فرانسیسی ناول نگار رینے گوسینی Réné Goscinny کے ناول Petit Nicholas کے ترجمے "ننھّا نصیر" کا ایک باب
کل تک تو میں بھلا چنگا تھا جس کا ثبوت یہ ہے کہ میں نے سارا دن ڈھیر ساری ٹافیاں، چاکلیٹ، پیسٹریاں، بسکٹ، فرائی چپس اور آئس کریم کھائی اور پھر نجانے کیوں اچانک رات کو بیٹھے بیٹھے بلا وجہ ہی میں بیمار پڑ گیا۔
صبح ڈاکٹر صاحب آئے۔ وہ جیسے ہی میرے کمرے میں داخل ہوئے میں رونے لگا۔ کوئی اور وجہ تو نہ تھی بس یونہی عادتاً رونے لگا حالانکہ میں انہیں جانتا ہوں اور وہ بہت ہی اچھے ہیں۔ اور پھر مجھے اس وقت بھی اچھا لگتا ہے جب وہ اپنا کان میرے سینے سے لگاتے ہیں اور مجھے اپنی ناک کے عین نیچے ان کا گنجا سر دکھائی دیتا جو روشنی میں چمکتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب زیادہ دیر نہیں بیٹھے۔ انہوں نے میرے گال پر پیار سے ایک چپت لگائی اور اماّں سے بولے، "اس کے کھانے پینے پر ذرا دھیان رکھیں ، کوئی الٹی سیدھی چیز نہ کھائےاور ہاں، یہ بستر میں ہی رہے۔ اسے آرام کی ضرورت ہے۔" یہ کہہ کر وہ چلے گئے۔
امّاں نے کہا، "سنا تم نے ڈاکٹر صاحب نے کیا کہا ؟ اب تم احتیاط سے رہنا اور میری بات ماننا !" میں نے امّاں سے کہا کہ انہیں پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ یہ سچ ہے کہ مجھے اپنی امّاں بہت اچھی لگتی ہیں اور میں ان کی ہر بات مانتا ہوں۔ بات تو خیر ماننا ہی پڑتی ہے ورنہ نئی نئی کہانیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔
میں نے ایک کتاب اٹھائی اور پڑھنے لگا۔ بہت اچھی کتاب تھی اور اس میں تصویریں بھی تھیں۔ یہ ایک چھوٹے سے بھالو کی کہانی تھی جو جنگل میں گم جاتا ہے اور پھروہاں شکاری آ جاتے ہیں۔ ویسے تو مجھے کاؤبوائے کی کہانیاں زیادہ پسند ہیں لیکن خالہ پروین میری ہر سالگرہ پر مجھے چھوٹے بھالوؤں، چھوٹے خرگوشوں، چھوٹی بلیّوں اور ہر قسم کے چھوٹے جانوروں کی تصویروں والی کتابیں لا دیتی تھیں۔ لگتا ہے خالہ پروین کو چھوٹے جانوروں والی کتابیں اچھی لگتی ہیں۔
میں ابھی اس صفحے تک ہی پہنچا تھا جب ایک گندا بھیڑیا چھوٹے بھالو کو کھانے لگا تھا کہ امّاں اندر داخل ہوئیں۔ ان کے ساتھ اصغر تھا۔ اصغر میرا دوست ہے جو بہت موٹا ہے اور ہر وقت کھاتا رہتا ہے۔ امّاں بولیں، "دیکھو، نصیر، تمہارا دوست اصغر تمہیں ملنے آیا ہے۔ کتنی اچھی بات ہے !" میں نے کہا۔ "واہ، تم تو واقعی بہت زبردست دوست ہو !" امّاں مجھے کہنے ہی لگی تھیں کہ ہر وقت ہر چیز کو "زبردست "نہیں کہنا چاہئے لیکن اچانک ان کی نگاہ اصغر کی بغل میں دابے ایک ڈبّے پر پڑی۔ وہ بولیں، "یہ کیا ہے، اصغر ؟" اصغر نے جواب دیا، "چاکلیٹ۔" اس پر امّاں نے اصغر کو بتایا کہ چاکلیٹ لانے کا بہت شکریہ لیکن میں اس وقت چاکلیٹ نہیں کھا سکتا کیونکہ مجھے ڈاکٹر صاحب نے منع کر رکھا ہے۔ اصغر نے امّاں کو بتایا کہ وہ یہ چاکلیٹ میرے لئے نہیں لایا، یہ تو خود اس کے کھانے کے لئے ہیں اور اگر میرا چاکلیٹ کھانے کا جی چاہ رہا ہے تو میں خود بازار جا کر خرید لوں اور آخر میں یہ کہ وہ مذاق نہیں کر رہا۔ امّاں نے حیرت سے اصغر کو دیکھا اور پھر ایک گہری سانس لینے کے بعد ہمیں کوئی شرارت نہ کرنے کا کہہ کر وہ باہر چلی گئیں۔ اصغر میرے بستر کے قریب بیٹھ گیا اور خاموشی سے مجھے دیکھتا رہا اور اپنی چاکلیٹ کھاتا رہا۔ میرا بھی بہت جی چاہ رہا تھا۔ میں نے اصغر سے کہا، "اصغر، مجھے چاکلیٹ نہیں دو گے ؟" اصغر نے جواب دیا، "تم بیمار نہیں ہو ؟" میں نے کہا، "اصغر، اچھا تو تم زبردست دوست نہیں ہو !" اصغر نے کہا کہ مجھے ہر وقت ہر چیز کو "زبردست" نہیں کہنا چاہئے پھر اس نے اکٹھے دو چاکلیٹ اپنے منہ میں ڈال لئے اور ہم گتھم گتھا ہو گئے۔
امّاں بھاگتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئیں۔ وہ خوش دکھائی نہیں دے رہی تھیں۔ انہوں نے ہم دونوں کو چھڑوایا، ہمیں ڈانٹا اور پھر اصغر کو اپنے گھر جانے کا کہا۔ اصغر کو جاتا دیکھ کر مجھے اچھا نہ لگا۔ ہم دونوں خوب مزا کر رہے تھے لیکن میں سمجھ گیا کہ اس موقع پر امّاں سے بحث کرنا مناسب نہ ہو گا۔ وہ ہنسی مذاق کے موڈ میں نہیں تھیں۔ اصغر نے مجھ سے ہاتھ ملایا اور کہا پھر ملیں گے اور چلا گیا۔ مجھے اصغر اچھا لگتا ہے۔ وہ میرا زبردست دوست ہے۔
امّاں نے میرے بستر کی چادریں دیکھیں تو رونے لگیں۔ ہوا کچھ یوں تھا کہ جب ہم دونوں لڑ رہے تھے تو چاکلیٹ کے کچھ داغ چادروں پر لگے تھے، کچھ میرے پاجامے پر اور چاکلیٹ کے کچھ ٹکڑے میرے بالوں میں بھی چپک گئے تھے۔ امّاں نے مجھے کہا کہ میں ناقابلِ برداشت ہوں اور پھر انہوں چادریں بدلیں، مجھے غسلخانے لے گئیں، جہاں انہوں نے صابن سے رگڑ رگڑ میرا سر دھویا، مجھے صاف پاجامہ پہنایا جس پر نیلی دھاریاں بنی تھیں۔ پھر امّاں نے مجھے بستر میں ڈال دیا اور کہا کہ اب میری آواز سنائی نہ دے۔ میں کمرے میں اکیلا رہ گیا اور خاموشی سے دوبارہ چھوٹے بھالو والی اپنی کتاب پڑھنے لگا۔ گندا بھیڑیا چھوٹے بھالو کو کھا نہ پایا تھا کیونکہ ایک شکاری پہنچ گیا تھا جس نے بھیڑئیے کو مار ڈالا ۔ لیکن اب وہاں ایک شیر پہنچ گیا جو بھالو کو کھانا چاہتا تھا اور چھوٹے بھالو کو ابھی شیر دکھائی نہ دیا تھا کیونکہ وہ شہد چاٹنے میں مصروف تھا۔ یہ سب پڑھ کر مجھے بھی بھوک لگنے لگی ۔ میں نے سوچا کہ امّاں کو آواز دوں لیکن میرا دوبارہ ڈانٹ کھانے کا جی نہیں چاہ رہا تھا کیونکہ انہوں نے مجھے کہا تھا کہ انہیں میری آواز سنائی نہ دے۔ اس لئے میں بستر سے اترا کہ دیکھوں تو بھلا کہ کہیں فریج میں کوئی مزے کی چیز پڑی ہے یا نہیں۔
فریج میں بہت سی مزے مزے کی چیزیں پڑی تھیں۔ ہمارے گھر میں کھانے کو بہت اچھی اچھی چیزیں ہوتی ہیں۔ میں نے مرغی کی بھنی ایک ٹانگ اٹھائی، مرغی کی ٹانگ ٹھنڈی بھی اچھی لگتی ہے، ایک کریم والا کیک اٹھایا، چار پانچ بسکٹ اور دودھ کی بوتل اٹھائی۔ "نصیر !" یکایک مجھے اپنے پیچھے سے آواز سنائی دی۔ سب چیزیں میرے ہاتھ سے چھوٹ گئیں۔ یہ امّاں تھیں جو باورچی خانے میں آئیں تھیں اور انہیں یقیناً مجھے یہاں دیکھ کر حیرت ہوئی ہو گی۔ میں رونے لگا۔ کوئی خاص وجہ تو نہ تھی بس امّاں نجانے کیوں کچھ زیادہ ہی غصّے میں لگ رہی تھیں۔ لیکن امّاں نے مجھے کچھ نہ کہا، وہ مجھے دوبارہ غسلخانے میں لے گئیں جہاں انہوں نے صابن سے رگڑ رگڑ میرا سر دھویا، مجھے صاف پاجامہ پہنایا کیونکہ جو پاجامہ میں پہنے تھا اس پر دودھ کے چھینٹے اور کریم والے کیک کی کریم کے دھّبے پڑ گئے تھے۔ امّاں نے مجھے لال چوکھٹوں والا پاجامہ پہنایا اور مجھے فوراً بستر میں لیٹنے کا کہا کیونکہ ان انہیں باورچی خانے کے فرش سے بسکٹ اور دودھ صاف کرنا تھا۔
میں جب واپس اپنے بستر میں جا کر لیٹا تو میرا دوبارہ سے چھوٹے بھالو والی کتاب پڑھنے کا جی نہ چاہ رہا تھا جسے سبھی کھانے کی کوشش کر رہے تھے۔ اب میں اس بھالو سے زِچ ہو رہا تھا جو مجھے الٹی سیدھی حرکتیں کرنے پر مجبور کر رہا تھا۔ لیکن یوں بیکار بستر میں لیٹنے سے میں بیزار ہو رہا تھا تو میں نے تصویریں بنانے کا سوچا۔ میں ابّا کے میز کے دراز میں تصویریں بنانے کی چیزیں ڈھونڈنے پہنچا۔ دراز میں بہت سے صاف اور نفیس کاغذ پڑے تھے جن پر ایک کونے میں ابّا کا نام سنہری حروف میں لکھا تھا۔ لیکن میں ان کاغذوں پر ڈرائینگ نہیں کرنا چاہتا تھا کیونکہ مجھے یقین تھا کہ ابّا ڈانٹیں گے۔ میں نے صرف وہ صفحات اٹھائے جن کی ایک جانب کچھ لکھا تھا اور دوسری جانب کچھ نہ لکھا تھا کیونکہ یقیناً اب تو یہ کسی کے کام کے نہ ہوں گے۔ اس کے ساتھ ہی میں ابّا کا پرانا قلم بھی اٹھا لیا۔ اس میں بھی کوئی خطرہ نہ تھا۔
میں پھرتی سے بھاگتا اپنے کمرے میں پہنچا اور بستر میں گھس گیا۔ میں ان کاغذات پر زبردست تصویریں بنانے لگا۔ جنگی بحری جہاز جو اپنی توپوں سے آسمان پر اڑتے ہوئے جنگی ہوائی جہازوں سے لڑ رہے تھے۔۔۔ بڑے بڑے قلعوں میں بہت سارے سپاہی حملہ کر رہے تھے اور قلعوں کی دیواروں پر بھی بہت سے سپاہی تھے جو حملہ کرنے والوں کو روکنے کے لئے ان پر مختلف چیزیں پھینک رہے تھے۔ چونکہ میرے کمرے میں کافی دیر سے خاموشی طاری تھی اس لئے امّاں پریشان ہو کر اندر آئیں کہ دیکھیں کیا ماجرا ہے۔ وہ ایک مرتبہ پھر سے چیخنے لگیں۔ اب مجھے کیا معلوم کہ ابّا کے پرانے قلم سے سیاہی بہتی تھی اور اسی لئے ابّا اسے استعمال نہ کرتے تھے۔ سیاہی کے بڑے بڑے دھبّے توپوں کے دھماکوں کا دھواں بنانے میں تو بہت کارآمد رہے لیکن ساتھ ہی ساتھ بستر کی چادر اور تکیے پر بھی سیاہی کے داغ لگ گئے۔ امّاں پھر سے خفا ہو گئیں لیکن اب وہ سیاہی کے علاوہ کاغذات پر بھی ناراض تھیں کیونکہ وہ کاغذات جن کی دوسری طرف کچھ لکھا تھا وہ ابّا کا ضروری کاغذ تھے۔ مجھے کیا معلوم ۔
امّاں نے مجھے اٹھایا، بستر کی چادریں اور تکیے کا غلاف بدلا، مجھے غسلخانے لے گئیں، جہاں انہوں نے باقی بچے ہوئے صابن سے رگڑ رگڑ میرا سر دھویا، اور اس کے بعد مجھے ابّا کی ایک پرانی قمیض پہنا دی کیونکہ میرے اپنے دھلے ہوئے پاجامے سب ختم ہو چکے تھے۔
شام کو ڈاکٹر صاحب میرے سینے پر اپنا کان رکھنے آئے، میں نے انہیں زبان نکال کر دکھائی، انہوں نے میرے گال پر پیار سے ایک چپت رسید کی اور مجھے کہا کہ میں اب بالکل ٹھیک ہو چکا ہوں اور اب میں بستر سے اٹھ سکتا ہوں۔
لیکن آج تو شاید بیماری نے ہمارا گھر ہی دیکھ لیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا امّاں کی طبیعت ٹھیک نہیں لگتی اور انہوں نے امّاں کو بستر میں آرام کرنے اور کھانے پینے میں دھیان کرنے کا کہا۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...