عزیز دوستوں! رمضان کا مبارک مہینہ سایہ فگن ہو چکا ہے ۔ ایسے میں ہر سوں عبادتوں کا اہتمام ہماری نظروں کے سامنے عیاں ہے۔ کہیں درس و دروس کی محفلیں ہیں تو کہیں تراویح کا بہترین انتظام، کہیں مساجد میں نئی قالینیں ڈالی جا رہی ہیں تو کہیں کرونا وائرس کی وجہ سے آن لائن اجتماعات کا اہتمام، کوئی شخص دن بھر خود کو مسجد کی چار دیواری میں قید کر بیٹھا ہے تو کسی کو اس رمضان قرآن کئی دفع مکمل کرنے کی جستجو، کہیں گھروں میں تہجد کا اجتماعی اہتمام ہیں تو کہیں ذکر و اذکار کی محفلیں ۔ الحمدللہ امت ہر صورت خود کو بخشوانے میں اور اللّٰہ کی رضا کی طلب میں کچھ نہ کچھ عبادتوں میں مشغول ہیں۔ میرے دوستوں! یہ محفلیں، یہ رونقیں، یہ ذکر و اذکار کی روحانی مجلسیں، یہ نمازوں کا اہتمام و قرآن مکمل کرنے کی جستجو بدستور جاری ہیں۔ یقیناً یہ رمضان کا حق ہے۔ رمضان عبادتوں کا مہینہ ہے ۔ مگر کیا کبھی آپ نے سوچا کہ صرف نماز، روزہ، تلاوت، مساجد کا چندہ ہی عبادت ہے؟ ہم میں سے ہر کسی نے یہ حدیث پڑھیں و سنیں ہیں کہ
"وہ شخص مسلمان نہیں ہوسکتا جو خود پیٹ بھر کر کھانا کھائے اور اس کا پڑوسی بھوکا سوجائے"۔
آپ پنچ وقتہ نمازی، زکوٰۃ کے عادی ، قرآن کے قاری ، لباس و ظاہر میں سنت کی تصویر سب کچھ ہے مگر اپنے بھوکے پڑوسی کا خیال نہیں ، اس کے بھوکے بچوں کا حال معلوم نہیں تو یہ عبادتیں آپ کے منہ پر پھینک دی جائے گی اور دفع کر دیا جائے گا۔
اس معاشرے کے دو پہلوں ہیں کہ شہر میں ایک جانب کئی لوگ بھوکے سوتے ہیں تو کہیں کئی لوگ رات کا کھانا کچرے میں ڈال دیتے ہیں ۔ کہیں یہ حال ہے کہ غریب بھوک سے نڈھال ہے تو کہیں امیروں کے کتے بھی ہزاروں روپیوں کی ڈشیس کھا رہے ہوتے ہیں۔ اندر مسجد میں درس و دروس کی محفلیں ہو رہی ہے تو باہر فقیر کا بچہ اس آس امید سے بیٹھا ہے کہ جب یہ محفل ختم ہو تو میری بھوک مٹے۔
میرے دوستوں لفظ انسان انسانیت سکھاتا ہے۔ اور اسلام کا یہ خاصہ رہا ہے کہ یہ وہ واحد مذہب ہے جس نے مخلوق کی خدمت کو خالق کی خدمت قرار دیا ہے ۔ اسلام ضابطہ حیات عطا کرتا ہے ۔ یہ وہ دن ہے جو انسان کو پستیوں سے نکال کر بلندیوں کی طرف گامزن کرتا ہے ۔ یہ ایک ایسے معاشرے کا مدعی ہے جو برائیوں و بے حیائیوں سے پاک ہے ۔ جہاں کبھی کوئی بھوکا نہ سوئے ، جہاں امیر غریب پر ظلم نہ کرے ، جہاں گورے کو کالے پر کوئی فضیلت نہ ہو ، جہاں افضلیت کا مقام صرف تقویٰ پر ہو ۔
میرے دوستوں یہ رمضان یہی تو سکھانے آتا ہے ۔ یہ ان بھوکوں کی بھوک یاد دلانے آتا ہے جن کے ماہِ رمضان میں روزے ہوتے ہیں اور دیگر ماہ میں فاقے ۔ یہ ان کی غمگساری سکھاتا ہے جنھیں دنیا نے جھڑک دیا ۔ یہ انسانوں کو انسانیت سے ملاتا ہے اور میدانِ عمل میں ایک مسلم کو حقیقی مومن بناتا ہے ۔ یہ روح کو پاک کرتا ہے ، غرور کو ختم کرتا ہے ، دلوں میں نور عطا کرتا ہے اور شخصیت کو پایہ کی بلندی سے نوازتا ہے ۔ مگر سوال یہ ہے کہ کون ہے وہ خوش نصیب اشخاص جنھیں یہ سب نصیب ہوتا ہے ؟ تو یقین جانے یہ وہ لوگ ہے جو جب دستر خوان پر بیٹھتے ہیں تو انھیں وہ دستر خوان بھی یاد آتا ہے جسے دیکھ کر منہ کی بجائے آنکھوں میں پانی آتا ہے ۔ یہ جب سڑکوں ،چوراہوں سے گزرتے ہیں تو یہ مہنگی گاڑیوں کا رعب محسوس کرنے کی بجائے سڑک کنارے بیٹھے غریب کا درد محسوس کرتے ہیں ۔ یہ جب مسجدوں میں ہوتے ہیں خدا سے اپنے لیے مانگنے کے ساتھ ساتھ ان کو کبھی نہیں بھولتے جو حقیقی دعا کے مستحق ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنھیں ناموں کی بجائے کاموں کی فکر لگی ہوتی ہیں ۔ اور یہی وہ چند قلوب ہیں جنھیں خالق عالمِ انسانیت و امتِ مسلمہ کی خدمت کے لیے نامزد کرتا ہے ۔
عزیز دوستوں یاد رکھے اس ماہِ صیام ان گھروں کو جو آپ کی مدد کے منتظر ہیں ، ان اشخاص کو جنھیں آپ کی ہمدردی مطلوب ہیں ، اور بھرپور تعاون کریں ان تنظیموں و جماعتوں کا جو خلقِ خدا کی خدمت میں جٹی ہوئی ہیں ۔ اپنے دل و دماغ سے مسلک فرقے کے فرق کو نکال پھینکیے اور ایک جٹ ہو کر عالمِ انسانیت کی خدمت کے لیے کوٗشاں ہوجائیے کیونکہ ۔۔۔
"تم وہ بہترین امت ہو جو خلقِ خدا کے لیے نکالی گئی ہو " .
اس ماہِ صیام عزم کریں کہ جس طرح میرا رمضان عبادتوں میں گزرا بقیہ مہینے بھی عبادتوں سے پر ہوگے ، بقیہ مہینوں میں بھی مسجدیں آباد ، دل شاد اور ذہن کشادہ ہوگے ۔ جس طرح ماہِ صیام میں خدمتِ خلق کا جذبہ لبریز تھا اسی طرح دیگر مہینوں میں بھی یہ جذبہ ہمیشہ خدمت کے لیے حاضر ہوگا ۔ کیونکہ ۔۔۔۔
تو مردِ مسلماں ہے پیغامِ عمل دے
اٹھ اور زمانے کے مقدر کو بدل دے
ایم بی بی ایس 2024 میں داخلہ لینے والی طلباء کی حوصلہ افزائی
پروفیسر صالحہ رشید ، سابق صدر شعبہ عربی و فارسی ، الہ آباد یونیورسٹی نے گذشتہ ۳۱؍ دسمبر ۲۰۲۴ء کو...