یہ مسلسل تیسری اسمبلی ہے جہاں پنجاب کی تقسیم کی بازگشت سنائی دے رہی ہے – پہلے پہل پی پی پی کی گورنمنٹ نے سرائیکی بنک اور سرائیکی صوبے کی بات کی – اگرچہ یہاں کی امن پسند عوام کا ایک مدت سے دیرینہ مطالبہ تھا کہ جنوبی پنجاب کو ایک علیحدہ صوبے کی شکل دے دی جائے اور کی نچلی سطح تک منتقلی کا جمہوری فیصلہ کیا جائے – یہ ایک ایسی بات تھی جو پنجابی اسٹیبلشمنٹ کو تلملانے پر مجبور کر دیتی تھی – پنجابی ذہنیت یہاں کھل کر مخالفت پہ اتر آتی – اور ایسا تاثر دیا جاتا تھا جیسے کوئی بہت بڑی خطا سرزد ہو گئی ہو – یہاں میرے پسندیدہ کالم نگار و صحافی ضیاء شاہد کا ذکر کرنا واجب ہے کہ جنھوں نے تن تنہا اس وسیب کا مقدمہ لڑا اور تمام تر مخالفتوں کے باوجود ڈٹے رہے – اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ پنجابی ذہنیت نے انہیں بھی نہ بخشا اور ان پر کیچڑ اچھالا جانے لگا – سرائیکی وسیب نے البتہ اپنے اس محسن کو کبھی مایوس نہ کیا بلکہ سر آنکھوں پر بیٹھایا – ان کے اخبار کو وہ پزیرائی ملی کہ کوئی اس کی گرد پا تک کو نہ چھو پایا – پہلا موقع تھا کہ قومی سطح کے کسی اخبار نے کھل کر پنجاب کی تقسیم پر بات کی تھی کہ اس سے قبل یہ موضوع شجر ممنوعہ کی سی حیثیت رکھتا تھا –
بہر کیف خبریں کی کاوشیں رنگ لائیں اور ہر طرف سے پنجاب کی تقسیم کی آواز بلند ہونے لگی – زرداری نے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کے لیے اسے اپنی توجہ کا مرکز بنا لیا لیکن یہ احتیاط ضرور کی کہ یہ صرف سیاسی نعرہ ہی رہے – یوسف رضا گیلانی نے اپنی دور وزارت کے آخر میں سرائیکی صوبے کے حوالے سے خاصے بیانات دئیے البتہ یہ معاملہ بیانات تک ہی محدود ہو کر رہ گیا – اسی دوران بی جے پی کی بھی خوب گرد آڑی – ن لیگ کو اقتدار نصیب ہوا تو انہوں نے بھی پولیٹکل اسٹنٹ کے طور پر اس نعرے کو خوب خوب استعمال کیا – ان کے پانچ سالہ دور میں سیکریٹریٹ کی بات اس تواتر سے اٹھی کہ لگتا تھا وہ کل کا بنتا آج مکمل ہو جائے گا – لیکن یہ سب سیاسی منافقت تھی سو یہ نعرہ نعرہ ہی رہا – حالانکہ ن لیگ مخلص ہوتی تو ان کے پاس عددی برتری بھی تھی اور پی پی پی کی حمایت بھی انہیں حاصل ہو سکتی تھی لیکن افسوس دونوں بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنی منافقانہ روش نہ بدلی اور یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا – ان دونوں سیاسی پارٹیوں کو اپنی اس منافقت کی بڑی بھاری قیمت چکانی پڑی اور تحریک انصاف نے دونوں کو پچھاڑ دیا – اسی دوران انتخابات سے قبل جنوبی پنجاب کا ایک گروہ صوبے کے نام پر وجود میں آیا اور پی ٹی آئی میں ضم ہو گیا – تحریک انصاف نے ایک ایسا وعدہ کر لیا جو ہتھیلی پر سرسوں جمانے کے مترادف تھا – لیکن اس وقت ن لیگ کو شکست دینے کے لیے یہ ضروری تھا کہ وہ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو اپنے ساتھ ملا کر پنجاب فتح کرتے – سو وہ اس میں کامیاب رہے اور پنجاب میں اپنی حکومت بنا لی – صوبے کے حوالے سے بیانات سامنے آتے رہے لیکن ایک بھی عملی قدم اٹھایا نہ جا سکا – ابھی چند دن پہلے خبر آئی کہ سیکریٹریٹ بہاول پور میں بنایا جائے گا جس پر ملتانی سیاست دان آگ بگولہ نظر آئے تو بہاولپوری بغلیں بجاتے پائے گئے – لیکن شاہ محمود قریشی کی آج کی پریس کانفرنس نے سارا معاملہ صاف کر دیا کہ ابھی اس حوالے سے کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا –
راقم کو شک ہے کہ یہاں کی عوام کو پھر سے ایک لالی پوپ دینے کی تیاریاں عروج پر ظ – گزشتہ تجربات سے تو یہی لگتا ہے کہ ایک بار پھر دھوکا ہو گا – اگر ایسا نہیں ہے تو پہلے مرحلے میں سیکریٹریٹ کو فنکشنل کرنا ازحد ضروری ہے – ملتان اور بہاولپور نئے صوبے کے دو اہم مقامات ہیں -ملتان کی اہمیت اگر مسلمہ ہے تو بہاولپور کی تاریخی خدمات کسی تعارف کی محتاج ہرگز نہیں –
نئے صوبے کے حوالے سے دونوں میں سے کسی ایک کو بھی نظر انداز کرنا قرین انصاف نہیں ہو گا – اور شاید کوئی معقول آدمی ایسا کرنے کی کبھی حمایت بھی نہیں کر سکتا- کسی ایک کو صوبائی صدر مقام اور دوسرے کو گورنر ہاؤس دیا جانا از حد ضروری ہے – لیکن اس کے لیے مفاہمتی عمل کو تیز کرتے ہوئے اتفاق رائے پیدا کرنے کی ضرورت ہے –
جہاں تک علیحدہ صوبے کی بات تو اس میں بھی کوئی اتفاق رائے موجود نہیں – ایک طبقہ صوبہ بہاولپور کو علیحدہ صوبہ بنانے کا حامی ہے تو دوسرا ڈیرہ اسماعیل خان اور ٹانک تک کو سرائیکستان صوبے کا حصہ بنانے کا آرزو مند – معقول بات بہر حال یہی ہے کہ بہاول پور ملتان ڈی جی خان ڈویژن اور سرگودھا ڈویژن کو ملا کر ایک معقول سائز کا صوبہ بنا لینا بجا طور سے وقت کی اہم ضرورت ہے – اس پر ابھی سے کام شروع ہونا چاہیے تاکہ موجودہ حکومت کی آئینی مدت کے دوران ہی سرائیکی وسیب کی مظلوم عوام کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے –
پہلے مرحلے میں بہاول پور میں سیکریٹریٹ کا قیام از بس ضروری ہے – اگر تحریک انصاف اس ایشو کے ساتھ واقعی مخلص ہے تو اسے آئندہ بجٹ میں اس کے لیے فنڈز مختص کرنا ہوں گے
دعا ہے کہ اسی حکومت کے دوران ہی ہمارا یہ مطالبہ ایک ٹھوس حقیقت بن جائے – آخر میں ان لوگوں کی مذمت اپنا فریضہ سمجھتا ہوں جو لسانیت علاقائیت اور اپنی چوہدراہٹ کے نام پر اچھے بھلے کام میں خوامخواہ کی رکاوٹ ڈالنے کے عادی ہیں – ایسے نامعقول لوگوں کے ہفوات سے سماجی میڈیا بھرا پڑا ہے – اللہ تعالیٰ ان کو ہدایت دے