(Last Updated On: )
اُردو کا بعض اوقات ہندی کے ساتھ موازنہ کیا جاتا ہے۔ اُردو اور ہندی میں بُنیادی فرق یہ ہے کہ اُردو نستعلیق رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور عربی و فارسی الفاظ استعمال کرتی ہے،جبکہ ہندی زبان دیوناگری رسم الخط میں لکھی جاتی ہے اور سنسکرت الفاظ زیادہ استعمال کرتی ہے ،کچھ ماہرینِ لسانیات اُردو اور ہندی کو ایک ہی زبان کی دو معیاری صورتیں گردانتے ہیں۔ تاہم دیگرماہرین ان دونوں کو معاش اللسانی تفرقات کی بنیاد پر الگ الگ سمجھتے ہیں،بلکہ حقیقت یہ ہے کہ ہندی، اُردو سے نکلی ہے۔ اسی طرح اگر اردو اور ہندی زبان کو ایک سمجھا جائے تو یہ دنیا کی چوتھی بڑی زبان ہے۔
اردو زبان باوجود دنیا کی نئی زبانوں میں سے ہونے اپنے پاس معیاری اور وسیع ذخیرہ ادب رکھتی ہے۔ خاص کر جنوبی ایشیائی زبانوں میں اردو اپنی شاعری کے حوالے سے جانی جاتی ہے۔
گلیمر کی دنیا خوبصورتی وصناعی کے شہر میں، جہاں ہر چیز کی اصلیت کا جانناایک معمہ ہوتا ہے اپنی حیثیت بنانا، اپنا مقام بنانا اور اپنی حیثیت تسلیم کرانا، اپنی زمین تیار کرنا شہرت و عظمت کا گرانقدر سرمایہ حاصل کرنا،یہ کوشش وکاوش کاطویل سفر جس میں نہ سفر کی تھکن اور تعب کا شکوہ ہے،نہ مقدر سے کوئی فریاد، نہ وقت سے کوئی شکایت،نہ زمین و زمان کی تبدیلی کا رونا،یہ وہ اعلی صفات ہیں جو انساں کو عظیم بناتی ہیں،ان تمام صفات کو اگر ہم دنیائے اردو ادب کے دَورِ حاضر کاتقابلی جائزہ لیں تو مندرجہ بالاتمام صفات کی سزاوار محترمہ زیب النساء زیبیؔ صاحبہ ٹہھریں گی
آپ دنیائے سُخن کی آبرو ثابت ہوئی ہیں ان کی شخصیت اور ان کی زندگی کی پچاس سالہ ادب نوازی دونوں ہی پہلو عظیم تر ہیں جن پر سیر حاصل بحث بڑا مشکل کام ہے جس مقام کی حامل انکی شاعری اور نثر نگاری ہے اسی شرف و وقار کی حامل انکی ذات بھی ہے انہوں نے ثابت کردیا کہ جد وجہد محنت و مشقت کے ذریعہ ہر زمین فتح کی جاسکتی ہے مشکل تر معاملات کو آسانی سے سر کیا جاسکتا ہے،زیبی صاحبہ نے اردو ادب میں بشمول نثر نگاری اورشاعری میں اپنی شناخت قائم کرتے ہوئے گرانقدراضافہ کیا ہے جو بلاشبہ اہمیت کا حامل ہے جس سے آنے والے وقت میں اکتسابِ فیض کیا جاتا رہے گا ان کی شاعری وقت کی رفتار کو بھانپتی ہے معاشرہ سماج کلچر اور تہذیب کو گویائی دیتی ہے، وہ سکوت وجمود کا شکار نہیں ہوتی بلکہ گردش وقت سے پیدا ہوئے سماجی اخلاقی معاشرتی بحران پر طنز کرتی ہیں اور کاروانِ حیات کو صحیح سمت پر گامزن کرنے کے لئے کوشاں ہیں وہ صرف طعنہ زنی تک محدود نہیں رہتے بلکہ اصلاح پربھی بھرپورتوجہ دیتی ہیں اس سب کہ باوجود انکا کارنامہ یہ ہے کہ غزل کے نرم ونازک وجودکو اور اسکی خوبصورت شکل کو بدنما نہیں ہونے دیتیں، وہ شعلہ بیاں خطیب کی تقریر محسوس نہیں ہوتی اس میں نعرہ ٔزنی کا عنصر پیدا نہیں ہوتا اس میں سختی اور کرختگی کا احساس نہیں ہوتا یہی زیبیؔ کی وہ خصوصیت ہے جو انہیں منفرد و ممتاز کرتی ہے اور ان کاتشخص قائم کرتی ہے انہوں نے کھلی آنکھوں سے زندگی کے کھیل کو دیکھا اور فتح و کامرانی نے انکے قدم چومے ،ادب کی طاقت کو دنیا کی تمام تحریکات نے تسلیم کیا ہے اور اپنے نظریات کی اشاعت کے لئے اسے بطوروسیلہ استعمال کیا ہے۔ ایک ایسی انقلابی تحریک جو زندگی کے ہر پہلو اور ہرادارے کی اصلاح چاہتی ہے،جو تعلیم،سیاست اور معاشرت کو بدلنا چاہتی ہے،وہ ادب کے شعبے کو کیسے نظر انداز کرسکتی ہے،ہر تحریک اپنے دامن میں ایک انقلاب کا تصور رکھتی ہے،ہر انقلاب قلب و نظر کے زاویوں سے لے کر زندگی کے تمام مادی و اخلاقی پہلوؤں پر ہمہ گیر اثرات ڈالتا ہے، یہ اثرات ادب کے ذریعے غیر محسوس طریقے پر دل کی ایک لرزش سے جسد انسانی میں سرایت کرتے رہتے ہیں، دراصل دل ودماغ اور قلب ونظر کی تبدیلی اور تعمیرِ جدید میں ادب کسی بھی تحریک کا سب سے بڑا ایجنٹ ہوتا ہے، جو چپکے چپکے آنکھوں کے راستے دلوں میں اترتا ہے یا کانوں کے راستے قلوب میں گھر بناتا ہے۔ اس طرح آنے والے انقلاب کے لیے جذبات اور احساسات کے مورچہ بناتا ہے ،یہ ادب ہی ہے جو براہِ راست حملہ کرکے شکار کو پھڑکاتا نہیں، بلکہ اس کے گرد تصورات وتخیلات کی سوندھی سوندھی فضا پیدا کرتا ہے، کہ شکار خود بخود اس خوشبو کو اپنے دل میں جذب کرنے کے لیے اپنے جسم کے تمام بند ڈھیلے چھوڑدیتا ہے ۔۔
یہ تو ہوئیں اردو ادب کے حوالے سے باتیں مگر ماہِ مقدس رمضان المبارک میں ہم پر محترمہ زیبی صاحبہ کا ایک اور حیرت انگیز،مسرت انگیں اور خوش آئند جوہر یہ کُھلا کہ موصُوفہ کوصرف اردو ادب پر ہی مکمل عبور حاصل نہیں بلکہ اسلام اور اسلامی تواریخ پر بھی ملکہ حاصل ہے اس کے علاوہ اقبال ؔ اور فیض شناسی ان کا اعزاز بھی ہے اورامتیاز بھی،لیکن ٹہھریئے !!
اسی پر موقوف نہیں بلکہ ایک اور انکشاف کرتا چلوں کہ موصوفہ انگریزی زبان کی بھی معلمہ ہیں اور آج کے دَورِ کرونا میں آن لائن بچوں کی خوب کلاسیں لے رہی ہیں ۔۔۔۔
واقعہ یہ ہے کہ ادب انسانی خیالات،جذبات اور اقدار کو زندہ رکھنے یا بنانے اور بگاڑنے والی عظیم طاقت ہے، اور محترمہ زیب النساء زیبی صاحبہ نے اس طاقت کا خوب خوب ادراک بھی کیا ہے اور بہتر سے بہتراستعمال بھی اسی لئے جب کسی محفل میں یہ خاکسار اور محترمہ زیب النساء زیبی صاحبہ موجود ہوتی ہیں تو میں یہ جملہ ضرور کہتا ہوں اور یقیناً حق بجانب بھی ہوںکہ
’’ہم عہدِ حاضر کے ادبی دَورِ زیبی ؔمیں جی رہے ہیں‘‘