عمران خان سے میری پہلی ملاقات اور ان سے ماضی میں عشق کی مختصر سی داستان۔۔
اپریل 2011 کی بات ہے عمران خان نے پشاور حیات اباد میں نیٹو سپلائی بند کرنے کیلئے کئی دنوں تک دھرنا دیا تھا۔ جب پہلے دن عمران خان آرہے تھے تو میں صبح سویرے پہنچ گیا اور دوپہر تک دھوپ میں خوار ہوتا رہا ان دنوں میں عمران خان کا دیوانہ ہوا کرتا تھا۔ اور مجھے ان سے انتہا کا عشق تھا۔ بہرحال دوپہر بھوک سے جب برا حال ہوا تو تین چار کلو میٹر دور گھر جانا پڑا اور جب گھر پہنچ کر کھانا کھا رہا تھا تو سامنے ٹی وی بھی چل رہا تھا اور تب اچانک بریکنگ نیوز چل پڑی کے عمران خان کا قافلہ پشاور پہنچ گیا ہے۔ میں نے کھانا ادھورا چھوڑ دیا اور فورا اٹھا اور بجلی کیطرح بھاگتے ہوئے واپس باغ ناران چوک پہنچا وہاں پہنچ کر میں نے سوچا یہاں بھیڑ بہت ہے مجھے اگے جاکر استقبال کرنا چاہیئے اور میں نے وہی کیا میں تاتارا پارک چوک پہنچا اور جب عمران خان کی گاڑی نظر ائی تو چند اور کارکن بھی تھے انہوں نے عمران خان زندہ باد کے نعرے لگانے شروع کردیئے ہم چند کارکنوں نے گاڑی کو اپنے حصار میں لیا تو خان صاحب نے گاڑی کا شیشہ نیچھے اتار لیا اور سب سے ہاتھ ملانے لگے اسوقت میرے ہاتھ میں پاکستان کے جھنڈے والا چھوٹا سا بیج تھا جو میں نے کئی مہینوں سے سنبھال کر رکھا تھا کہ یہ میں جب عمران خان سے ملونگا تو میں انہیں گفٹ کرونگا اور پھر میں نے وہی کیا خان صاحب نے مجھ سے ہاتھ ملایا تو میں نے انکے ہاتھ میں پاکستان کے جھنڈے والا بیج رکھ دیا وہ کچھ دیر تک مسکراتے ہوئے اس پیج کو دیکھنے لگے اور پھر انہوں نے مسکرا کر میرا شکریہ ادا کیا ۔ اور تب میں نے انہیں کہا کہ جب اپ وزیر اعظم بنینگے تو اس دن یہ بیج ضرور لگائیں۔ خان صاحب مسکرا دیئے اور کارکنوں کی فوج جو پہنچ چکی تھی اس فوج میں، میں پیچھے رہ گیا۔ پھر تین دنوں تک خان صاحب کو قریب سے دیکھا وہ اسٹیج سے اترتے تو ہم ساتھ ہوتے ان سے ہاتھ ملاتے بات کرتے زیادہ کارکن تنگ کرتے تو پیار سے ایک ادھے کارکن کو ڈانٹتے کہ میں تھپڑ مار دونگا۔ ایک منچلے کارکن نے تو تب کہہ دیا کہ مارو خان صاحب۔ تب خان صاحب نے پیار سے انہیں گال پر چماٹ ماری۔ دن بھر تقریریں چلتی ترانے بجتے ہم جھومتے خان ہمیں کہتے ایک دن اپ لوگ فخر کرینگے کیونکہ کل اپ تاریخ کا حصہ ہونگے اور تب اپ لوگ کہہ سکینگے کہ ہم اس وقت اس ظلم کے خلاف باہر نکلے تھے۔ شام کے وقت خان صاحب ٹاک شوز کیلئے میڈیا کے نمائندوں اور اینکروں کو وقت دیتے اور ہم سب گول دائرے میں بیٹھ کر انہیں انہماک سے سنتے۔ تب میں نے خان صاحب سے اٹو گراف بھی لیا تھا اور ایک دن تو میں نے اسٹیج کے نیچھے سے فلائنگ کس خان صاحب کی طرف اچھالی تھی اور تب وہ یہ دیکھ کر مسکرائے بھی تھے۔ خان صاحب دن بھر گرمی میں کینٹینر کے اوپر بیٹھ کر تقریر کرتے اور رات کو کنٹینر پر ہی سوجاتے تھے اور جب پہلے دن کنٹینر پر ٹینٹ لگا دیا گیا تو خان غصہ ہوئے کہ نیچھے اتار دو کارکن دھوپ میں ہونگے اور میں سائے میں۔ اور جب اسی دن شام کو سامنے کوٹی کے مالک خان صاحب کو رات وہاں رکنے کی دعوت دینے کیلئے ائے تو خان صاحب نے معذرت کرلی اور کہا کہ میں کنٹینر پر سوؤنگا البتہ منہ ہاتھ دھونے ضرور آونگا۔ اور پھر خان صاحب باتھ روم اٹینڈ کرنے یا منہ ہاتھ دھونے اس صاحب کے گھر چلے جاتے تھے۔ اور رات کنٹینر پر سوجاتے تھے۔ بہرحال تین چار یادگار دن خان صاحب کے ساتھ گزارے… اسکے بعد 2013 میں خان صاحب نے حکومت میں انے کے بعد کئی مہینوں کیلئے نیٹو سپلائی بند کردی تھی اور تب خان صاحب رنگ روڈ پر ایک جلسہ کرنے کیلئے ائے تو انکے ساتھ حمید گل مرحوم بھی تھے۔ تب میں نے اسٹیج تک جانے کی بہت کوشش کی لیکن ناکام رہا اور اسٹیج کے نیچھے سے ہی خان کا دیدار کرتا رہا۔ اور شام جلسہ ختم ہونے کے بعد وہ واپس چلے گئے۔ پھر 2014 میں دھاندلی کے خلاف دھرنے میں اسلام اباد پہنچا تو خان صاحب کا ایک بار پھر دیدار ہوا۔ اور ان دنوں میں فیس بک پر کئی بڑے پی ٹی ائی پیجز کو چلایا کرتا تھا دن رات سرگرم عمل رہتا تھا۔
بہرحال قصہ مختصر میں ان دنوں اصولی انقلابی بن گیا تھا شاید کچھ لٹریچر کا بھی اثر تھا۔ بہرحال تضاد دیکھتا تو دور ہونے لگا اور پھر ایک دن غصے میں اکر میں نے خان صاحب سے لیا گیا اٹو گراف بھی جلا دیا۔
تب میں نے ٹوٹے دل کے ساتھ ادب سے ناطہ جوڑ لیا اور غیر سیاسی زندگی گزارنے لگ گیا لیکن کبھی کھبار خان صاحب پر تنقید کردیا کرتا تھا۔ مجھے یہ تو معلوم تھا کہ خان تو ضرور ایک دن وزیر اعظم بنینگے لیکن میں ایک بات اکثر سوچتا تھا اور اب جب خان صاحب وزیر اعظم بن گیا ہے تو میں نجانے کیوں وہی بات اخری بار سوچ رہا ہوں کہ ایا خان صاحب نے وہ بیج سنبھال کر رکھا ہوگا بھی یا نہیں۔ جو میں نے انہیں دیا تھا کہ جس دن وزیر اعظم بن جاؤ تو لگانا نہ بھولنا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔