میں انیتا ڈیسائی کے ناول پر بنی فلم ’’ان کسٹڈی‘‘ میں ششی کپور نے ایک گم نام شاعر نور شاہ جہان پوری کا کردار ادا کیا تھا۔ اس فلم میں اوم پوری ان کے مداح ہوتے ہیں اور وہ ہر حال میں ان کا کلام رِکارڈ کر کے، رہتی دنیا کے لیے محفوظ کرنا چاہتے ہیں۔ اس فلم کے ایک منظر میں ششی کپور رِکارڈنگ سے پہلے اوم پوری سے کہتے ہیں، کہ ’’مجھے اچھی، نفیس گوشت کی بریانی چاہیے؛ موتی مسجد کے پچھواڑے میں ایک پشاوری رہتا ہے، جو میری پسند کے مطابق بریانی بناتا ہے۔ عمدہ کشمیری زعفران بڑیا دہرادون کے باسمتی چاول؛ میرا اچھا پڑوسی ہے، اگر تم منگوانے کا انتظام کر دو، تو وہ بھجوا دے گا‘‘۔
ششی کپور کو اپنے آبائی شہر پشاور سے بہت پیار تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنی اس فلم میں خاص پشاور کا ذکر کیا۔ یوں تو ششی کپور کی پیدائش کلکتہ میں ہوئی تھی؛ کیوں کہ اس وقت ممبئی کے بجائے کلکتہ میں زیادہ فلمیں بنتی تھیں۔ ان کے والد اداکار پرتھوی راج کپور اس وقت فلموں میں کام کرنے کے سلسلے میں کلکتہ میں سکونت پذیر تھے۔
1940 میں ششی کپور جب دو سال کے تھے، تب وہ اپنے خاندان کے ساتھ پشاور میں سکونت پذیر، اپنے ماموں کرشن مہرا کی شادی میں شرکت کرنے کے لیے آئے۔ اس وقت تو انھیں پشاور ٹھیک سے یاد نہیں رہا، لیکن دوبارہ انھیں پشاور دیکھنے کی شدید خواہش رہی۔ یہ تب ممکن ہوا، جب انھیں جمیل دہلوی کی فلم ’’جناح‘‘ میں کام کرنے کا موقع ملا۔ جب اس فلم میں کام کرنے کے لیے ششی کپور 1997 میں پاکستان آئے، تو کراچی میں فلم کی شوٹنگ سے فرصت پا کر انھوں نے پشاور کا رُخ کیا۔ کیوں کہ وہ اپنا آبائی گھر دیکھنا چاہتے تھے؛ جہاں ان کے والد پرتھوی راج کپور اور ان کے بڑے بھائی راج کپور کا جنم ہوا تھا۔
قصہ خوانی بازار سے ملحق گلی ڈھکی نعل بندی میں، ان کا آبائی گھر ’کپور حویلی‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہ حویلی تین منزلہ ہے اور پچاس کمروں پر مشتمل ہے۔ ششی کپور کی پشاور آمد پر شہر کو اس وقت دُلھن کی طرح سجایا گیا تھا، اور اہل پشاور نے تب اپنے پشاوری ششی کپور کا عظیم الشان استقبال کیا تھا۔ ششی کپور نے اہل پشاور سے، ایک جلسے میں، اپنے مادری زبان ہندکو میں خطاب کیا، جو ان کے اعزاز میں منعقد کیا گیا تھا۔ اس دوران کچھ منچلوں نے ششی کپور سے شرارتاً پوچھا:
’’کیا کرشمہ کپور کو بھی ہندکو زبان آتی ہے‘‘؟
ششی کپور مسکرائے اور بولے، ’’ہم سب اپنے گھر میں اپنی مادری زبان ہندکو ہی بولتے ہیں۔ جو کہ ہم پشاوریوں کی اپنی زبان ہے‘‘۔
اس وقت ششی کپور نے جذباتی ہو کر کہا، ’’میں نے پشاور آ کر دوسرا جنم لے لیا ہے‘‘۔ یہ سنتے ہی پشاوریوں نے ’’ہندو مسلم بھائی بھائی‘‘ کے نعرے لگانا شروع کردیے۔
ششی کپور نے پشاور سے جاتے وقت اپنے آبائی گھر کی مٹی بھی ہاتھ میں اٹھائی، کیوں کہ کپور خاندان میں جب بھی کوئی اپنا نیا گھر تعمیر کرتا ہے، تو اس کی بنیادوں میں نیک شگون کے لیے پشاور کے اس گھر کی مٹی ڈالی جاتی ہے۔ ششی کپور نے پشاور سے جاتے وقت اپنے آبائی گھر کے موجودہ مالک سے کہا، کہ میں چاہتا ہوں، یہاں ایک ڈسپنسری قائم کروں؛ جہاں پشاوریوں کا مفت علاج کیا جائے۔ لیکن بعد میں ایسا نہیں ہو سکا، کیوں کہ موجودہ مالک اس قیمتی گھر کی زمین پر ڈسپنسری کے بجائے ایک بڑا شاپنگ پلازہ دیکھنا چاہتا ہے۔
ششی کپور سے پہلے ان کے دو بھتیجے رندھیر کپور اور رشی کپور بھی 1990 میں اپنا یہ آبائی گھر دیکھنے پشاور آ چکے ہیں۔
جون 2014 میں دورہ ہندوستان کے موقع پر، میں ششی کپور کی عیادت کرنے پرتھوی تھیٹر گیا تھا۔ وہیل چیئر پر بیٹھے ششی کپور نے پشاور کا نام سن کر مسکراتے ہوئے مجھے پیار سے اپنے قریب بیٹھنے کو کہا۔ اس وقت ششی کپور کے چہرے پر ایک نا ختم ہونے والی مسکراہٹ جاری ہوئی۔
میں نے کہا، ’’سر! میں بچپن سے آپ کا بہت بڑا فین ہوں، اور ہم پشاوری پوری کپور فیملی پر فخر کرتے ہیں، اور ہم آج بھی اپ کی فلمیں شوق سے دیکھتے ہیں‘‘۔ اس دوران میں نے انھیں پشاور میں موجود ان کے آبائی گھر کی تصویر دکھائی، تو ان کے آنکھیں بھیگ گئیں۔ ان کے چہرے پر ٹھیری ہوئی مسکراہٹ غائب ہو گئی۔
ششی کپور کو مداحوں سے بچھڑے ایک سال بیت گیا ہے۔ وہ 4 دسمبر 2017 کو ممبئی میں انتقال کر گئے تھے۔ ششی کپور کے انتقال کے موقع پر، ہم نے ان کے آبائی گھر کے سامنے ان کی یاد میں شمعیں روشن کر کے انھیں پشاور کی طرف سے خراج عقیدت پیش کیا تھا۔ پشاور سے محبت کرنے والے ششی کپور ہم پشاوریوں کو یاد آتے رہیں گے۔