چھ سال بعد پنجاب بار کونسل کا الیکشن 2020-25نومبر کی 28تاریخ کو ہونے جارہا ہے ۔ویسے یہ الیکشن ہر 5سال بعد ہوتا ہے مگرموجودہ ممبران پنجاب بار کونسل کی لیگل پریکٹیشنرز اینڈ بار کونسلز ایکٹ 1973میں ترمیم کی وجہ سے انہیں مزید ایک اور سال ملا ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل احمد اویس جوکہ چیئر مین پنجاب بار کونسل بھی ہیںاور اِس الیکشن کے انعقاد کی تیاری بھی ایڈووکیٹ جنرل کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔
ایڈووکیٹ جنرل نے جو الیکشن شیڈول جاری کیا تھااُس کے مطابق امیدواران نے 10 اکتوبر سے 24 اکتوبر تک کاغذات نامزدگی جمع کروائے۔26 اکتوبر کو امیدواروں کی سر سری فہرست جبکہ 29 اکتوبر کو اعتراضات پر سکروٹنی کی گئی اور امیدواروں کے متعلق30 اکتوبر تک اعتراضات واپس لئے گئے پھر3 نومبر کو امیدواروں کی حتمی فہرست جاری گئی ۔ ووٹرز لسٹ کے مطابق پنجاب بھر سے کل ایک لاکھ 26 ہزار679 اہل ووٹرز وکلاء اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے اور یہ کل75 ممبران پنجاب بار کونسل کا انتخاب عمل میں لائیں گے۔
میں اپنے کالم میں صرف لاہور ڈویثرن کی بات کرونگا جہاںکل20 ممبران پنجاب بار کونسل کا انتخاب کیا جائے گا ۔جس میںضلع لاہور کے علاوہ دیگر اضلاع یعنی قصور ، شیخوپورہ، ننکانہ صاحب اور اِن اضلاع کی تحصیلیں چونیاں، پتوکی ،کوٹ رادھا کشن ،فیروزوالہ،شاہکوٹ اور سانگلہ ہل شامل ہیں۔ لاہور کی کل 16 سیٹوں کیلئے 95،قصور کی 2سیٹوں پر11، شیخوپورہ کی 1سیٹ پر 7اورننکانہ صاحب کی ایک سیٹ پر 5امیدواروں کے مابین مقابلہ ہوگا۔الیکشن شیڈول کا پہلا مرحلے مکمل ہوتے ہی امیدواروں نے اپنی انتخابی مہم تیز کردی ہے اور اِس وقت تمام امیدواروں نے لاہور کا رخ کرلیا ہے کیونکہ فیصلہ لاہور کی ووٹوں پر ہی ہونا ہے ۔اِس الیکشن کی خاص بات امیدوار کے علاوہ اُس کا حروف ِ تہجی کے لحاظ سے’’ سیریل نمبر ‘‘بھی ہوتا ہے ۔اِس وقت تمام امیدوار ووٹرز وکلاء کو اپنے نام کے علاوہ اپنا سیریل نمبر بھی یاد کروارہے ہیں ۔
جہاں تک بات ایڈووکیٹ جنرل کی ہے تو انہوں نے اِس دفعہ امیدواروں کیلئے ’’سخت ضابطہ اخلاق‘‘ ترتیب دیا ہے اور وہ اِس پر عمل درآمد بھی کروارہے ہیں کیونکہ پچھلے الیکشن میں ایسا دیکھنے کو نہیں ملا کہ امیدواروں کو اپنا دفتر کے علاوہ ’’الیکشن آفس ‘‘ بنانے کی اجازت نہیں ہے اور بڑے بڑے ’’اشتہاری بورڈ ‘‘لگا نے پر بھی جرمانہ عائدکیا جارہا ہے ۔تاریخ میں پہلی بار امیدواروں کی’’ ڈگریوں‘‘ کی بھی تصدیق کروائی جارہی ہے ۔اِس سلسلہ میں تین سے چار نام ایسے سامنے آئے ہیں جن کی ڈگریاں ’’جعلی ‘‘ہیں اور وہ پنجاب بار کونسل اور لاہور بار ایسوسی ایشن کے عہدیداررہ چکے ہیں اوراِس پر لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے کاروائی اب بھی جاری ہے ۔
اِس وقت ’’بیلٹ پیپر‘‘ کا خاکہ اور’’ پولنگ سکیم‘‘ بھی جاری ہوچکی ہیں ۔اِس بار بیلٹ پیپر پچھلے الیکشن سے باقی مختلف ہے ۔جس میں ووٹرز وکلاء کو اپنے امیدواروں کا نام اور سریل نمبر بیلٹ پیپر پرپین سے خود درج کرنا ہوگا ۔ جس کے مطابق لاہور کے ووٹر زوکلاء کیلئے لاہور ہائیکورٹ میں کل 50 جبکہ قصور میں 5،چونیاں میں 2،پتوکی میں2، کوٹ رادھا کشن میں 1،شیخوپورہ میں 4،فیروزوالہ میں 3،ننکانہ صاحب میں 2،شاہکوٹ میں 1اور سانگلہ ہل میں 1پولنگ بوتھ بنائے گئے ہیں ۔جن میں ووٹرز وکلاء اپنا حق رائے دہی استعمال کرکے نئے ممبران پنجاب بارکونسل کو آئندہ پانچ سال کیلئے منتخب کریں گے۔
باقی ماندہ شیڈول کے مطابق 28 نومبر کو صبح 8:30 سے شام5بجے تک پولنگ ہوگی جس کے بعد پنجاب بار کونسل کی بلڈنگ میں 3 دسمبر کو ووٹوں کی گنتی ہوگی اور8 دسمبر کو پنجاب بار کونسل کے الیکشن کے حتمی نتائج کا اعلان کیا جائے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ وکلاء اِس دفعہ کیسے امیدواروں کا انتخاب عمل میں لاتے ہیں اوراِ س بات کا فیصلہ 28نومبر کی شام کو ’’غیر حتمی نتائج‘‘ سے ہی ہو جائے گا۔
میں ذاتی رائے میں ہم وکلاء کو اب چاہیے کہ ماضی کے تجربات میں کچھ سیکھیں اور ایسے امیدواروں کا انتخاب کرے جن کا تعلق صرف اور صرف ’’وکالت ‘‘ ہو ناکہ وہ ’’بزنس مین‘‘ ہوں۔آخر میں، میںاپنے لئے دعا کرنا چاہوں گا کہ اللہ پاک ہمیں’’ درست فیصلہ‘‘ کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔