پنجابی زبان کا معیاری لہجہ کون سا ؟
ماہرلسانیات عامرظہیربھٹی سے مکالمہ :
چند روز قبل ماہرلسانیات عامر ظہیربھٹی صاحب نے اسلام آباد سے رابطہ کرکے پنجاب کے معیاری لہجے بارے سوچوں کو جھنجھوڑ دینے والے سوالات اٹھائے اورپنجابی قوم پرست دوستوں کو اس بارے وچار کی دعوت دی ۔ عامر بھٹی سے ہونے والا مکالمہ بڑا دلچسپ اور ہمہ جہت تھا۔ مجھے اس بات کا اعتراف ہے کہ پنجاب کے بگڑتے ہوئے لسانی نقشے کے حوالے سے میں نے صورتحال کے اس پہلو پر کبھی غور نہیں کیا تھا اگرچہ میں اس امر پر زور دیتا آیا ہوں کہ پنجابی کے تمام لہجوں کو یکجا کرکے ایک معیاری لہجہ اپنایا جائے ۔ پھر پنجابی سکرپٹ اسی لہجے میں لکھا جائے ورنہ موجودہ پیچیدہ صورتحال میں جبکہ پنجاب اپنا لسانی اور قومیتی تشخص کھو چکا ہے تو ایسے میں پنجاب کے ہمسایہ صوبوں کے سیاستدان اور دانشورسیاسی فائدہ اٹھاتے ہوئے پنجابی کے مختلف لہجوں کو الگ الگ زبان قرار دینے یا تاثر دینے کی سرتوڑ کوشش کررہے ہیں تاکہ پنجاب کا سائز چھوٹا کرکے چھوٹے صوبوں کی حکمرانی کو مستقل دوام بخش دیا جائے ۔ پنجابی قوم پرستوں کو اس چیلنج کا سامنا کرنے کے لئے بہت تدبر اور حکمت عملی سے کام لینا ہوگا۔ ایسے میں میرے زہن میں بھی یہی نقطہ آیا ہے کہ پنجابی کے مختلف لہجوں کو اکٹھا کرکے ایک معیاری پنجابی لہجہ بنانا کوہ گراں اٹھانے کے مترادف ہے ۔
عامر ظہیربھٹی جی کی جچی تلی رائے یہ تھی کہ بجائے اس کے کہ ہم ماجھے کے معیاری لہجے یا مشرقی پنجاب کے لیجے کے چکروں میں گرفتارہوں ہمیں سیدھےسبھاؤ ملتانی کو پنجابی کا معیاری لہجہ اپنا لینا چاہئے اور ملتانی ہی میں پنجابی کو لکھنا چاہئے جو کہ آسان ہے ۔ اس سے سرائکی اور پنجابی کا مصنوعی فرق اور سیاسی گیم اپنی موت آپ مرجائے گا۔ دیکھا جائے تو اس بات میں بڑا وزن ہے کہ پنجاب کا قدیم لہجہ ہی ملتانی ہے۔ لاہور کا موجودہ لہجہ مغلیہ دور میں نہیں تھا۔ شاہ حسین لاہوری کا کلام اس کی واضح دلیل ہے ۔ وارث شاہ کو لے لیں ۔ وارث شاہ کو سرائکی پنجابی شاعر کہتے ہیں لیکن خود ہیروارث شاہ ماجھی لاہوری لہجےکے کتنے قریب ہے اور ملتانی لہجے کے کتنے ، اس کو سمجھنے کے لئے افلاطون کا فلسفہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ۔
میں نے عامر بھٹی کو جوابی تجویز یہ دی کہ اگر ملتانی کی بجائے جھنگوچی کو پنجابی کا معیاری لہجہ مان لیا جائے اور اس پر تمام پنجابی دانشور اورقوم پرست متفق ہوجائیں تو کیا بہتر نہیں ہوگا کیونکہ جھنگوچی پنجاب کا ایک بڑا لہجہ ہے جو خانیوال سے شمال میں منڈی بہاؤالدین ، مغرب میں سرگودھا ، مشرق میں اوکاڑہ اور بہاولنگر تک جاتا ہے۔ پنجاب کا زیادہ تر کلاسک جھنگوچی لہجے ہی میں ہے ۔وارث شاہ ، سلطان باہو، وغیرہ وغیرہ ۔ سب سے زیادہ سہولت یہ ہے کہ جھنگوچی لاہوری ماجھی اور ملتانی کے درمیان کا لہجہ ہے جو ایک پل کا کردار ادا کرے گا ۔ بھٹی صاحب نے اس امر سے اختلاف کیا کہ نہیں ملتانی ہی بہتر رہے گا۔ اس بارے میں پنجابی قوم پرست ضرور وچار کریں کہ اگر وہ ماجھے کی بجائے کسی اور لہجے کو معیاری پنجابی قرار دیں گے تو وہ جھنگوچی کو ترجٰیح دیں گے یا ملتانی کو ؟
ایک اور اہم نقطہ جو عامر بھٹی نے اٹھایا وہ پنجاب کے دارالحکومت کی لاہور سے ملتان منتقلی تھی جو ایک صائب تجویز ہے اور پنجاب کی تقیسم کے شوشے کو ہمیشہ کے لئے زندہ درگور کردے گی۔
دئکھا جائے تو تاریخی طور پر لاہور پنجاب کا وسط ہے اور ہندو پاکستان کی تاریخ کا نصف لاہور شہر ہی سے متعلق ہے لیکن تقسیم پنجاب کے بعد لاہور موجودہ پنجاب کا وسط نہں رہا بلکہ انڈین بارڈر پر ایک غیر محفوظ شہر بن گیا ہے ۔
ایک امر یہ بھی ہے کہ موجودہ پنجاب کے دورافتادہ علاقوں سے لاہور کا فاصلہ بہت زیادہ ہے اگر ملتان پنجاب کا دارالحکومت بن جائے تو راجن پور سے لیکر جہلم اور لاہور تک سارے علاقون کو تقریبا اسان رسائی حاصل ہوجائے گی اور جنوبی پنجاب کا سیاسی احساس محرومی بھی ختم ہوجائے گا۔
جوابا میری تجویز یہ تھی کہ ملتان کی بجائے دریائے چناب پر جھنگ اور خانیوال کے درمیان اگر نیا جدید شہر بناکر اس کو پنجاب کا کیپٹل قرار دیا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا کہ اس سے پسماندہ علاقے کو ایک جدید شہر بھی مل جائے گا اورکیپٹل بھی لاہور سے منتقل ہوجائےگا ۔
ہوسکتا ہے کہ بعض دوست اس تجویز کی مخالفت کریں لیکن ہمیں پنجاب کے وسیع تر مفاد میں ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچنا ہوگا۔ ہمیں پنجاب بچانا ہے لاہور کو نہیں ۔ لاہور کو پنجاب دشمنوں نے بدنام کردیا ہے ۔ لاہور پنجاب کا ایک شہر ہے خود پنجاب نہیں ہے۔
میں عامر بھٹی صاحب کی ان تجاویز کی تائید کرتا ہوں اور پنجابی قوم پرستوں کو اس پر غوروفکر کی دعوت دیتا ہوں ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔