(Last Updated On: )
میدانِ ادب کا مردِ مجاہد…. محمد یوسف وحید
ہے تنقید آلہ مسلم اٹل سا
زرِ خام کو جو اصل ہے بناتا
جوتا قد نہ ہو تو نہیں نقد ہوتا
لکھا آب زر سے بھی نسخہ کسی کا
مولانا روم حضرت سعدی شیرازی نے ایک حکایت میں اصل اور کم اصل کا فرق بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ پرانا زمانہ تھا جب چاندی یا سونے کی اشرفیاں نوٹ کی جگہ استعما ل ہوا کر تی تھیں ۔ ایک دن کسی نے ایک نقلی اشرفی جو پالش شدہ تھی ، تھمادی ۔ رات کے اندھیرے میں تمہاری دُکان دار نے اسے گلے میں ڈال دیا ۔ جیسے ہی یہ نقلی روپیہ گلے میں گیا تو اصلی روپیوں سے چھیڑ خوانی کرتے ہوئے بولا ۔
دیکھ میں بھی تم سا معتبر ہوگیا ہوں تو وہ بولے۔
آرام سے رات گزار ،صبح ہوگی دوکاندار مقناطیس لگائے گا تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا ۔
صبح ہوئی تو نقلی روپے کو مقناطیس نے اس کے اصلی مقام سے سب کو آگاہ کر دیا اور گزری رات کے غل غپاڑے کا نقشہ کسی شاعر نے یوں کھینچا ہے کہ
رُتبہ جسے دنیا میں خدا دیتا ہے
تو وہ فروتنی کو دل میں جادیتا ہے
کرتے ہیں تہی مغز ثنا آپ اپنی
جو ظرف کہ خالی ہو صدا دیتا ہے
محمد یوسف وحید بازارِ عمل میں ہر طرح کے مقناطیسی مراحل سے گزر کر خالص اخلص زر رائج الوقت ثابت ہو چلا ہے مگر آج ہم اس کی بہترین کاوش ’’ خان پور کا اَدب‘‘ کو تعمیری تنقید کا سامان بنا کر اس کے کارناموں کی فائین ٹینوننگ کریں گے تاکہ محنت کے باوجودرَہ جانے والی کسر کے پیچھے چھپے عوامل کی ایک جھلک دکھانے کی کوشش کرسکیں تاکہ ان کو تھپکی بھی مل سکے ۔ مزید محنت کا احساس بھی اُجاگر ہو ۔ یار لوگوں کی تنقیصی تنقید کو بھی جہاں جامِ جہاں نما کے کو رُوبرو کیا جاسکے اور قاری مصنف اور ناقد کو مساوی مثبت نظری کی فضا بھی فراہم کی جاسکے ۔
نتیجہ یہ حاصل کرنا ہے کہ ان میں کسی کو بھی یہ نہ کہنا پڑے ۔
اشارہ کچھ اور کر رہا تھا ڈوبنے والا
یارانِ ساحل نے سلامِ آخری سمجھا
تنقید نگاروں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ یہ کنزنے والی مچھلیاں ہیں جو ہر چیز کو چٹ کر جاتی ہیں یہ تو محض مبالغہ ہے اصل میں کوئی عمل یا کوئی چیز غلط نہیں ہوتی ۔ اس کا استعمال غلط طور پر ہوجائے تو اس کے فوائد ، نقصان میں بدل جاتے ہیں ۔ مثال کے طور پر اگر کترنے کے عمل کو ہی مطلق غلط مان لیاجائے تو یہ اس کے بال کٹیں گے نہ کپڑے بن سکیں گے اور دنیا ایک بار پھر پتھر کے زمانے میں پہنچ جائے گی ۔ جبکہ مسلسل تبدیلی وقت کی ضرورت بھی ہے او بہر حال اس تبدیلی کے لیے مثبت راہیں متعین کی جانی بہت ضروری ہیں ۔ جس کی طرف ساغر صدیقی نے اشارہ کیا ہے ۔
پلا ساقیا کوئی جام غزالی
بھٹکتی بصیرت لہو رو رہی ہے
زہر اور امرت کا الگ الگ وجود ہے اور اہمیت بھی ۔ کسی کی حیثیت ختم ہوسکتی ہے نہ اس کے وجود سے انکار کیا جاسکتا ہے ۔ اسی طرح تنقید بھی تخریبی اور تعمیری دونوں صورتو میں موجود ہے ۔ تخلیق کار کے لیے اوّل الذکر زہر برابر ثابت ہوتی ہے اور دوسری امرت برابر اثر رکھتی ہے ۔
محمد یوسف وحید کے اندر حق پرست ، رمز شناس اور درد بھرے درویش کا بسیرا ہے ۔ جس کی تحریک پر اس نوجوان سے جب بھی ایسی اچھائیاں معمول ہوجاتی ہیں جن کی عمرانی وقعت ایک عظیم کارنامے کی ہوتی ہے تو تخریبی تنقید کو تنقیص کے دلدل میں اُترتے دیر ہی نہیں لگتی کیوں کہ یہ ایک تو بڑے کام کو ہاتھ ڈالتا ہے ۔ پھر اپنی ذات کو اس کے لیے اتنا وقف کرلیتا ہے ۔
پہلے ہی عرض کیا جا چکا ہے کہ اس کی ذہنی عمر ایک پختہ کار بزرگ کی ہے جو اپنے حِصّے کا چراغ جلانے کی دُھن میں شب و روز مگن رہتا ہے اور اس کے خلوص کا صِلہ ہر دل عزیز ی کی صورت میں ملتا چلا جاتا ہے ۔
ظاہر ہے خیر اور شر ازل سے ساتھ ساتھ ہیں ۔ لہٰذا انگلیاں بھی اُٹھتی ہیں ، دانتوں میں بھی دبتی ہیں مگر یہ اپنے کام سے کام رکھتا سفر جاری رکھتا ہے ۔یوں یہ زندگی گزارنے کی بجائے زندگی کرنے اور اس میں رنگ بھرنے اور معدوم و مخدوش زاویوں کو واضح کرنے میں مصروف رہتا ہے ۔ کام سے لگن ، وقف شدہ شخصیت اور جاں فشانی کی عادت جب اسے اس شعر کے مثالی پیکر میں ڈھالتی ہے کہ
اپنے لیے تو سب ہی جیتے ہیں اس جہاں میں
ہے زندگی کا مقصد اَوروں کے کام آنا
تو بڑے بڑے خدمتِ خلق کے دعوے دار ادب کے خدائی فوج دار اور خود ساختہ لقادِ اعظم اسے تختہ ٔ مشق بنانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن خدمتِ ادب کا یہ رسیا انہیں اس شعر کی صورت میں جواب دیتا ہوا آگے بڑھ جاتا ہے ۔
ہم ساعتیں نکال نہ حُب کے لیے سکے
حیران ہیں کہ آپ نے نفرت بھی پال لی
ہمیں اپنی بات بڑھانے کے لیے کسی ہم نوا کی شدت سے ضرورت تھی ۔ اللہ بھلا کرے ویب سائٹ (www.punjnad.com)والوں کا کہ جس کے توسط سے ہمیں فردِ مطلوبہ کی تحریر مل گئی ۔
آپ کی خدمت میں ایک اقتباس پیش کیے دیتے ہیں ۔ باقی گزارشات بعد میں سہی ۔
’’ محمد یوسف وحید سے میر ی دوملاقاتیں ہوئیں ، پہلی دوسری سے چار سال پہلے ہوئی ۔ ایک نوجوان نے رابطہ کیا کہ علم و ادب پر کام کر رہاہوں ۔ آپ سے بھی کچھ معلومات درکار ہیں ۔ میں نے مطلوبہ معلومات فراہم کر دیں ۔ اپنی مطبوعہ اور غیر مطبوعہ کتابوں کی فہرست بھی لکھوادی ۔ کچھ دیگر موضوعات پر بھی گفتگو ہوئی ۔
نوجوان چلا گیا مگر میں نے حیرت سے سوچا ،’’ یہ نوجوان اتنے بڑے کام کو کرلے گا ؟ ‘‘۔۔۔۔۔
نیٹ پیکج ختم ہوجانے کی وجہ سے ہم جناب پروفیسر سراج احمد قریشی صاحب کی تحریر کو من و عن نہیں لکھ سکے ، مفہوم پیش کر دیا ہے ۔
ہمارا مقصد یہی جملہ آپ کے سامنے رکھنا تھا ۔ ’’ یہ نوجوان اتنے بڑے کام کو کرلے گا ؟‘‘
اسی کے دو رُخ ہیں، بڑے بڑے دعوے دار اور ادب کے خود ساختہ محسن جن کے پاس محض باتوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا ۔ جس طرح بھی کرکے اپنے آپ کو سماجی رائے میں ان میں ایک آئیکون بنوا لیتے ہیں ان کی باتوں کے محرر مقرر ہوتے ہیں ۔ مبالغہ آرائی کی اجازت بلکہ در پردہ فرمائش بھی ہوتی ہے سال میں چار چھ بلند بار دعوے بھی ہوجاتے ہیں مگر کام صفر رہتا ہے ۔
وہ جب قیسِ ادب… محمد یوسف وحید کو دیکھتے ہیں تو ان کے ذہن کے پردے پر جملہ تو بالکل پروفیسر سراج احمد قریشی والا اُبھرتا ہے مگر مطلب بالکل الگ ہوتا ہے مگر یہ کام کا دھنی زیرِ لب یہ مصرع دہراتا ہوا آگے بڑھ جاتا ہے ۔
’’ پتل بنْڑا ایو ای سونا بنْرساں عملاں نال ‘‘
بات کو آگے بڑھانے سے پہلے میں ایک شہرہ آفاق شعر کا ٹکڑا اور اس کے بعد زبدۃ المحققین علامہ سیّد محمد فاروق القادری کا قول آپ کے سامنے رکھتے ہیں ۔
عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی …..یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے
اب غور کیجئے
’’ عمل سے زندگی ‘‘ قلندر لاہور ی حضرتِ اقبالؒ کا فرمان ہے ’’ اور کتاب زندگی ہے ‘‘۔
یہ محقق ، مصنف ، مترجم ، شاعر ،دانشور ، عالم ، خطیب اور نثر نگار جن کے صدقہ ٔ جاریہ میں چالیس سے زیادہ علمی و ادبی اور روحانی و عمرانی موضوعات سے مزین بے بہا کتابیں ہیں ۔ ہماری مراد علامہ سیّد محمد فاروق القادری ہیں ۔ میری ذاتی رائے کے مطابق محمد یوسف وحید نے اپنے عمل سے کتاب ک وجوڑ کر ادب کی خدمت کو لازمہ ٔ حیات بنا لیا ہے تو اللہ کی مقرب ہستیوں کے فرمودات کی تاثیر نے اس کی زندگی میں تحریک مزید کا سامان کر دیا ہے کیوں کہ ان ہستیوں کے روحانی تار جس گرڈ سے جُڑے ہیں ۔ اس کی توصیف اس طرح بیا ن ہوئی ہے ۔
ترے منہ سے جو نکلی وہ بات ہو کے رہی
کہا نہی کو جو کن کائنا ت ہو کے رہی
اپنی بات کو آگے بڑھانے سے پہلے ہم آپ کے سامنے ایک راز کی بات رکھنا چاہتے ہیں ۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ
کسی کو راز مت دینا اگر رہنا ہے دنیا میں
یہ دنیا اک نقارہ ہے تمہیں بدنام کر دے گی
حدود و قیود سماجی ہوںیا شرعی ، ان کی پاسداری کرنی پڑتی ہے مگر اس حقیقت سے بھی کسی کو مفر نہیں ۔ خاص حالات میں ان حدود میں وقتی طور پر تحریف جائز ہوجاتی ہے ۔ مثلاًمحرم اورنامحرم کا مسئلہ اس دور کا سلگتا ہو ا مسئلہ ہے مگر آپ سڑک پر ہوں کسی نامحرم بی بی کا یا بابے کا ایکسیڈینٹ ہوچکا ہو تو اب پردہ اور مس کرنے کے فتوے لینے کا وقت نہیں بلکہ ا س کی جان بچانے کا وقت ہے اور آپ عمومی حالات کی ساری حدود کی پاسداری لازم نہ رہے گی اس کی جان بچانا اوّلیت اختیار کر جائے گا ۔
محمد یوسف وحید کی ادب کے لیے جاں نثاری دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ انہوں نے اوروں کاکام اپنے ذمہ لے لیا ہے بلکہ اصل یہ ہے کہ اوروں نے جو کام چھوڑدیا ہے ۔ اس کا ذمہ محمد یوسف وحید نے لے لیا ہے ۔
ہم عدیم الفرصتی کا شکار ہیں ۔ ہمیں شوگر نے آلیا ہے ۔ ہمارا فشارِ خون قابو میں نہیں رہتا ۔ ادب کے پر دھانوں کی ان سب باتوں کو ٹکا سا جواب دیتے ہوئے محمد یوسف وحید یہ کہتے ہوا آگے بڑھ جاتا ہے کہ
فرصت کسے تھی یار کہ غم اپنے بھول کر
تیرا غم گلے لگاتے جو نہ ہم گلے لگاتے
اب اگر محمد یوسف وحید نے یار لوگوں کے مطابق اگر حدود کی پاسداری نہیں کی تو اس پر کوئی قد غن لگانے کی ضرورت نہیں ہے ۔ کیونکہ ادب کی حقیقت کو بے توجہی کا حادثہ پیش آچکا ہے ۔
پروفیسر سراج احمد قریشی کا خیال بالکل درست تھا کہ یہ فردِ واحد اور وہ بھی نوجوان فرد کا کام نہ تھا لیکن محمد یوسف وحید نے جو ٹھانی منوا کر ہی دم لیا ۔
یہاں ضرور جب اس اٹھ کاٹھیے کام کو ایک نوجوان اپنے وسائل اور مسائل کے مابین راستہ نکال کر مکمل کرنے کی ٹھان لے تو کمی کوتاہی تو رہ جائے گی ۔ جس کا ہم آخر میں ہلکا سا عکس ضرور پیش کریں گے مگر ہماری نظروں سے اس حقیقت کو ہرگز نہیں جھٹلانا چاہیے کہ اس نوجوان کا خلوص خواہ کلامی کی بجائے سلامی کا مستحق ٹھہرے گا ۔ آپ تسلیم کرلیں تو ٹھیک ورنہ اسے تو اس آفاقی شعر میں خراجِ تحسین پیش کر ہی دیا گیا ہے ۔
محبت مجھے ان جوانوں سے ہے
ستارو ں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
انسان غلطی اور نسیان سے بعید کی کوئی چیز نہیں ہے ۔ لہٰذا معمولی مسائل پر نظرِ ثانی کی ضرورت ہے جس کی امید ’’ خان پو ر کااَدب ‘‘ سے جڑے ہر فرد سے لگائی جانی چاہیے اور مل جل کر ایسا ماحو ل فراہم کرنا چاہیے کہ آئندہ خواہ ادب کے موجودہ خدمت گار ہوں یا نئے جیالے ان سب کو ایسے مسائل کا سامنا نہ رہے ۔ جیسا محمد یوسف وحید کو رہا ہے اور یہ بات قطعاً بعید از قیاس نہیں ہے کیونکہ یہ اعتراف تو ایک تاریخ بنا چکا ہے ناکہ
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی
بہر حال محمد یوسف وحید کو یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے گمنام یا عدیم الفرصت ادیبوں ، شاعروں اور علمی ، ادبی ، تحقیقی لوگوں سے رابطے میں گرم سرد کی پرواہ کیے بغیر نہایت جاں فشانی سے اپنا کام نہایت خوش اُسلوبی سے سر انجام دیا ہے ۔
ہاں اگر مندرجہ ذیل باتوں کا خیال رکھ لیا جاتا یا رکھ لیا جائے تو بہتری یقینی ثابت ہوگی ۔
٭ کتاب کے سرورق پرکسی کی تصویر نہ ہوتی یا پھر سب کی تصویریں ہوتیں ۔
٭ کمپوزنگ پر مزید توجہ درکار تھی اور ہے ۔
٭ لوگوں کو ان کے ادبی قد کاٹھ کے مطابق نمائندگی زیرِ غور رہنی چاہیے تھی ۔
٭ جولوگ تذکرے سے رہ گئے ہیں ، سب یا زیادہ سے زیادہ شامل ہوجاتے تو بہتر ہوتا ۔
٭ شاعری کا انتخاب ، وزن ، بحر اور دیگر اُمور کی پاسداری سے ہونا چاہیے ۔
٭ مضامین اور دیگر تحریرو ں کے بارے فکر مند نہ ہواجائے بلکہ وہی نوٹ لکھ دیا جائے کہ مدیر
اور ادارے کا مضمون نگار کی رائے سے متفق ہونا ضرور ی نہیں ہے ۔
٭ املا ء اور تحریری حُسن کا اہتمام زیرِ غور رہنا چاہیے۔
٭ ترتیب کے باریک مسائل بھی حل کرنے کی ضرورت ہے ۔
٭ تجربہ کار احباب کی معاونت سے بہتر سے بہتر کا سفر آسان ہوسکتا ہے ۔
٭ ملکی اور بین الاقوامی ادارتی کاوشوں کو مشعلِ راہ بنایا جائے ۔
٭ تعمیری تنقید کو خوش آمدید کہاجائے اور برداشت پیدا کی جائے۔
ہم سب کی رائے کا احترام کرتے ہیں اور تصوف کے چسکے بلکہ تڑکے کے سبب سب کو خو دسے بہتر مانتے ہیں ۔ پیشہ ورانہ مصروفیت اور غمِ جان اور غمِ جاناں کے ساتھ ساتھ پالتو دکھوں کی خوں یاری کا بھی دھیان رکھنا ہے ۔
محمد یوسف وحید کے لیے بھی اور ادبی زبوں حالی کے لیے بھی بہت کچھ دل و دماغ میں رکھتے ہیں ۔ کاش کوئی معجزہ ہوجائے اور ہم وقت کے ساتھ ساتھ چلنا سیکھ جائیں ۔ آپ کی نذر حضرت ساغر صدیقی کا ایک شعر کرتے ہوئے اجازت چاہتے ہیں ۔
اے یار تیرے غم سے فرصت ملی اگر…..تبدیلیاں کروں گا اس عالمِ کہن میں
٭٭٭