دانیال بلور کا بلند حوصلہ
پہلا منظر۔۔۔
ھارون بلور جلسہ گاہ پہنچتے ہیں شاندار اتش بازی شروع ہوجاتی ہے ھارون بلور نے سرخ ٹوپی پہنی ہے وہ کارکنوں کے پرجوش استقبالیہ نعروں پر مسکرانے لگتے ہیں۔ ایک کارکن کا نعرہ بلند ہوتا ہے اور وہ ھارون بلور کے شہید والد بشیر بلور کا نام لیتا ہے۔
باقی کارکن کہتے ہیں… زندہ باد…
پھر وہی پرجوش کارکن نعرہ لگاتا ہے۔ ھارون بلور۔ تو باقی کارکن کہتے ہیں…
زندہ باد …
لیکن اتش بازی کے پٹاخوں کے پھٹنے کی آواز سے لاپرواہ سبھی اس بات سے بے بھی بے خبر ہوتے ہیں کہ اگلے لمحے ھارون بلور بھی اپنے باپ کیطرح شہید ہوجائینگے۔
دوسرا منظر۔۔۔
ھارون بلور کو اسٹیج کیطرف لایا جارہا ہے جیسے ہی وہ اسٹیج پر پہنچتے ہیں تو ایک زور دار دھماکہ ہوجاتا ہے۔
اپنے اپ سے لاپرواہ ایک زخمی کارکن کی آواز اس شور میں سنائی دیتی ہے جو کہہ رہا ہوتا ہے۔
ھارون صیب ھارون صیب۔۔۔
تیسرا منظر۔۔۔
دھماکے کے بعد سوشل میڈیا پر پہلے ھارون بلور کے زخمی ہونے کی خبر چلتی ہے اور کچھ دیر بعد انکی موت کی خبر بھی چل جاتی ہے۔ اور اس درمیان ایک اور بری خبر سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگتی ہے کہ ھارون بلور کے ساتھ انکے بیٹے دانیال بلور بھی شہید ہوگئے ہیں۔
لیکن پھر ایک تصویر سوشل میڈیا پر سامنے آجاتی ہے جس میں دانیال بلور اپنے شہید والد کی ایمبولینس کے اوپر بیٹھا ہوا نظر آتا ہے۔ اور یوں دگنے اداس لوگوں کی اداسی کچھ کم ہوجاتی ہے کہ چلو شکر ہے بیٹا تو سلامت ہے۔
آخری منظر۔۔۔
ایمبولنس جب گھر پہنچتی ہے تو کارکن اور رشتہ دار اور پڑوسی ماتم کرنے لگتے ہیں اور اس دوران شہید ھارون بلور کا نوجوان بیٹا دانیال بلور سب کو بیٹھنے کا کہتا ہے۔ جب سب بیٹھ جاتے ہیں تو وہ پشتو زبان میں کارکنوں سے مخاطب ہوتا ہے۔ چونکہ بلور خاندان گھر میں ہندکو بولتے ہیں اس لیے دانیال بلور غیر سلیس پشتو میں کارکنوں سے کہتا ہے۔
جیسا کہ اپ سب جانتے ہیں کہ میں ابو کے ساتھ ہر جگہ جوڑا رہتا ہوں لیکن اج میں بہت تھک گیا تھا اس لیے گھر اگیا جو کہ میری بدقسمتی تھی لیکن اپ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ میری خوش قسمتی تھی۔ اس حادثے سے بیس منٹ پہلے ابو نے مجھے فون کیا اور مجھ سے پوچھا کہ اپ کہا ہو؟ آج مہم بہت اچھی چل رہی ہے آپ آجاؤ۔ میں گھر سے نکلا اور منڈی تک پہنچا ہی تھا کہ پولیس پروٹوکول نے مجھے بتایا کہ اسپتال چلو ھارون بلور کو اسپتال لیجایا گیا ہے۔
جب میں اسپتال گیا تو اپ لوگوں نے مجھے وہاں سے تین بار گھر واپس بھیجا۔ لیکن بیٹے ہونے کے ناطے چونکہ میرا ان سے ایک خونی رشتہ تھا وہ بہت عظیم انسان تھے اور آج میرے ورکروں میرے دوستوں اور میرے بڑوں نے جب حوصلے ہارے تو میرے جیسے شخص کیلئے حوصلہ برقرار رکھنا بھی بہت مشکل تھا اس لیے میں لیڈی ریڈنگ اسپتال پیدل گیا اور وہ بھی بغیر چپل کے تاکہ میں ابو کے ایمبولینس میں آؤں میں وہاں گیا اور ابو کو لے آیا۔ راستے میں، میں سوچتا رہا کہ اس میں اللہ کی رضا ہوگی اور اللہ کے کاموں کے اگے ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ میرے دوستوں اسپتال میں اپ لوگوں نے بہت انتشار کیا آپ حوصلے سے کام لیں ہم باچا خان اور ولی خان کے پیروکار ہیں میں آپ سے درخواست کرتا ہوں انتشار سے کام نہ لیں آپ لوگوں نے اسپتال میں فوج کے خلاف نعرے بھی لگائے۔ اللہ بڑی زات ہے عزت زلت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ مجھے میرے باپ دادا نے ایک ہی حکم دیا ہے کہ ہم رہے یا نہ رہے لیکن تم سرخ جھنڈے اور سرخ ٹوپی کے ساتھ کھڑے رہوگے۔ یہاں کسی نے کہا کہ بلور خاندان تو ختم ہوگیا ہے اگر یہ مجھے بھی شہید کرسکتے ہیں تو کرے لیکن میں انہیں بتاؤں کہ اپ سب بھی بشیر بلور اور ھارون بلور ہیں اور یہ میرا شہر ہے اور میں دانیال بلور اپنے شہر میں قبر جانے تک آپ لوگوں کے درمیان کھڑا رہونگا۔
یہ سن کر ایک نعرہ بلند ہوتا ہے شہید ھارون بلور… اگے سے مشترکہ آواز میں کارکنوں سے جواب ملتا ہے۔ زندہ باد۔۔
اور یوں اس مختصر ساعت میں ھارون بلور کے نام کے ساتھ بھی انکے والد بشیر بلور کیطرح شہید کا نام ہمیشہ کیلئے جوڑ جاتا ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔