کچھ فیصلے وقت کرتا ہے۔کس کو کب کہاں ہونا ہے۔اور اس کا انحصار آپ کے سچے جذبات و احساسات پہ ہے۔مسعود قمر نے مجھے دوست کم جانا دشمن زیادہ ۔
پھر یہ بھی کہتے " تم میری سبینہ جیسی ہو"
مجھے روائتی نظمیں لکھنے پہ ڈانٹتے بھی تھے۔اور بولڈ لکھنے پہ شاباش بھی دیتے تھے۔کتاب کی رونمائی پہ آچانک انکی آمد نے نہ صرف چونکا دیا بلکہ کچھ گلے شکوے بھی ہوا ہوئے۔
جب انھوں نے کہا
" تم سے نہیں ملوں گا بچوں کو بلاوء ان سے ملنے آیا ہوں۔"
انکا یہ تصویر بنانے کا مقصد بھی صرف بچوں کے ساتھ تھا۔میں بھی گھس گئ۔۔۔۔۔
میں نے انکا شکریہ ادا نہیں کیا
نہ کروں گی
نہ یہ امید رکھیں۔
یہ بتاتی چلوں کسی بھی پودے کی آبیاری کرنا
کانٹ چھانٹ کرنا
اس درخت بنانا
سب ذمہ داریاں قدرت عطا کرتی ہے۔
اپنے حصہ کے پودے لگانا
سچائی سے سینچنا
میں اپنے بڑوں سے سیکھ رہی ہوں۔
مسعود قمر !
مجھے آپ پہ لکھنا تو آپ کے مرنے کے بعد ہے۔شکریہ بھی تبھی تک ادھار
آپکو یاد ہے ۔غلام رسول آصف کی رحلت پہ میرا لکھا مضمون پڑھ کر آپ نے کہا تھا کہ ایسا ہی میرے لئے لکھنا۔
وعدہ رہا
ضرور لکھوں گی ۔۔۔مگر جلد یا بدیر
فیصلہ آپ نے کرنا ہے۔
لکھنے کو بہت کچھ ہے۔مگر
"بارش سے بھرا تھیلہ " ابھی پڑھنی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔