لیکھ ٹنڈن کی زندگی پر ایک نظر
لیجنڈری فلم میکر لیکھ ٹنڈن ایک ہفتہ پہلے 15 اکتوبر کو ممبئی میں انتقال کرگئے اس پوسٹ میں انکی زندگی پر ایک تفصیلی نظر ڈالی جارہی ہے۔
لیکھ ٹنڈن 13 فروری 1929 کو لاہور میں ہوئے تھے انکے والد فقیر چند ریونیو ڈیپارٹمنٹ میں کام کیا کرتے تھے اور ملازمت کے سلسلے میں انکا تبادلہ لاہور سے شیخوپورہ ہوگیا اور وہی لیکھ ٹنڈن نے سکول پڑھنا شروع کیا۔ لیکھ ٹنڈن کے والد اسوقت کے مشہور اداکار پرتھوی راج کپور کے جگری دوست تھے دونوں نے لائلپور موجودہ نام فیصل آباد میں خالصہ سکول سے اٹھویں جماعت تک تعلیم حاصل کی تھی۔ بعد میں پرتھوی راج بمبئی چلے گئے اور وہاں فلموں میں کام کرنے لگے لیکن جب بھی وہ چھٹیوں پر آتے تھے تو اپنے دوست فقیر چند کے گھر چند دن ضرور رکتے۔ لیکھ ٹنڈن پرتھوی راج کو انکل کہہ کر بلایا کرتے تھے لیکھ ٹنڈن کو بمبئی دیکھنے کا بڑا شوق تھا انہی دنوں لیکھ ٹنڈن سکول کی چھٹیاں گزارنے اپنے انکل پرتھوی راج کے پاس بمبئی جا پہنچے، یہ زمانہ 1940 کا تھا اور تب پرتھوی راج کے بڑے بیٹے راج کپور بھی فلموں میں چھوٹے موٹے کرداروں میں نظر آنے لگے تھے۔ ایک دن راج کپور لیکھ ٹنڈن کو اپنے ساتھ فلم سٹوڈیو لیکر چلے گئے اور وہاں فلمی دنیا کے ماحول سے وہ اسقدر متاثر ہوئے کہ انہوں نے اسی وقت من بنا لیا کہ میں بھی ایک دن اس ماحول کا حصہ بنوں گا۔ لیکھ ٹنڈن کے والد چاھتے تھے کہ وہ سول انجینئر بنے لیکن لیکھ ٹنڈن کے پر فلمی دنیا کا بھوت سوار ہوگیا تھا، اور اسی چکر میں انہوں نے جان بوج کر امتحان بھی فیل کیا۔
1947 میں تقسیم کا سانحہ رونما ہوا۔ لیکھ ٹنڈن 11 اگست کو پہلے ہی دہلی پہنچے تھے اور انکا باقی خاندان 25 اگست کو دہلی آپہنچا۔ اگلے مہینے 17 ستمبر کو وہ مستقبل کی فکر میں فرنٹیئر میل سے بمبئی روانہ ہوئے بمبئی میں انہوں نے اپنے انکل پرتھوی راج کے گھر پر سکونت اختیار کرلی۔ لیکھ ٹنڈن چونکہ شکل سے سانولا تھا اور زیادہ خوبصورت بھی نہیں تھا۔ اس لئے وہ کیمرے کے پیچھے رہنا چاھتے تھے جبکہ لٹریچر کی بھی اسے سمجھ نہیں تھی اس لئے پرتھوی راج نے انہیں ڈائریکٹر بننے کے بجائے کیمرہ مین بنا دیا۔ انہی دنوں پرتھوی راج کے بیٹے راج کپور اپنی فلم اگ بنا رہے تھے راج کپور نے انہیں اپنے ساتھ اسسٹنٹ ڈائریکٹر کے طور پر رکھ لیا۔ یہ فلم بن گئی تو اور کوئی کام تھا نہیں، مجبورا انہیں کالج جائن کرنا پڑا۔ ہاسٹل میں انکے پاس پرتھوی راج کے ایک رشتہ دار دوست اندر راج انند ملنے آیا کرتے تھے جنہوں نے بہت سارا لٹریچر پڑھ رکھا تھا وہ ہر بار انہیں اٹھارہ کتابوں کی لسٹ دیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ جب اگلی بار آونگا تو پوچھونگا کہ کوئی کتاب پڑھنے سے رہ تو نہیں گئی ہے! اور یوں وہ لٹریچر میں بھی دلچسپی لینے لگے۔ 1948 میں بنی فلم اگ نے انکے اندر کی اگ اور زیادہ بھڑکائی ہوئی تھی اس لئے انہوں نے یہ طے کرلیا تھا کہ اب میں نہ تو کیمرے پر کام کرونگا اور نہ ہی پرتھوی تھیٹر جائن کرونگا جس میں کام کرنے کیلئے انہیں پرتھوی راج نے کہا تھا۔ فلمی دنیا سے جڑے رہنے کیلئے انہوں نے رنجیت فلم لیبارٹری جائن کرلی جب پرتھوی راج کپور کے بیٹے اور انکے دوست راج کپور کو معلوم ہوا تو انہوں نے اسے ڈانٹا کہ تمہارے کپڑے خراب ہوجائینگے تم لیبارٹری میں کام مت کیا کرو، تو اگے سے لیکھ ٹنڈن بولے تو پھر تم مجھے کام دے دو۔ راج کپور نے کہا ابھی میری فلم برسات شروع ہونے میں کافی وقت باقی ہے۔ لیکھ ٹنڈن نے ضد کرتے ہوئے کہا تو پھر اپ مجھے اپنے گرو کدار شرما کے پاس لے چلو، مجبورا راج کپور انہیں اپنے گرو کے پاس لے گئے لیکن انہوں نے انکار کیا کہ میرے پاس جگہ نہیں ہے۔ وہاں سے راج کپور انہیں فلمساز مہیش کول کے پاس لیکر گئے لیکن انکے پاس بھی جگہ نہیں تھی۔ مجبوراً راج کپور انہیں واپس رنجیت سٹوڈیو چھوڑنے اگئے۔ اتفاق سے ایک ہفتہ بعد وہاں کدار شرما اپنے کسی کام سے آئے اور تب لیکھ ٹنڈن اپنی کرسی پر بیٹھ کر ایک اردو رسالہ پڑھ رہے تھے کدار شرما انکے پاس چل کر ائے اور ان سے پوچھا کیا تم اردو پڑھ سکتے ہو؟ لیکھ ٹنڈن نے جواب دیا جی پڑھ سکتا ہوں۔ حکم کیجیئے۔
کدار شرما بولے تو پھر تم کل سے میرے ساتھ کام کروگے، لیکھ ٹنڈن جو تھوڑے ناراض تھے کہ چند دن پہلے تو انکار کیا تھا کہ میرے پاس جگہ نہیں اور اب کام دے رہے ہو اس لئے انہوں نے انکار کیا۔ پاس کھڑے راج کپور نے انکار سن کر لیکھ ٹنڈن کو ڈانٹا کہ تمہیں عقل نہیں کہ تم کتنے بڑے آدمی کو انکار کررہے ہو۔ راج کپور سے ڈانٹ پڑنے پر لیکھ ٹنڈن نے حامی بھری اور اگلے دن سے وہ کدار شرما کے ساتھ بطور چیف اسسٹنٹ 80 روپے تنخواہ پر کام کرنے لگے۔
کدار شرما کے ساتھ لیکھ ٹنڈن نے فلم نیل کمل، نیکی بدی، باورے نین، وغیرہ میں کیمرے کے پیچھے کام کیا۔ یوں تو لیکھ ٹنڈن میں خود اعتمادی بہت تھی لیکن کدار شرما کی قابلیت کے سامنے وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے تھے کہ اگر میں مستقل یہی رہا تو کبھی فلم ڈائریکٹر نہیں بن سکوں گا۔ کدار شرما لیکھ ٹنڈن کا بیٹے کیطرح خیال رکھا کرتے تھے لیکن کدار شرما کے ساتھ پانچ سال گزارنے کے بعد مجبوراً لیکھ ٹنڈن نے ان سے رخصتی طلب کی، کدار شرما نے ان سے پوچھا کیا میری طرف سے کوئی کمی ہے؟
لیکھ ٹنڈن نے کہا ایسی کوئی بات نہیں ہے لیکن میں یہاں کے ماحول میں احساس کمتری کا شکار ہوں یہان رہ کر میرا نام نہیں بن رہا، اگر میں مستقل اپکے ساتھ کام کرتا رہا تو میں کبھی بھی خود فلم ڈائریکٹر نہیں بن سکوں گا۔ کدار شرما سمجھ دار انسان تھے انہوں نے لیکھ ٹنڈن کو اپنے خوابوں کو پورا کرنے کیلئے کہا اور انہیں ایک بونس تنخواہ اور ساتھ ہی اپنی نظموں کی ایک کتاب دیکر اسے رخصت کیا۔
کدار شرما کے بعد لیکھ ٹنڈن راج کپور کے پاس اگئے اور انکی ار کے فلم پروڈکشن میں کیمرے کے پیچھے کام سرانجام دینے لگے۔ ان دنوں انکی شادی بھی ہوچکی تھی خرچے بھی بڑھ گئے تھے لیکھ ٹنڈن نے راج کپور سے تنخواہ بڑھانے کا مطالبہ کیا کہ میری تنخواہ بڑھا دو ورنہ میں نوکری چھوڑ دوں گا۔ راج کپور نے انہیں کہا میں تمہاری دھمکی سے نہیں ڈرنے والا تم جا سکتے ہو، لیکھ ٹنڈن وہاں سے روٹ کر چلے گئے۔ انہی دنوں اداکارہ گیتا بالی کے والد کرتار سنگھ جو خود بڑے فلسفی تھی ایک فلم بہو بیٹی کے نام سے بنا رہے تھے جسے ان کے دوست ایس ایل دھیر ڈائریکٹ کررہے تھے لیکھ ٹنڈن کو یوگیتا بالی کے والد سے ملتے ہی اس فلم میں کام کرنے کا موقع مل گیا۔ لیکھ ٹنڈن اس فلم کے ڈائریکٹر ایس ایل دھیر سے بہت متاثر ہوئے انکی صحبت میں انہوں نے معیاری لٹریچر اور مارکسسزم کے بارے میں جانا۔ اس فلم کے رائٹر راجندر بیدی تھے فلم کے سیٹ پر فرصت میں گیتا بالی نے لیکھ ٹنڈن کی ڈیوٹی لگائی تھی کہ وہ روز اسے ایک کہانی سنائے اور بدلے میں ایک روپیہ وصول کرے۔ پیسوں کے لالچ میں اور گیتا بالی کو متاثر کرنے کیلئے لیکھ ٹنڈن نے عالمی ادب کا مطالعہ شروع کیا انہوں نے او ہنری موپاساں وغیرہ کو پڑھا۔ گیتا بالی کا جنم سرگودھا میں ہوا تھا بعد میں انہوں نے شمی کپور سے 1955 میں شادی کرلی۔
فلم بہو بیٹی کا بجٹ بہت کم تھا۔ لیکھ ٹنڈن کو اس فلم کیلئے پانچ سو روپے معاوضہ ملنا تھا۔ لیکن انہیں وہ بھی نہیں مل سکا، کسی بات پر فلم ایڈیٹر پروڈیوسر سے لڑا لیکن جاتے جاتے اس نے فلم کے نیگٹیو کے کئی ٹکرے کردیئے جسے بعد میں جوڑ کر فلم ریلیز کردی گئی۔ لیکھ ٹنڈن فلم پروڈیوسر سے ملنے گئے جو کہ گجراتی تھا انہوں نے پیسے دینے سے انکار کیا لیکھ ٹنڈن نے جب سخت احتجاج کیا تو انہوں نے سو روپے تھما کر انہیں چلتا کردیا۔ لیکھ ٹنڈن نے بے روزگاری سے تنگ اکر واپس ار کے سٹوڈیو کا رخ کیا وہاں راج کپور نے انہیں واپس رکھ تو لیا پر انہیں سختی سے کہا اب واپس جانے کا نام لیا تو اچھا نہیں ہوگا۔ اس دوران لیکھ ٹنڈن کو باپ نے واپس دہلی آنے کا کہا لیکن لیکھ ٹنڈن نے تھوڑا اور وقت مانگا باپ کو بیٹے پر ترس آیا۔ فقیر چند نے بیٹے کو پچیس ہزار روپے بھیجوائے کہ تم اگر ضرور فلم ڈائریکٹر بننا چاھتے ہو تو ان پیسوں سے فلم بنانے کی کوشش کرو۔ لیکھ ٹنڈن پچیس ہزار روپے پاکر بہت خوش تھا یہ پیسے بہت کم تھے لیکن ان پیسوں سے لیکھ ٹنڈن کا حوصلہ بلند ہوگیا تھا۔ انہی دنوں گرو دت ایک فلم بنانا چاہ رہے تھے لیکن فلم کی کہانی انہیں پسند نہیں آئی تھی کیونکہ گرو دت نے ایک ہی ریل شوٹ کیا تھا کہ سنسر بورڈ کو معلوم ہوا اور انہوں نے اس فلم کو بنانے پر پاپندی لگا دی۔ کہانی ششی بھوشن کے ناول سے ماخوز تھی لیکھ ٹنڈن کو جب معلوم ہوا تو انہوں نے پریشان حال ششی بھوشن کو پانچ ہزار دیئے اور خود فلم رائٹر ابرار علوی کے پاس چلے گئے ابرار علوی گرودت کے جگری دوست تھے اور وہ گرو دت کی مخالفت نہیں مولنا چاھتے تھے ابرار علوی نے بھی کہانی کو بے کار کہہ کر رد کردیا لیکھ ٹنڈن نے انہیں کافی سمجھانے کی کوشش کی۔ بہرحال آخر کار کافی رد وبدل کرکے انہوں نے اس ناول سے ایک اور کہانی بنا ڈالی اس درمیان گرودت کو علم ہوا تو انہوں نے ابرار علوی کو نوکری سے نکال دیا لیکھ ٹنڈن نے ابرار علوی کو پانچ ہزار تھما دیئے اور انہیں پندرہ دن کے اندر سکرین پلے لکھنے کا کہا۔
گرو دت کو جب علم ہوا کہ ابرار علوی باز نہیں آراہا تو انہوں نے اسے واپس بلا لیا اور انہیں اپنی فلم صاحب بی بی اور غلام ڈائریکٹ کرنے کا کہا۔ یوں لیکھ ٹنڈن پھر سے پریشانی میں مبتلا ہوگئے انہوں نے ابرار علوی سے احتجاج کیا کہ تم مجھے اکیلا نہیں چھوڑ سکتے بہرحال ابرار علوی نے فرصت نکال کر سکرین پلے مکمل کرکے دیا ۔ انہی دنوں انیل کپور کے والد فلم پروڈیوسر سریندر کپور جنکا جنم پشاور میں ہوا تھا وہ انہیں ایف سی مہرا کے پاس لیکر گئے انہوں نے اس فلم پر پیسہ خرچ کرنے کی حامی بھر لی اور یوں لیکھ ٹنڈن فلم ڈائریکٹر بن گئے انہوں نے اپنی ڈائریکشن میں شمی کپور اور کلپنا کو لیکر 1962 میں اپنی پہلی کامیاب فلم پروفیسر بنا ڈالی۔ اس فلم سے شمی کپور کو بہت زیادہ شہرت ملی اور لوگ انہیں بالی ووڈ کا پروفیسر کہنے لگے۔ پروفیسر کی کامیابی کے بعد ایف سی مہرا کی پروڈکشن میں لیکھ ٹنڈن نے 1966 میں سنیل دت اور وجنتی مالا کو لیکر فلم امر پالی بنائی یہ فلم اسکر کیلئے بھی نامزد ہوئی۔ 1968 میں لیکھ ٹنڈن نے راجندر کمار اور سائرہ بانو کو لیکر جھک گیا آسمان اور شمی کپور اور وجنتی مالا کو لیکر 1969 میں ایف سی مہرا کی پروڈکشن اور ابرار علوی کی لکھی کہانی پر فلم پرنس بنائی۔ ان چار فلموں کی کامیابی سے انکا نام بڑے فلم ڈائریکٹروں میں شمار ہونے لگا کیونکہ ان فلموں نے انہیں ایک کامیاب فلم ڈائریکٹر بنا دیا تھا۔ اسکے بعد انہوں نے ششی کپور کو لیکر فلم جہاں پیار ملے بنائی یہ فلم ششی کپور کے کپور کے والد اور لیکھ ٹنڈن کے انکل پرتھوی راج کے انتقال کیوجہ سے آخر میں ادھوری رہ گئی تھی جسکی وجہ سے لیکھ ٹنڈن پییسے پیسے کے محتاج ہوگئے اس دوران انہیں نوکری کی ضرورت پیش آئی لیکن اتنا نام بننے کے بعد انہیں نوکری مانگنے پر شرم آتی تھی دہلی سے انہیں والد نے واپس آنے کا کہا لیکن لیکھ ٹنڈن نے ان سے تھوڑی مہلت مانگی والد کو ایک بار پھر بیٹے پر ترس ایا اور انہوں نے دہلی سے گیارہ ہزار روپے بھیجوائے، اور ان پیسوں سے انہوں نے 1975 میں ایک ناول پر اندولن فلم بنائی اس فلم سے انکا حوصلہ بحال ہوا۔ اس کے بعد انہوں نے 1977 میں راج شری کو لیکر فلم "دلہن وہی جو پیا من بھائے" بنائی یہ فلم بہت چلی اس فلم کو دیکھنے جے ار ٹاٹا بھی آئے تھے۔ اس کے بعد لیکھ ٹنڈن نے نوین نسچل اور شبانہ اعظمی کو لیکر 1980 میں فلم ایک بار کہو، 1981 میں جتندرا کو لیکر فلم شاردھا، 1981 میں ونود کھنہ اور ٹینا امبانی کو لیکر فلم خدا قسم، بنائی۔ اس کے بعد ایک دن لیکھ ٹنڈن ایک مراٹھی پلے دیکھنے گئے وہ انہیں اسقدر پسند ایا کہ انہوں نے اس مراٹھی پلے رائٹر سے ہندی ترجمہ کروا کر فلم دوسری دلہن بنائی یہ فلم بہت کامیاب رہی اس فلم میں شرمیلا ٹیگور کے کام کو بہت سراہا گیا۔ اسکے بعد انہوں نے 1983 میں راجیش کھنہ ریکھا اور راج ببر کو لیکر فلم اگر تم نہ ہوتے بنائی یہ فلم بھی بہت کامیاب رہی۔ اسکے بعد انہوں نے 1985 میں فلم اتاریاں بنائی۔ اور اخری فلم بطور ڈائریکٹر 1997 میں دو راہیں بنائی۔ 80 دہائی کے اخر میں ماں کی بیماری کیوجہ سے لیکھ ٹنڈن نے دہلی واپسی اگئے اور وہی رہنے لگے تخلیقی بے چھینی سے پریشان لیکھ ٹنڈن کی ایک دن کرشن چندر کے بہنوئی ریوتی سرن شرما سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے لیکھ ٹنڈن کو ایک کہانی دی چونکہ دہلی میں فلم کے بجائے ٹی وی کا ماحول تھا اس لئے لیکھ ٹنڈن نے ریوتی سرن شرما کی کہانی کو لیکر نیشنل ٹی وی دور درشن کیلئے ڈرامہ پھر وہی تلاش 1989 میں بنایا یہ ڈرامہ بہت پسند کیا گیا اسکے بعد انہوں نے ڈرامہ سیریل دل دریا 1988 دوسرا کیول 1989 فرمان 1994 لڑائی 1995 خوشی 1995 کہیں دیر نہ ہوجائے 1995 جینا نہیں بن تیرے 1995 کرکشیترا 1996 یارانہ 1996 ادھیکار 1997 اور شمع جلتی رہے 1997 کہاں سے کہاں تک 1998ملن 2000 اور آخری ڈرامہ سیریل ایسا دیس ہے میرا 2006 میں بنایا۔
شاہ رخ خاں کو سب سے پہلے ڈراموں میں اداکاری کرنے کا موقع بھی لیکھ ٹنڈن نے ہی دیا شاہ رخ خان فلمی دنیا میں انے سے پہلے ٹی وی کی دنیا میں گزر بسر کررہے تھے۔ شاہ رخ خان سے انکی پہلی ملاقات بھی بڑی دلچسپ ہے شاہ رخ خان ایک ٹی وی اداکارہ کی بیٹی جو اسکی گرل فرینڈ تھی اسے ماں کے پاس چھوڑنے آئے تھے لیکھ ٹنڈن نے اسکی گرل فرینڈ سے کہا اس لڑکے کو بلاؤ جو تمہیں چھوڑنے آیا ہے۔ اس نے شاہ رخ خان کو آواز دیکر بلایا تو لیکھ ٹنڈن نے انہیں کہا کیا تم ٹی وی ڈرامے میں کام کروگے شاہ رخ نے کہا جی ضرور کرونگا۔ لیکھ ٹنڈن نے انہیں کہا میں تمہیں اس شرط پر کام دونگا اگر تم اپنی بڑی زلفیں کم کردو شاہ رخ کو کام ملنے پر یقین نہیں ایا اس لئے اس نے کہا اگر میں بال بناؤں اور پھر بھی اپ نے کام نہیں دیا تو؟ لیکھ ٹنڈن نے کہا میں کام دونگا بس تم بال بنا کر آجاؤ۔ شاہ رخ خان جب جلدی سے بال بناکر آگئے تو لیکھ ٹنڈن نے کردار کے مطابق انہیں مزید بال کم کرنے کا کہا۔ شاہ رخ نے مزید بال کم کردیئے تو تب لیکھ ٹنڈن نے انہیں اپنے ڈرامہ سیریل دل دریا 1988 میں کاسٹ کرلیا۔ لیکھ ٹنڈن شاہ رخ کی اداکاری سے بہت متاثر ہوئے انہوں نے اپنے اگلے ڈرامہ سیریل دوسرا کیول 1989 میں انہیں کاسٹ کیا۔ شاہ رخ ڈراموں میں آنے سے پہلے ایک تھیٹر ایکٹر تھے اور ڈراموں کے بعد وہ 1991 میں فلموں میں کام کرنے لگے۔ شاہ رخ کو اپنے محسن لیکھ ٹنڈن سے بڑا لگاؤ تھا۔ اسی لئے بعد میں شاہ رخ نے لیکھ ٹنڈن کو اداکاری کرنے پر مجبور کیا۔ لیکھ ٹنڈن نے 2003 میں اداکاری کا آغاز سنجے دت کی مشہور فلم منا بھائی ایم بی بی ایس سے کیا جس میں انہوں نے مقصود بھائی صفائی کرنے والے بزرگ کا کردار ادا کیا تھا۔ لیکھ ٹنڈن منا بھائی سیریز کی دوسری فلم لگے رہو منا بھائی 2006 میں بھی نظر آئے اس فلم میں انہوں نے لائبریرین کا کردار ادا کیا تھا۔ 2006 میں لیکھ ٹنڈن فلم رنگ دے بسنتی میں عامر خان کے دادا کے کرداد میں نظر آئے۔
شاہ رخ خان نے بھی لیکھ ٹنڈن کو اپنے تین فلموں میں لیا۔ 2004 میں شاہ رخ خان کی فلم سوادیس میں لیکھ ٹنڈن گاؤں والوں کے بابا جی کا کردار ادا کیا تھا جو گاؤں میں بجلی لانے کیلئے آخری سانس تک جدوجہد کرتا ہے۔ 2005 میں وہ شاہ رخ خان کی فلم پہیلی میں بزرگ دانا کے کردار میں نظر آئے۔ اور 2014 میں وہ شاہ رخ خان کی فلم چنائے ایکسپریس میں شاہ رخ کے دادا کے کردار میں نظر آئے اس فلم میں شاہ رخ کی دادی کا کردار ماضی کی لیجنڈری اداکارہ کامنی کوشل نے ادا کیا تھا۔
لیکھ ٹنڈن 2008 میں اجے دیوگن کی فلم ہلہ بول میں لیکھ ٹنڈن کے نام کے کردار ہی میں اداکاری کرتے نظر آئے۔ 2014 میں لیکھ ٹنڈن فلم چار فٹیا چوکرے میں کیلاش بابو کے کردار میں نظر آئے۔ اور 2015 میں لیکھ ٹنڈن ٹی وی سیریل سمیت سنبھال لیگا میں ہیپی تاؤ جی کے کردار میں نظر آئے۔ لیکھ ٹنڈن آخری بار 2017 کی شارٹ فلم شونیاتا میں جیکی شیرف کے والد کے کردار میں نظر آئے تھے۔
آخری دنوں میں لیکھ ٹنڈن کتابوں اور پوتوں کے ساتھ مشغول رہتے تھے۔ انہیں دل کا عارضہ لاحق ہوا تھا اور پندرہ اکتوبر کی شام انہیں دل کا شدید دورہ پڑا جسکی وجہ سے وہ جانبر نہیں ہوسکے لیکھ ٹنڈن اپنی زندگی پر ناز کرتے تھے وہ کہتے تھے اگر انہیں دوسرا جنم ملا تو وہ لیکھ ٹنڈن بن کر ہی جنم لینا پسند کرینگے لیکھ ٹنڈن کو اپنی بیوی سے بہت محبت تھی جو کئی سال پہلے فوت ہوئی تھی وہ انہیں بہت یاد کیا کرتے تھے جس نے لیکھ ٹنڈن کو ہر مشکل گھڑی میں حوصلہ دیا۔ لیکھ ٹنڈن کے ایک بھائی یوگراج ٹنڈن بھی پلے رائٹر رہ چکے ہیں۔ لیکھ ٹنڈن نے دس فلمیں بھی لکھیں۔ سکرپٹ لکھنا انہوں نے اپنے دوست ابرار علوی سے سیکھا تھا۔ اور خود لیکھ ٹنڈن نے پندرہ فلمیں ڈائریکٹ کیں۔ لیکھ ٹنڈن اداکاری میں بھی بے مثال رہے اور فلم ڈائریکشن میں تو لاجواب رہے۔ انہوں نے اپنی ہر فلم اور ڈرامے کا پلاٹ بہت دلچسپ رکھا ہے جس پر بات کرنے کیلئے ایک کتاب لکھی جا سکتی ہے۔ لیکھ ٹنڈن نے ہندی میں اپنی خودنوشت بھی لکھی ہے۔ لیکھ ٹنڈن ایک بھرپور فلمی زندگی گزار کر چلے گئے لیکن اپنے بہترین فلمی کیریئر میں انہوں سینما پریمیوں کو جو فلمیں دیں انکی بدولت فلم جگت کے لوگ انہیں ہمیشہ یاد رکھینگیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔