کیسی عجیب بات ہے کہ ہمیں اپنی ذات یا ذات احدیت تک پہنچنے کے لیے کہیں دور نہیں جانا پڑتا بلکہ خود اپنی ذات میں اترنے کی ضرورت پیش آتی ہے ۔ انسان کے باطن سے ہر علم کا سراغ ملتا ہے ۔ ذرے سے ذات تک اور ذات سے خالق ذات تک ایک ایک چیز کا علم اس کے اپنے باطن میں پنہاں و موجود ہے ۔ اسکی اپنی ذات ٬ ذات حق کے آگے ایک حجاب ہے ۔ بلکہ حجاب اکبر ۔۔ ہاں صاحب حجاب اکبر ۔ یہ حجاب اکبر ٬ خالق اکبر تک رسائی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے ۔ انسان کا نفس ہی اس کا اصل دشمن ہے جو بظاہر دوست کے روپ میں سامنے آتا اور سب کچھ ہتھیا لیتا ہے۔
کہتے ہیں نفس انسان کا کم ظرف دوست ہے۔ جتنا اس پر احسان کرو گے اتنا ہی اس کی سرکشی بڑھتی جائے گی ۔ جبھی تو اس دوست نما دشمن کے خلاف جہاد ٬ جہاد اکبر کا درجہ پاتا ہے ۔
یہ علم کی نہیں عمل کی وادی ہے ۔یہ کثرت عمل کا نہیں حسن عمل کا محل ہے ۔
یہ کارزارِ عرفان ہے ۔
یہ مشقت کی گھاٹی ہے ۔
ایک رزم گاہ حیات ۔
جو سالک نفس کو رام کر لیتا ہے اسے سدھا لیتا ہے وہ اس پر سوار ہو کر فنا کے اس پار وادی بقا میں جا اترتا ہے ۔
یہ بقا تب ملتی ہے جب ہوس باقی نہ رہے ۔
جب سانس سانس خالق کے نام کی مالا جپے اور اس عقیدے کی حامل ہو جائے کہ
جو دم غافل سو دم کافر ۔
اب سونا بھی عبادت جاگنا بھی عبادت ۔
سوچنا بھی عبادت سانس لینا بھی عبادت ۔
رکوع بھی عبادت قیام بھی عبادت ۔
گفتار بھی عبادت خاموشی بھی عبادت ۔
گویا انسان رضائے الٰہی کا زندہ اور متحرک پیکر بن جاتا ہے ۔ لیکن یہ بھی واضح ہو کہ یہ باتیں کہہ دینا جتنا آسان ہیں اس مرتبے اور ایسے بلند پایہ مقامات پر پہنچنا اسی قدر دشوار تر ۔
رسالت مآب کا یہ فرمان ہمیں کتابوں میں درج ملتا ہے اور اسی سے ملتا جلتا ارشاد جناب امیر علیہ السلام کا بھی ہمیں نظر آتا ہے کہ
" جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا "
گویا رب کی معرفت تبھی ممکن ہے جب ہمیں خود اپنا عرفان حاصل ہو۔
محسن تو یہ دعا کرتے کرتے جہان فانی سے رخصت ہو گئے
کب سے اپنی تلاش میں گُم ہوں
میرے خدا مجھے مجھ پہ افشا کر
کیسی عجیب بات ہے کہ ہم تمام عمر خود اپنی ذات سے غافل رہتے ہوئے قبروں تک میں جا پہنچتے ہیں ۔
مگر خود ہماری ذات ہمارا اپنا نفس ہم سے بے گانہ رہتا ہے ۔اور ہم بھی اسے بھلائے رہتے ہیں۔
کہتے ہیں ایک فقیر تھا بے چارہ ۔ ایک تخت ہی اس کی گویا کل کائنات تھی ۔
اس نے اپنی تمام عمر اسی تخت پر بھیک مانگتے گزار دی ۔
جو مل جاتا کھا پی کر سو رہتا اور صبح پھر اک نئی شروعات اس کی منتظر ہوتی ۔
جب وہ مر گیا اور اس کی نعش کو تخت سمیت اٹھایا گیا تو یہ دیکھ کر لوگوں کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں کہ تخت کے نیچے سونے کے سکوں کا انبار لگا تھا۔
یقینا اس بھکاری کو اس خزانے کی خبر تک نہ تھی ۔
وہ بے چارہ خود بھیک مانگ مانگ کر جیسے تیسے زندگی گزارتا رہا اور لاعلمی میں اس خزانے کی دوسروں کے لیے چوکیداری کرتا رہا ۔
کہتے ہیں ایک آدمی کسی بزرگ کے پاس گیا اور اسے اللہ رسول کا واسطہ دیتے ہوئے کہنے لگا مجھے کسی خزانے کا پتہ بتاؤ تاکہ میں اپنی زندگی ٹھاٹ سے گزار سکوں ۔ بزرگ نے زیر لب مسکراتے ہوئے اسے ایک تیر کمان دیا اور کہا کہ فلاں صحرا میں جا کر کسی بھی سمت رخ کرتے ہوئے اس کمان سے ایک تیر زور سے ہوا میں پھینکو ۔ جہاں تیر کرے گا وہاں کھدائی کرنا ۔ تمھیں خزانہ مل جائے گا ۔ تیر کمان ہاتھ لیے وہ خوشی خوشی صحرا کی جانب چل پڑا ۔ وہاں پہنچ کر اس نے مشرق کی سمت ایک تیر ہوا میں چھوڑا ۔ جونہی اس نے تیر جوڑا تیر اس کے قدموں میں گر گیا ۔ ایک دو تین اس نے بارہا کوشش کی اور ہر بار یہی کچھ ہوا ۔ اب وہ پریشان تھا کہ یہ میرے ساتھ ہو کیا رہا ہے ۔ اتفاقاً کسی کا وہاں سے گزر ہوا تو اس نے اس سے مدد طلب کی ۔ وہ کوئی جہاندیدہ شخص تھا ۔ سارا ماجرا سن کر بولا ۔ تیرا خزانہ خود تیرے ذات میں پوشیدہ ہے ۔ اسے خارج میں نہیں اپنے باطن میں تلاشو ۔
تمام انبیاء٬ اوصیا ٬ اولیاء اسی بات کی تعلیم دینے رہے کہ خدا شناسی کے لیے خود شناسی اولین شرط ہے ٬ ایک بنیادی سیڑھی ۔
یقینا یہ عمل کا میدان ہے ۔ گفتار کے غازی جہاں پاؤں تک نہیں رکھ پاتے ۔ اقبال ہی کے بقول
ملاں کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور
اور فرمایا کرتے تھے کہ اقبال تو خود اپنی ذات سے بھی آگاہ نہیں ہے ۔
گور پیا کوئی ہور
رب جلیل سے ملتمس ہیں کہ ہمارے لیے خود شناسی کو آسان تر بنا دے تاکہ ہم اپنے مالک کی کماحقہ معرفت اور عرفان حاصل کر سکیں ۔اس کی رضا کا پیکر بن کر اپنی زندگی کا با سعادت زندگی میں ڈھال سکیں ۔
ان شاءاللہ