’’میں باپ ھوں کسی اور کا۔۔۔“
بیگم صوفے پر بیٹھی ٹی وی دیکھ رہی تھی۔ کل ہی ایک کتاب میں پڑھا تھا کہ میاں بیوی میں دلچسپیاں اور مشاغل مشترک ہوں تویہ امر باہم ازدواجی محبت میں استحکام کا باعث ہوتا ہے۔ میں دھیرے سے اس کے پاس جا بیٹھا ۔ اس نے ریموٹ میر ے ہاتھ میں تھمایا اور اٹھ کر جانے لگی کہ میں خبریں یا کوئی ٹاک شو دیکھوں گا۔ میں نے اس کا بازو پکڑ کر اسے ساتھ بٹھا لیا اور ریموٹ واپس اس کی گود میں پھینک دیا۔
"کیا دیکھ رہی ہو ؟ میں بھی دیکھوں گا۔"
اس نے چونک کر حیرت سے میری جانب دیکھا، "آپ دیکھیں گے؟ یہ پاکستانی ڈرامہ ہے!"
"کیوں بھئی، میں کیوں نہ دیکھوں گا پاکستانی ڈرامہ؟ تم دیکھتی ہو تو ہم بھی دیکھیں گے۔"
خاموشی۔ ۔ ۔ سکرین پر ایک نوجوان ایک دوشیزہ کو اپنی محبت کا یقین دلا رہا تھا۔
پھر میں بولا، "یہ ایک دوسرے سے پیار کرتے ہیں ؟"
بیگم نے جواب دیا، "ہاں۔"
"لیکن کل تو یہی لڑکی اسی لڑکے سے کہہ رہی تھی کہ تم نے میری زندگی تباہ کر ڈالی ہے۔ وہ کیوں بھلا ؟"
"وہ دوسرا ڈرامہ تھا۔ "
" لیکن اس میں بھی تو یہی دونوں لڑکا لڑکی تھے ؟"
"ہاں۔"
"اچھا ؟ کیا نام ہے اس ڈرامے کا ؟"
"میں باپ ہوں کسی اور کا ۔ ۔ ۔ "
میں نے مڑ کر بیگم کے چہرے پر نظر ڈالی۔ اس کا چہرہ سپاٹ تھا اور اس کی نگاہیں سکرین پر مرکوز تھیں۔
"اور اس کل والے ڈرامے کا کیا نام تھا ؟"
"میں ماں نہیں بنوں گی۔"
ایک قہقہہ پیٹ سے ابھرا اور حلق سے ہوتا ہوا قریب تھا کہ فضا میں پھیل جاتا لیکن بیگم کے چہرے پرعیاں انہماک نے اسے ہونٹوں کے پیچھے ہی کچل دیا۔
"میں ماں نہیں بنوں گی ؟ واقعی یہ ڈرامے کا نام ہے ؟ سیریئسلی ؟"
"کیوں ؟"
پچیس سال کی ازدواجی زندگی نے ایک بات سمجھا دی تھی کہ اس لہجے میں بیگم کا یہ مختصر ترین سوال مانو جیسے توپ کا دہانہ ہے جس کا فیتہ سلگ رہا ہو۔ میں کہانی کی جانب متوجہ ہوا۔
"یہ وہی ڈرامہ ہے نا جس میں یہ لڑکی دو بھائیوں سے پیار کرتی ہے ؟"
"نہیں ، وہ دوسرا ڈرامہ ہے۔ اس میں یہ ایک اور لڑکے کی بیوی ہے۔"
"اگر یہ کسی اور لڑکے کی بیوی ہے تو یہ لڑکا اس سے کیوں عشق جھاڑ رہا ہے ؟"
یہ اس لڑکی کا کزن ہے اور اسے اپنے شوہر سے طلاق لے کر اس سے شادی کا کہہ رہا ہے۔"
"ہاں ، ہاں ، وہی جس میں اس لڑکی کی ساس دروازے کی اوٹ سے ان کی باتیں سن رہی تھی؟"
"نہیں وہ دوسرا ڈرامہ تھا جس میں اس لڑکی کی ماں اسے ایک بھائی سے طلاق لے کر دوسرے بھائی سے شادی کرانا چاہتی ہے۔"
"وہ کون سا ڈرامہ تھا؟"
" وہ عشقِ مشکوک تھا۔"
" جس میں لڑکی کا باپ اسے اسلام کے بارے میں لیکچر دے رہا تھا ؟ وہی نا ؟"
" وہ لڑکی کا باپ نہیں تھا ۔وہ مولوی تھا جو حلالہ کے لئے اپنی خدمات پیش کر رہا تھا ۔"
"حلالہ ؟ وہ کیوں بھلا ؟"
"وہ دراصل اس لڑکے نے غصّے میں اپنی بیوی کو طلاق دے دی تھی۔"
"کیوں؟"
"اسےشک تھا کہ ان کا جو بچّہ ہے وہ اس کا نہیں ہے۔"
"اچھا ، اچھا۔۔۔ اور بچّے کا ڈی این اے ٹیسٹ ٹھیک نہیں آتا ؟"
"نہیں بھئی۔ ۔ ۔ وہ ایک اور ڈرامہ تھا۔"
میں نے ڈرتے ڈرتے پوچھا، " اس ڈرامے کا کیا نام تھا ؟"
"میں کس کی اولاد ہوں ؟"
میرا کلیجہ حلق کو آگیا۔
"پھر وہ بچّہ کس کا تھا ؟"
" اس لڑکی کی بہن کا تھا جو اپنے شوہر کے ساتھ ایک فضائی حادثے میں مر گئی تھی۔"
" اور اس لڑکی کے شوہر کو پتہ ہی نہ چلا کہ یہ بچّہ ہم دونوں کا نہیں ہے؟"
"ہاں اسے پتہ نہیں چلا۔ کیونکہ لڑکی کی ماں لڑکی کو اپنے ساتھ چھ سات مہینے کے لئے مری چلی جاتی ہے۔ اب سمجھ آئی سٹوری آپ کو ؟"
میں نے تیزی سے اثبات میں سر ہلادیا۔
" یہ وہی بچّہ تھا نا جسے لڑکے کے کزن نے پیسوں کے لئے اغوا کر لیا تھا ؟"
"افوہ ! وہ ایک اور ڈرامہ تھا ۔"
میری بیگم عقل مند خاتون ہے۔ میں نے منہ کھولا ہی تھا کہ وہ فوراً بھانپ گئی کہ میرا اگلا سوال کیا ہو گا۔
" اس ڈرامے کا نام تھا تاوانِ محبت!"
"پھر کیا وہ بچّہ مل گیا ؟"
"ہاں ، اسے اس لڑکے کی ایک یونیورسٹی کی دوست نے اغوا کرایا تھا جس کی اولاد نہیں ہوتی تھی۔"
"تو اس یونیورسٹی کی دوست کے شوہر نے نہیں پوچھا کہ یہ بچّہ کہاں سے آیا ہے ؟"
"وہ دراصل شادی شدہ نہیں تھی۔ بس اسے بچّے اچھے لگتے ہیں۔"
"اور بچّے کے باپ کا کزن جس نے بچّے کو اغوا کیا تھا ؟"
"وہ اس یونیورسٹی والی دوست کا عاشق تھا اور اس سے شادی کرنا چاہتا تھا۔"
" تو پھر مسئلہ کیا تھا؟"
" اسے بچّے اچھے نہیں لگتے تھے۔"
"اوہ یہ تو میں نے شائد دیکھا ہے۔ پولیس کے چھاپے میں اس کزن کو گولی لگ جاتی ہے؟ اور پھر بچّے کی ماں اسے خون دیتی ہے؟ کچھ ایسا ہی تھا نا ؟ "
بیگم خاموشی سے مجھے تکتی ہے، پھر دھیرے سے بولتی ہے، "وہ ڈرامہ نہیں تھا۔ "
"تو پھرکیا تھا ؟"
"وہ کراچی میں جرائم پر مبنی پروگرام تھا، کرمینلز موسٹ وانٹد!"
پھر بیگم نے ریموٹ میرے ہاتھ میں تھمایا اور بولی، "یہ لیں۔ آپ کا پسندیدہ ٹاک شو ' ذرا پھٹ کے' لگنے لگا ہے۔"
جاتے جاتے اس نے میرا گال سہلایا اور متفکرانہ لہجے میں بولی، "آپ کا چہرہ تپ رہا ہے۔ آپ کو بخار تو نہیں ہو رہا؟"
تحریر : شوکت نواز نیازی
2 ستمبر2018
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔