یہ بات میں اپنے پورے قلبی یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس ملک کی عوام اپنی فوج سے بے انتہا پیار کرتی ہے
شاید اتنا پیار کسی ملک کی فوج کے حصے میں نہیں آیا –
اور یہ پیار بھی بے سبب نہیں ہے
دہشت گردی کی جس جنگ میں ہمارے ملک کو دھکیل دیا گیا تھا اس سے ڈٹ کر مقابلہ کرنا اور سرخرو ہو کر نکلنا ہماری فوج کا ایسا کارنامہ ہے جسے پوری دنیا نے تو تسلیم کیا ہی ہے اس ملک کی عوام بھی دل و جان سے تسلیم کرتی ہے کہ اگر ہماری طاقت ور فوج نہ ہوتی تو ہمارا حال افغانستان عراق اور لیبیا شام سے کہیں بدتر ہوتا –
پاک فوج اب بھی قربانیوں کی ایک نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے اس ملک کی بقا اور دفاع میں دن رات مصروف عمل ہے –
اس میں بھی دو رائے نہیں کہ کئی بار اس ملک میں فوج نے ملکی معاملات میں مداخلت کرتے ہوئے اپنے امیج کو بہت حد تک گرایا لیکن گزشتہ ایک عشرے سے فوج نے جس یک سوئی سے دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے خود کو سیاست سے دور رکھا ہے اس نے فوج کے امیج پر بڑا مثبت اثر ڈالا ہے –
اصلاح کی گنجائش کہاں نہیں ہوتی
اس کے لیے اپنی غلطیوں کو تسلیم کرنا اور پھر اس سے سیکھنا پڑتا ہے –
اور ہر کوئی اپنی غلطیوں سے سیکھتا ہے – سو فوج نے بھی اپنی کوتاہیوں سے یقینا بہت کچھ سیکھا ہے –
سول ملٹری تعلقات ہر دور میں ایک مسئلہ رہے ہیں خصوصاً ن لیگ کا ریکارڈ اس سلسلہ میں بہت غیر مثالی ہے –
لیکن خوشی کا مقام ہے کہ موجودہ حکومت کو کسی طور بھی پاک فوج سے کوئی مسئلہ نہیں –
اور طرفین یقیناً ایک پیج پر نظر آتے ہیں اور یہی کسی ملک کی بقا کے لیے ضروری بھی ہے کہ اس کے اداروں میں ٹکراؤ کی بجائے تعاون اور اعتماد کی فضا پائے جائے – اور ملک کا ہر ادارہ اپنے اپنے دائرہ اختیار سے تجاوز نہ کرتے ہوئے اپنے فرائض منصبی پوتی دیانت داری سے ادا کرتا رہے –
حکومت اور فوج کے درمیان باہمی تعاون کی فضا پر ہماری اپوزیشن خوب تلملا رہی ہے – اور ان کا تلملانا بنتا بھی ہے –
خاص طور پر ن لیگ کہ جسے ہمیشہ فوج سے مسئلہ رہا ہے اور کسی بھی آرمی چیف سے میاں صاحب کی کبھی نہیں بنی –
کہنے والے سچ ہی کہتے ہیں کہ میاں صاحب فوج کو پنجاب پولیس بنانا چاہتے ہیں اور ہر بار منہ کی کھاتے ہیں
اور اس بار تو اپنے بیانات سے انھوں نے الطاف بھائی بننے کی بھونڈی کوشش کی ہے –
بیماری کا بہانہ بنا کر لندن میں عیش کرنے والے میاں صاحب جو ووٹ کی عزت کی بات کرتے تھے اور اشارے کنائے میں فوج پر یوں تنقید کرتے تھے کہ اسے خلافی مخلوق کہہ کر پکارتے تھے آج بے بسی کی اس منزل پر آن پہنچے ہیں کہ انھوں نے کھلم کھلا آرمی چیف کو مخاطب کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ انکی اچھی بھلی حکومت کو آرمی چیف نے کمزور کیا اور منتخب وزیراعظم کو سلیکٹیڈ کہہ کر تو اول روز سے وہ یہ بات کہہ رہے ہیں کہ انکی فتح کو شکست میں تبدیل کیا گیا –
میاں صاحب کے کردار سے کون واقف نہیں کہ فوج کی نرسری میں پل کر جوان ہوئے
تین بار ملک کے سب سے بڑے انتظامی عہدے تک پہنچے ۔۔۔
جانے وہ آج کس منہ سے دوسروں پر الزام دھرتے ہیں –
جس کے اپنے منہ کو خون لگا ہوا ہو وہ بھلا دوسروں کو گوشت خوری کا طعنہ کیسے دے سکتا ہے ؟
لگتا ہے وہ ماضی میں زندہ ہیں –
نہیں جانتے کہ یہ ٹونٹی ٹونٹی ہے –
عوام کو اب مزید بے وقوف نہیں بنایا جا سکتا –
میاں صاحب کے تازہ ترین بیانات نے انکی اپنی پارٹی کی صف میں عجیب سی ہل چل مچا دی ہے –
پارٹی کے کئی اراکین برملا یہ کہتے پائے گئے ہیں کہ میاں صاحب کا موجودہ طرز عمل پارٹی کی رہی سہی عزت بھی خاک میں ملا دے گا –
کچھ زیادہ دن نہیں گزرے کہ اپوزیشن کی گیارہ جماعتوں کا پاور شو گوجرانولہ میں ہوا
یہ ایک ایسا علاقہ ہے کہ جہاں سے ن لیگ نے کلین سوئیپ کیا تھا مگر یہ دیکھ کر حیرت کا شدید جھٹکا لگا کہ عوام کی حاضری خاصی کم رہی ۔۔۔
وہ جو کہتے ہیں ناں کہ پہلا تاثر دائمی ہوتا ہے تو اس پہلے تاثر نے اپوزیشن کے غبارے سے اچھی خاصی ہوا نکال دی ہے –
اگر وہ میدان میں نہ اترتے تو اچھا تھا ۔۔۔کچھ تو بھرم رہ جاتا –
بھانت بھانت کی جماعتوں میں باہمی اعتماد کی کمی کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ لوگ خاطر خواہ تعداد میں عوام کو باہر نہیں نکال سکے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جو لوگ اس جلسے میں شریک تھے وہ بھی اس کھیل سے لاتعلق ہی دکھائی دیے اور یہی بات اپوزیشن کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ انھیں عوام کی نہ تو تائید حاصل ہے اور نہ وہ ان کا موڈ کچھ ایسا بنا پائے ہیں کہ یہ محسوس ہو سکے کہ وہ موجودہ حکومت سے عاجز آ چکی ہے –
اس کی بظاہر تو وجہ یہی نظر آتی ہے کہ عوام کو اپوزیشن پر کوئی اعتماد سرے سے ہے ہی نہیں –
وہ اسے اپنے درد کا درماں سمجھنے کو تیار ہی نہیں ہیں
وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس کوئی ایسا پروگرام نہیں کہ جس سے عوام کے دلدرد دور ہو سکیں –
وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ سارا کھیل اقتدار کے حصول کے لیے کھیلا جا رہا ہے اور اس مقصد کے لیے ان کا کندھا استعمال کیا جا رہا یے اور عوام اپنے کندھا دینے پر آمادہ نظر نہیں آتے –
لگ یہ رہا ہے کہ کراچی کے جلسے میں سندھ حکومت سر دھڑ کی بازی لگا دے گی ۔
سرکاری مشینری اور فنڈز کا بے دریغ استعمال کیا جائے گا اور حکومتی خرچے پر عوام کو جلسہ گاہ میں لا کر گوجرانولہ کی خفت مٹانے کی کامیاب کوشش کی جائے گی
لیکن عوام کی اکثریت پھر بھی یہی کہتی نظر آئے گی کہ
وہ دل نواز ہے لیکن نظر شناس نہیں
میرا علاج میرے چارہ گر کے پاس نہیں