے سی میری باس(boss) تھی ، اور میں اسے بہت پسند کرتی تھی ، باوجود یکہ ڈورین نے جو کہا تھا۔وہ مصنوی پلکیں لگاے اور گھٹیا قسم کے زیور پہن کر فیشن میگزین کے پیچھے دوڑنے والی خاتون نہیں تھی۔ جے سی چونکہ ایک عقلمند عورت تھی ،اس لیے اس کا خوبصورت نہ ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا تھا۔وہ دو ایک زبانیں جانتی تھی اور اس کاروبار سے جڑے تمام معیاری ادیبوں کو بھی جانتی تھی۔
میں نے سوچنے کی بہت کوشش کی کہ جے سی اپنے سخت آفس سوٹ اور لنچ کے وقت پہننے والا ہیٹ کے بغیر اس موٹے شوہر کے ساتھ بستر میں ، لیکن میں کچھ تصور نہیں کرپاتی تھی۔کیونکہ ہمیشہ ہی یہ میرے لیے بے حد مشکل تھا کہ میں لوگوں کو ان کے بستروں میں یکساتھ ہونے کا تصور کر سکوں۔
جے سی مجھے کچھ سکھانا چاہتی تھی ، اور ویسے جتنی بھی بوڑھی خواتین کو میں جانتی تھی وہ سب ہی مجھے کچھ نہ کچھ سکھانا چاہتی تھیں ، لیکن اچانک ہی مجھے احساس ہو گیا کہ ان کے پاس مجھے سکھانے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا۔میں نے ٹائیپ رائیٹر کا ڈھکن اس پر لگایا اور اسے بند کردیا۔
ڈورین مسکرائی ۔” ہوشیار لڑکی ہو۔”
کسی نے دروازہ پر دستک دی۔
“ کون ہے ؟” مجھے اٹھنا بھی گوارا نہیں تھا۔
“ میں ہوں بیٹسی (Betsy) ۔ کیا تم پارٹی میں آرہی ہو ؟”
“ میں بھی ایسا ہی سوچ رہی ہوں۔” ویسے ابھی تک بھی میں دروازہ کے پاس نہیں گئی۔
بیٹسی ، سنہرےبالوں کی اچھلتی پونی ٹیل ( ponytail) اور سویٹ ہارٹ ۔ آف ۔ سگما۔چی (Sweetheart – of -Sigma- Chi) سی مسکراہٹ لیے ، ایک گوری رنگت والی لڑکی کو سیدھے کینساس(Kansas) سے لایا گیا تھا۔ مجھے یاد ہے ایک مرتبہ ہم دونوں کو کسی غیراہم ٹی وی پروڈیوسر کے آفس میں بلایا گیا تھا وہ دھاری دار سوٹ والا پروڈیوسر دیکھنا چاہتا تھا کہ کیا ہم کسی زاویہ سے اس کے پروگرام کے لیے مناسب تھیں ، اور بیٹسی نے کینساس کے نر اور مادہ مکئی کے بارے میں بتانا شروع کر دیا۔وہ اتنے جذباتی انداز میں اس بیکار مکئی کے بارے میں بولتی چلی گئی کہ خود پروڈیوسر کی آنکھوں میں آنسو آگیے ، ویسے وہ بدقسمتی سے انھیں استعمال نہیں کر سکا ، اس نے بتایا۔
کچھ عرصہ بعد بیوٹی ایڈیٹر (Beauty Editor) نے اس بات پر آمادہ کرنا چاہا کہ وہ اپنے بال کاٹ کر ماڈل گرل ، اور میں ابھی بھی اسے اکثر اسے “P.Q.’s wife wears B. H. Wragge” کے اشتہارات میں مسکراتی دکھائی دیتی ۔
بیٹسی ہمیشہ مجھ سے کہا کرتی تھی کہ میں بھی بیٹسی اور دوسری لڑکیوں کی طرح وہی کام کروں ، ایک طرح سے وہ مجھے بچانے کی کوشش کر رہی تھی۔اس نے ڈورین سے کبھی نہیں پوچھا۔ ویسے میں جانتی تھی وہ اسے Pollyanna Cowgirl ( خیالی پلاؤ پکانے والی) کہا کرتی تھی۔
“ تم ہماری ٹیکسی میں آنا چاہوگی ؟” بیٹسی نے دروازہ سے ہی پوچھا۔
ڈورین نے سر ہلایا۔
۴
“ ٹھیک ہے ، بیٹسی ،” میں نے کہا۔” میں ڈورین کے ساتھ جارہی ہوں۔”
“ ٹھیک ہے۔” اور نیچے ہال میں جاتے ہوے اس کے قدموں کی آوازیں مجھے صاف سنائی دے رہی تھیں۔
“ ہم ان کے ساتھ بس اس وقت تک ہی رہینگے جب تک ہم بیزار نہیں ہوجاتے ،” ڈورین نے مجھ سے کہا اور میرے بستر کے بازو رکھے لیمپ کی تہہ میں سگریٹ کا ٹکڑا ڈال دیا ، “ پھر ہم شہر کی طرف چلے جائینگے۔ ان کی پارٹیاں مجھے اسکول کے کسرت گھر( gym) میں کیے جانے والے پرانے رقص کی یاد دلاتے ہیں۔وہ کیوں ہمیشہ یالیس (Yalies۔ ایک افسانوی جانور جس کے سینگ اور ہاتھی جیسے دانت ہوتے ہیں۔) کی طرح دائرہ بناتے ہیں۔بڑے بیوقوف ہیں وہ !”
بڈی ویلارڈ (Buddy Willard) یالے(Yale) چلا گیا تھا ، لیکن اب میں سوچ رہی تھی اس کی غلطی کیا تھی، اور وہ یہ کہ وہ بیوقوف تھا۔اور ہاں ، اس نے کسی طرح سے اچھے نمبرات حاصل کیے تھے اور کیپ (Cape) پر کسی ہوٹل کی گلیڈیس ( Gladys) نامی ، پیش خدمت ملازمہ (waitress) کے عشق میں پڑ چکا تھا ، لیکن اسے مستقبل کا ذرہ برابر بھی اندازہ نہیں تھا۔ ڈورین میں یہ الہامی خصوصیت تھی۔ وہ جو کچھ بھی کہا کرتی تھی ، لگتا تھاکوئی خفیہ آواز سیدھی میرے اندر سے آرہی ہو۔
ہم تھیٹر کے وقت ہونے والی بھیڑ میں پھنس چکے تھے۔ہماری ٹیکسی بیٹسی کی ٹیکسی کے پیچھے اور اس کے سامنے کی ٹیکسی میں دوسری چار لڑکیاں تھیں ، اور کوئی بھی آگے نہیں بڑھ رہی تھی۔
ڈورین بلا کی حسین لگ رہی تھی۔اس نے بغیر تسمہ کے ، فیتوں سے مزئین سفید لباس پہن رکھا تھا جو سامنے سے بنیان کے اوپر زپ سے بند ہوتا ، بنیان جو درمیان میں خم دار ہو کر ، شاندار طور پر اوپر اور نیچے ابھرا ہوا ، اور اس کی جلد پر ہلکے سے پاؤڈر کے نیچے کانسی رنگ کی پالش لگی تھی ۔اور خوشبو اتنی کہ لگتا تھا خوشبو کی دکان ہو۔
میں نے سیاہ ریشم کا رسمی لباس پہنا تھا جو میں نے چالیس ڈالرس میں خریدا تھا۔ویسے یہ میری اس شاپنگ سپری (shopping spree ) کا حصہ تھا جو رقم مجھے وظیفہ کے طور پر ملی تھی جب مجھے خبر ملی تھی کہ میں ان چند خوش قسمت لوگوں میں سے ایک تھی جنھیں نیویارک جانے کا موقع ملا تھا۔یہ ڈریس کچھ عجیب طرح سے سلا تھا جس کے اندر میں کوئی چولی پہن نہیں سکتی تھی ، لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کیونکہ میں بہت دبلی پتلی سی تھی کسی لڑکے کی طرح اور بمشکل لہراتی [rippled] تھی، اور میں گرما کی راتوں میں تقریباً برہنہ رہنا پسند کرتی تھی۔
اگرچہ کہ شہر کی زندگی نے میرے رنگ کو ہلکا کردیا تھا۔ اب میں کسی چینی (Chinaman) کی طرح زرد دکھائی دیتی تھی۔ عام طور پر میں اپنے لباس اور عجیب سی رنگت کی وجہ سے مضطرب سی رہتی تھی ، لیکن ڈورین کی دوستی نے مجھے اپنی پریشانیوں کو بھول جانے میں میری بہت مدد کی۔ اور میں اپنے اطراف پھیلے دوزخ میں خود کو کافی عقلمند اور ہوشیار محسوس کرنے لگی تھی۔
ایک شخص نیلے رنگ کی اونی شرٹ ( blue lumber shirt) اورسیاہ چینوز ( چینی کپڑے کی پتلون) اور اوزار والے چمڑے کے گھڑ سواری والے جوتے پہنے ہماری طرف آنے لگا تھا جو اپنے شراب خانہ کے دھاری دار سائبان سے ہماری ٹیکسی کی طرف دیکھ رہا تھا ، میری نظریں دھوکہ نہیں کھا سکتی تھیں۔میں اچھی طرح جانتی تھی وہ ڈورین کے لیے آیا تھا۔ وہ رکی ہوئی کاروں کے درمیان سے راستہ بناتا ہوا کار کی کھلی کھڑکی کی فریم پر جھک گیا۔
“ اور کیا، میں پوچھ سکتا ہوں ، تمھاری طرح دو خوبصورت لڑکیاں اس خوبصورت رات میں تنہا اس ٹیکسی میں کیا کررہی ہیں ؟”
اس کی بڑی ، چوڑی مسکراہٹ کسی سفید ٹوتھ پیسٹ کا اشتہار دکھائی دے رہی تھی۔
“ ہم پارٹی میں جارہے ہیں ،” میں نے بنا سوچے سمجھے کہہ دیا ، جبکہ ڈورین اچانک کسی ستون کی طرح گونگی ہو گئی تھی ، بیزار سی ، لاتعلق ، اپنی انگلیوں سے جیبی کتاب کے کور کو بجاتے ہوے۔
“ بہت ہی اکتادینے والی آوازہے ، “ اس شخص نے کہا۔ “ کیوں نہیں تم دونوں میرے ساتھ وہاں شراب خانہ میں بیٹھ کر کوئی مشروب پی لیں۔وہاں میرے کچھ دوست میرا انتظار کر رہے ہیں۔”
اس نے اس سمت میں سر ہلایا جہاں کچھ آدمی غیر رسمی لباس پہنے ، بے ہنگم طریقہ سے سائبان کے نیچے ٹہل رہے تھے۔ اور اسکو نگاہوں سے تلاش کر رہے تھے اور جب اس نے پلٹ کر انھیں دیکھا تو وہ زور زور سے ہنسنے لگے۔
ان کی ہنسی سے مجھے خبردار ہوجانا چاہیے تھا۔یہ ان کا اوچھاپن اور توہین آمیز مسکراہٹ تھی۔لیکن ٹریفک آگے بڑھنے لگی تھی ، اور اگر میں ٹھیک سے نہ بیٹھی ہوتی تو شائد دو ہی لمحوں میں مجھے خواہش ہوتی کہ نیویارک کو دیکھنے کے موقع کا تحفہ قبول کر لیتی ان مراعات کے علاوہ جو میگزین کے لوگوں نے ہمارے لیے بڑی احتیاط سے تیار کی ہوئی تھی۔
“ کیسا رہے گا، ڈورین؟” میں نے کہا۔
“ کیسا رہے گا ، ڈورین ؟” اس شخص نے اپنی مسکراہٹ کو مزید بڑی کرتے ہوے کہا۔ آج بھی مجھے یاد نہیں پڑتا کہ وہ بغیر مسکراہٹ کے کیسا دکھائی دیتا ہوگا۔میرے خیال سے وہ ہر وقت ہی مسکراتا رہتا ہوگا۔ اس طرح مسکرانا اس کے لیے قدرتی عمل تھا۔
“ ٹھیک ہے ، “ ڈورین نے کہا۔ جیسے ہی ٹیکسی کنارے پر رکی ، میں نے دروازہ کھولا اور ہم باہر نکل کر شراب خانہ کی طرف چلنے لگے۔
بریک لگانے کی خوفناک آواز سنائی دی اور فوری بعد مدھم آواز میں کسی کو پیٹنے کی آوازیں آنے لگی تھیں۔
“ ارے ، سنو !” ہمارا ٹیکسی ڈرائیور سارس کی طرح کھڑکی سے گردن باہر نکال کر انتہائی غصہ میں کہنے لگا، “ تم لوگ کیا سمجھتے ہو کہ کیا کر رہے ہو؟”
اس نے ایسے دفعتاً کار روکی کہ اس کے پیچھے آنے والی ٹیکسی اس سے بری طرح ٹکرائی اور اندر بیٹھی چاروں لڑکیاں نیچے گر کر اٹھنے کی سخت کوشش کرنے لگیں ، اور ہاتھ پاؤں کے بل اوپر چڑھنے کی جد و جہد کرنے لگی تھیں ۔
وہ شخص ہنسنے لگا اور ہمیں فٹ پاتھ پر چھوڑ کر ، کاروں کے ہارن اور لوگوں کی چیخوں کے درمیان ، واپس ڈرائیور کے پاس جا کر اسے کرایہ کے پیسے دے دیا۔اور پھر ہم نے دیکھا وہ میگزین والی لڑکیاں قطار میں ، ایک ٹیکسی کے بعد دوسری ، کسی شادی کی پارتی میں جانے والی دلہن کی ساتھیوں کی طرح۔
“ چلو بھئی ، فرینکی(Frankie) ،” اس شخص نے ان دوستوں میں سے ایک سے کہا اور وہ پستہ قد ، گہری نگاہوں والا شخص سب کو چھوڑ کر ہمارے ساتھ شراب خانہ میں داخل ہو گیا۔
وہ ایسا شخص تھا جسے میں برداشت نہیں کر سکتی تھی۔میرا قد پانچ فٹ اور دس انچ ، اورکسی چھوٹے قد کے آدمی کے لیے مجھے تھوڑا جھکنا پڑیگا ، کمر جھکانی پڑیگی ، ایک اوپر اور ایک نیچے ، لہٰذہ میں پستہ قد دکھائی دونگی ، اور یہ مجھے پژ مردگی اور بے ڈھنگے پن کا احساس دلائیگا ، جیسے کوئی کسی کے سایہ میں ہو۔
ایک منٹ کے لیے ایک وحشیانہ قسم کی امید جاگ اٹھی کہ جوڑیاں قد و قامت کے حساب سے ہونی چاہیے ، جس کے مطابق وہ شخص جس نے ہم سے سب سے پہلے بات کی تھی وہی مناسب ہوسکتا تھا، جس کا قد چھے فٹ تھا۔ لیکن وہ تو آگے ڈورین کے ساتھ چلا گیا ، اور مجھ پر دوسری نظر ڈالنا بھی گوارہ نہیں کیا۔ میں نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ میں نے فرینکی کو دیکھا ہی نہیں جو کتے کی طرح میرے پیچھے چلا آرہا تھا اور میز کے پاس ڈورین کے قریب بیٹھ گیا۔
شراب خانہ میں اتنا اندھیرا تھا کہ مجھے بمشکل کچھ دکھائی دے رہا تھا سواے ڈورین کے۔ اس کے سفید بالوں ، سفید ڈریس اور وہ خود سفید بالکل چاندی کی طرح دکھائی دے رہی تھی۔میرے خیال سے پورے شراب خانہ پر اس کا عکس نیون(neon) گیس کی طرح پڑ رہا تھا۔مجھے محسوس ہونے لگا تھا جیسے میں پگھلتی جا رہی تھی کسی انجان شخص کے سایہ میں ، اس کے نیگیٖٹیو (negative) کی طرح جسے میں نے پہلے کبھی اپنی زندگی میں دیکھا ہی نہیں تھا۔
“ چلیں ، بتائیں ہم کیا لیں گے ؟” اس شخص نے بڑی سی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا۔
“ مجھے تو پرانی چیزیں پسند ہیں،” ڈورین نے مجھ سے کہا۔
۵
پینے کے لیے آرڈر دینا میرے لیے ہمیشہ شرمندگی کا باعث ہوا کرتا تھا۔میں نہیں جانتی تھی وہسکی (whisky) اور جن(gin) کا فرق ، میں کبھی طۓ نہیں کرپاتی تھی کہ مجھے کیا لینا چاہیے۔بڈی ویلارڈ اور کالج کے دوسرے لڑکے ، میں جانتی تھی ، اتنے غریب تھے کہ وہ مہنگی شراب خرید نہیں سکتے تھے ، اور اسی لیے ایک ساتھ کسی شراب خانہ جاکر شراب پینے کو حقیر اور توہین آمیز کہتے تھے۔ حیرت کی بات تھی کہ آخر کالج کے کتنے لڑکے ہونگے جو شراب اور سگریٹ کا استعمال نہیں کرتے تھے ؛ میرے خیال سے میں انھیں جانتی تھی۔بہت دور رہنے والا بڈی ویلارڈ نے اگر ہمارے لیے کچھ خریدا بھی تو وہ ڈیوبونیٹ(Dubonnet۔ فرانسیسی اشتہا انگیز شراب ) ، اور وہ یہ بھی صرف اس لیے کہ وہ یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ میڈیکل طالب علم ہونے کے باوجود وہ ذوق جمالیات رکھتا تھا۔
“ میں ووڈکا (Vodka۔ تیز روسی شراب) لونگی ،” میں نے کہا۔
وہ شخص میری طرف غور سے دیکھنے لگا۔ “ ساتھ میں کچھ اور ؟”
“ صرف یہی ،” میں نے کہا۔ “ میں ہمیشہ اسے سادہ ہی لیتی ہوں۔”
میں نے سوچا کہ اگر میں کہتی کہ اس کے ساتھ برف ، جن یا کچھ اور لیتی ہوں تو خود کو بیوقوف بنانے کے مترادف ہوتا۔ایک مرتبہ میں نے ووڈکا کا اشتہار دیکھا تھا جس میں ووڈکا سے بھرا گلاس نیلی روشنی میں برف کے تودہ کے درمیان رکھا تھا ، اور وہ صاف اور شفاف پانی کی طرح دکھائی دے رہا تھا اس لیے میں نے سوچا کہ ووڈکا سادہ ہی ٹھیک رہیگا۔یہ میرا خواب تھا کہ کسی دن میں کسی مشروب کے لیے آرڈر کروں اور وہ میرے لیے ذائقہ دار ثابت ہو۔
تب ہی وہاں ویٹر آگیا ، اور اس شخص نے ہم چاروں کے لیے مشروب آرڈر کیا۔وہ اس شہری شراب خانہ میں ، مویشی خانہ والے لباس میں آرام دہ اور بے تکلف محسوس کر رہا تھا ، اس لیے مجھے لگا کہ وہ ضرور کوئی مشہور شخصیت ہوگا۔
ڈورین بالکل خاموش ، کارک سے بنی طشتری کے نیچے رکھی جانے والی تہ پوشی سے کھیل رہی تھی اور بالآخر سگریٹ سلگالی اور اس شخص نے بھی کوئی اعتراض نہیں کیا۔ وہ تو اسے ایسے گھورے جا رہا تھا جیسے لوگ چڑیا گھر میں سفید مکاؤ ( macaw۔ امریکا میں پایا جانے والا رنگین طوطا) کو دیکھتے ہیں ، اس انتظار میں کہ کب وہ انسانوں کی زبان میں کچھ کہے۔
مشروبات آچکے تھے اور میرا تو خالص اور شفاف ، اس اشتہار والے ووڈکا کی طرح۔
“ آپ کیا کرتے ہیں ؟” میں نے میرے اطراف پھیلی جنگل کی گھنی گھاس کی سی خاموشی کو توڑنے کے لیے پوچھ لیا۔” میرا مطلب کہ آپ یہاں نیویارک میں کیا کرتے ہیں ؟”
اس نے آہستہ سے اور بڑی مشکل سے اپنی آنکھیں ڈورین کے کندھوں سے ہٹا کر کہا ، “ میں ڈسک جاکی (disc jockey ۔ موسیقی چلانے والا) ہوں ،” اس نے کہا۔ “ شائد آپ نے سن رکھا ہو میرے بارے میں ۔ میرا نام لینی شیفرڈ (Lenny Shepherd) ہے۔”
“ میں تمھیں جانتی ہوں ،” ڈورین نے اچانک کہا۔
“ مجھے بڑی خوشی ہوئی ، پیاری ،” اس شخص نے کہا اور زور زور سے ہنسنے لگا ۔ “ یہ بہت آسان ہے۔ میں تو دوزخ کی طرح مشہور ہوں۔”
پھر لینی شیفرڈ ، فرینکی کو کافی دیر تک گھورتا رہا۔
“ بتائیں ، تم کہاں سے ہو؟” فرینکی نے ایک جھٹکے کے ساتھ سیدھا ہو کر بیٹھتے ہوے پوچھا۔ “ تمھارا نام کیا ہے ؟”
“ یہ ڈورین ہے۔” لینی نے اس کی برہنہ بانہوں کو اپنے ہاتھ کے گھیرے میں لیکر اسے قریب کرتے ہوے کہا۔
میں تو اس بات پر حیران ہو رہی تھی کہ کیسے ڈورین نے اس بات پر دھیان نہیں دیا کہ وہ کر کیا رہا تھا۔ وہ ویسی ہی بیٹھی رہی ، جیسے کوئی نیگرو خاتون ( Negress) چہرے کو سفید کر کہ سنہرے بالوں کے ساتھ سفید ڈریس میں ، اپنے مشروب کی بڑی نفاست سے آہستہ آہستہ چسکیاں لے رہی ہو۔
“ میرا نام ایلی ہیگن باٹم( Elly Higginbottom) ہے ،” میں نے بتایا۔ میرا تعلق شکاگو (Chicago) سے ہے۔” اس کے بعد میں خود کو کافی محفوظ محسوس کرنے لگی تھی۔میں نہیں چاہتی تھی اس رات میں نے جو کچھ کہا یا کیا اس کا کوئی تعلق مجھ سے ظاہر ہو __ میرے اصلی نام سے اور یہ کہ میں بوسٹن(Boston) سے آئی تھی۔
“ چلیں ، ایلی ، کیا خیال ہے کچھ رقص کر لیں؟”
اس تصور نے ہی کہ میں اس بونے شخص کے ساتھ ، بکری کے بچے کے چمڑے سے بنے نارنجی رنگ کے اونچے جوتے ، مینگی(mingy) ٹی شرٹ اور لٹکتا ہوا ، نیلا اسپورٹ کوٹ پہنے ، رقص کروں مجھے ہنسنے پر مجبور کر دیا۔اگر کوئی چیز تھی جسے میں حقیر سمجھوں ، وہ تھا کسی آدمی کو نیلے کپڑوں میں دیکھوں۔سیاہ ، سرمئی ، یا خاکی ٹھیک ہو سکتے ہیں لیکن نیلے رنگ کا ڈریس مجھے ہنسنے پر مجبور کردیتا تھا۔
“ نہیں میرا موڈ نہیں ہے،” میں نے سرد مہری سے کہا اور پلٹ کر اپنی کرسی ڈورین اور لینی کے قریب کھینچ لی۔
وہ دونوں تو ایسے دکھائی دے رہے تھے جیسے وہ ایک دوسرے کو عرصہ سے جانتے تھے۔ڈورین چاندی کے لانبے چمچے سے پھلوں کے ٹکڑے اپنے گلاس میں ڈال رہی تھی۔اور لینی ناراضگی سے بڑبڑا رہا تھا جب بھی ڈورین چمچہ اپنے منہ میں ڈالتی تھی ۔ کسی کتے کی طرح چھینتے ، جھپٹتے ہوے ، چمچے سے پھل کا ٹکڑا اپنے منہ میں ڈالنے کی کوشش کر رہی تھی۔ ڈورین ہنستے ہوے پھلوں کے ٹکڑے اپنے منہ میں ڈالتی جا رہی تھی۔
میں نے آخر سوچنا شروع کیا کہ میرا مشروب تو ووڈکا تھا۔اس میں کوئی ذائقہ نہیں تھا ، لیکن میرے معدے میں وہ تلوار کی طرح سیدھا چلا گیا کسی تلوار نگلنے والے کی طرح ، اور مجھے زیادہ طاقتور اور روحانیت سے بھرپور ہونے کا احساس ہونے لگا تھا۔
“ اب مجھے چلنا چاہیے ،” فرینکی نے کھڑے ہوتے ہوے کہا۔
روشنی کم ہونے کی وجہ سے میں اسے صاف طور پر دیکھ نہیں سکی ، البتہ پہلی مرتبہ اس کی اونچی اور احمقانہ آواز سنائی دی۔کسی نے اس پر دھیان نہیں دیا۔
“ اے ، لینی ، تم میرے مقروض ہو۔یاد رکھو ، تمھیں مجھے کچھ واپس دینا ہے ، ہے نا ، لینی؟”
مجھے عجیب لگا کہ فرینکی ، لینی کو ہم سب کے سامنے ، جو پوری طرح سے اجنبی تھے ، یاد دلا رہا تھا کہ اسے فرینکی کو کچھ واپس کرنا تھا ۔ یہاں تک کہ فرینکی کھڑا ہو گیا اور بار بار وہی بات کہے جا رہا تھا۔ آخر لینی نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈال کر سبز رنگ کی نوٹوں کی گڈی نکالی ، ایک نوٹ نکال کر فرینکی کو دے دی ۔ میرے خیال سے وہ دس ڈالرس تھے۔
“ بکواس بند کرو اور دفع ہوجاؤ۔”
ایک منٹ کے لیے مجھے لگا کہ لینی مجھ سے بھی بات کر رہا تھا ، لیکن تب ہی میں نے ڈورین کی آواز سنی ،” میں ایلی کے بغیر نہیں آؤنگی ۔” اس نے میرا نقلی نام لیا اور جس کے لیے مجھے اس کا شکر گذار ہونا چاہیے تھا ۔
“ اوہ ، ایلی آئیگی ، آؤگی نا ، ایلی ؟” لینی نے میری طرف آنکھ جھپکاتے ہوے کہا۔
“ ہاں ، میں ضرور آؤنگی، “ میں نے کہا۔فرینکی مرجھایا ہوا سا رات میں کہیں نکل گیا تو میں نے بھی خود کو ڈورین کے ساتھ جانے پر آمادہ کر لیا ۔ میں جتنا کچھ دیکھ سکتی تھی ،دیکھنا چاہتی تھی۔
میں لوگوں کو نہایت پیچیدہ صورتحال میں پھنسے دیکھنا پسند کرتی تھی۔اگر کہیں سڑک حادثہ ہو ، گلی میں جھگڑا ہو ، یا کوئی نوزائیدہ بچہ کسی لیباریٹری کے مرتبان میں محفوظ رکھا گیا ہو میرے دیکھنے کے لیے ، تو میں اس سختی سے دیکھتی کہ میں پھر اسے کبھی نہ بھولوں۔
میں نے یقیناً بہت کچھ سیکھا جو بصورت د یگر کبھی نہ سیکھ سکتی تھی ، یہاں تک کہ جب لوگوں نے مجھے حیران کیا ، یا مجھے پریشان کیا میری مرضی کے بغیر ، لیکن میں نے ظاہر ایسے کیا کہ میں جانتی تھی کہ حالات اسی طرح ہو سکتے تھے۔