ہمارے پڑوسی حافظ صاحب نے جو مدرسہ گھر میں قائم کیا تھا وہ خاصہ چل پڑا تھا۔ کم و بیش محلہ کے سب ہی بچے اس مدرسہ میں قران پڑھتے تھے۔ بچپن میں مجھے بھی حافظ صاحب نے ہی قران پڑھایا تھا۔
خیر سے میں اب سولہویں سال میں آچکا تھا اور حافظ صاحب کی بیٹی کو پندرھواں سال لگنے کو تھا۔ اس کی گہری رنگت اور بھوری آنکھوں کی وجہ سے میں اسے " کالی بلی" کے نام سے پکارتا تھا۔
کچھ عرصہ سے میرے اور کالی بلی کے بیچ نین مٹکا شروع ہوگیا تھا۔ جیسے ہی حافظ صاحب اور والد صاحب قبلہ جمعہ کی نماز کو جاتے تو ہم دونوں چھت پر اپنی نماز عشق ادا کرنے پہنچ جاتے تھے۔
عشق آخر کب تک چھپُتا ! آخر کار ، والد صاحب کو میری جمعہ وار عشقیہ واردات کی خبر ہوگئی۔ اب انہوں نے مجھے سزا کے طور پر اپنے ساتھ جمعہ کی نماز پڑھنے لے جانا شروع کردیا۔
جامع مسجد کے امام نے اپنے خطبہ میں خوُبرو حوُروں کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا کہ دوران نماز میں ان کے حسن میں کھوئے رہا۔ نماز جمہ کے خطبات میں مولانا اکثر حوروں کا خیالی درشن کراتے رہتے تھے۔ ان کے پرُ اثر انداز بیان اور شہوت بھرے خطبات نے مجھے ان کے قریبی حلقہ میں داخل کردیا تھا۔ اب میں ان کے حجرے میں لگنے والی بیٹھکوں میں پابندی سے شرکت کرنے لگا تھا۔ والد صاحب میرے مذہب کی طرف راغب ہونے سے بے انتہا خوش تھے۔
مولانا کی قربت نے مجھ پر ایک سنجیدگی سی طاری کردی تھی۔ میں تنہائی پسند ہوتے جارہا تھا اور میں نے محلے کے دوستوں سے ناطے ختم کر لئے تھے۔ مولانا نے مجھے یہ باور کرادیا تھا کہ جہاد و شہادت ہی وہ واحد راستہ ہے جو جلد از جلد حوُروں بھری جنت میں پہنچنے کی ضمانت دیتا ہے۔
میں جنت میں جلد از جلد پہنچنے کو بے تاب تھا۔ میرے ذوق شہادت کو دیکھتے ہوئے، مولانا نے مجھے اپنے خاص آدمی کے حوالے کردیا۔ اسُ نے مجھے باروُد بھری جیکٹ پہنانے کے بعد میرے گلے میں ایک ڈوری پہنائی جس میں ایک خوبصورت کنجی لٹکی ہوئی تھی۔ یہ جنت کی کنجی تھی۔ دھماکہ کرنے کے بعد مجھے اس کنجی سے جنت میں ملنے والے محل کا دروازہ کھولنا تھا۔ مولانا نے مشن پر روانہ ہوتے وقت مجھے دُعا دے کر میرا ماتھا چومتے ہوئے کہا کہ حوُروں کارنگ گلاب کے پھولوں سے زیادہ سرخ ہوگا اور ان کے خوبصورت جسم سے عنبر و عود کی خوشبو پھوٹتی ہوگی۔ ان کا قد کئی سو گز لمبا ہوگا اور ان کی چھاتیوں کا درمیانی فاصلہ کئی ہاتھ کا ہوگا۔
مولانا صاحب کا خاص آدمی مجھے چھاؤنی میں لگنے والے اتوار بازار میں لے گیا۔ وہاں علاقہ کے عام لوگوں کے علاوہ فوجیوں کے خاندان بھی خریداری کے لئے آتے تھے۔ وہ آدمی مجھے بھرے بازار کے بیچ ضروری ہدایات دے کر چلے گیا۔ اب میرے اور حوُروں کے بیچ فاصلہ بارودی جیکٹ کی ڈوری کھینچنے کی حد تک تھا۔ اس سے پہلے کہ میں ڈوری کھینچتا، مجھے مولانا کی بات یاد آگئی کہ حوروں کا قد کئی سو میٹر لمبا ہوگا اور ان کی ایک چھاتی سے دوُسری چھاتی تک کا فاصلہ کئی ہاتھ کا ہوگا۔ میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ میری نظر بازار کے دوسری طرف آسمان کو چھوُتے ہائی ٹینشن لائین کے بجلی کے کھمبوں پر پڑی۔ میں نے اندازہ لگایا کہ مولوی صاحب کے بیان کے مطابق حوروں کا قد ان کھمبوں جتنا ہی ہوگا!
میں نے مزید سوچا کہ میں اتنی دراز قد حوُروں کے لب و رخسار کو کیسے بوسہ دے سکوں گا۔
ابھی میں اس معمہ کو سلجھانے کی کوشش کر ہی رہا تھا کہ حافظ صاحب کی بیٹی " کالی بلی" میرے سامنے آن کھڑی ہوئی۔ وہ حسب معمول یہاں خریداری کرنے آئی ہوئی تھی۔ اُس نے مجھے اپنی چمکدار بھوُری آنکھوں سے اس طرح دیکھنا شروع کیا کہ جیسے شکوہ کناں ہوکہ میں اب جمعہ کے جمعہ چھت پر کیوں نہیں آتا۔ کالی بلی مجھے یکایک سرخ و سفید حوروں سے زیادہ حسین لگنے لگی۔ میں باروُدی جیکٹ کی ڈوری کھینچنے کا خیال ترک کرکے، شرمندگی سے اسُ کے سامنے سر جھکا کر کھڑا ہوگیا۔