آج – 16؍دسمبر 1934
بنارس شہر کے معروف ترین شاعر اور میرے والد ”محمد نورالہدی نوؔر ذبیحی صاحب“ کا یومِ ولادت…
نام محمد نورالہدی اور تخلص نوؔر تھا۔ والد صاحب کے نام کی طرف منسوب کرکے ذبیحی لکھتے تھے۔
ولادت ٨ رمضان المبارک ١٣٥٣ھ مطابق 16؍دسمبر 1934ء کو ہندوستان کے تاریخی شہر بنارس صوبہ اتر پردیش میں ہوئی-
بنارس ہی آپ کا آبائی وطن رہا، آپکے والد بزرگوار کا اسمِ گرامی مولوی محمد اسمٰعیل اور تخلص ذبؔیح تھا۔ جن کا استاذ الشعراء میں شمار کیا جاتا تھا-
مرحوم ذبؔیح صاحب کا سلسلۂ تلمذ حضرتِ امداد حسین رنگیںؔ بنارسی و مولانا عاقلؔ صاحب رامنگری سے ہوتا ہوا میرؔ انیس لکھنوی سے ملتا ہے۔
(موصوف کے بڑے بھائی کہنہ مشق شاعر محمد شمس الضحیٰ شمسؔ ذبیحی بنارسی (100 سال) حال مقیم قصبہ چندیری ضلع اشوک نگر (مدھ پردیش) پیرانہ سالی کے دور سے گزر رہے ہیں۔)
المختصر نورؔ صاحب نے سِن شعوری سے دیکھا کہ گھر کے حالات بہت اچھے نہیں ہیں۔ اسی کے پیشِ نظر آپکی مکمل تعلیم گھر پر ہی ہوئی، لہذا موصوف دن کو کسبِ معاش میں مشغول رہتے، اور رات میں اپنے والدِ بزرگوار سے تعلیم حاصل کرتے-
نیز یومِ اتوار رات 8 بجے سے موصوف کے والدِ محترم کے شاگردوں کی آمد ہوتی تھی جس میں اہلِ سخن اپنے کلام کی اصلاح لیا کرتے تھے، کبھی کبھی اچھی خاصی فلبدیہ محفل ہوجایا کرتی تھی۔
عموماً موصوف کے والد صاحب کبھی آپ سے بھی کوئی مصرع نکلواتے چنانچہ آپ کو مصرع موزوں کرنے کی اچھی مشق پیدا ہوگئی-
نیز شاگردوں کی جو اصلاح ہوا کرتی تھی وہ بھی آپ بغور سناکرتے اسی طرح آپ کو شعر گوئی سے دلچسپی بڑھتی گئی۔
الغرض موصوف کے والد کی سرپرستی میں آپ کے علاقے علوی پورہ بنارس میں ایک ماہانہ طرحی شعری و ادبی تنظیم 15؍مٸی 1947ء کو قائم ہوئی-
جو بزم گلزارِ ادب کے نام سے موسوم ہے۔
حافظ صدیق اللّٰه اکملؔ بنارسی کی وفات کے بعد عمرِ آخر تک آپ مذکورہ بزم کے صدر رہے۔
یکم؍جولائی 2011ء مطابق ٢٩ رجب ١٤٣٢ھ بروز جمعہ صبح 7 بجے آپ اپنے مالکِ حقیقی سے جاملے، تدفین آبائی قبرستان مینا کی تکیہ بنارس میں ہوئی۔
✨ پیشکش : شمیم ریاض
➖➖ ➖➖
معروف شاعر نورؔ ذبیحی بنارسی کی یوم ولادت پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت…
کوئی رہا جہاں میں نہ رہ جائے گا کوئی
اے نوؔر زندگی تو بشکلِ حباب ہے
——–
دیکھیئے بے بسی ذرا دل کے معاملات میں
اہلِ خرد بھی آگئے اہلِ جنوں کی بات میں
——–
آغاز سے ناواقف انجام سے بیگانہ
دیوانے کو کیا کہیئے دیوانہ تو دیوانہ
——–
درد و خلش کسک چبھن نالہ و آہ اشکِ خوں
ایک عجیب لطف ہے ترکِ تعلقات میں
——–
ہنسنے ہنسانے کی بات سے مجھے کیا واسطہ
غم مری میراث بھی غم مری جاگیر بھی
——–
کبھی خاک چھانی زمین کی کبھی داد سیرِ فلک سے لی
مری ساری عمر یون ہی کٹی سفرِ قریب و دراز میں
——–
وقت نے گلچیں کے ہاتھوں قسمتِ گل سونپ دی،
یعنی ہر باغی چمن کا باغباں بنتا گیا
——–
رہے ساری زندگی آئینہ، یہ حیات گزرے نہ راز میں
جو نیاز و ناز میں شب کٹے، تو سحر ہو سوز و گداز میں
——–
ہر بات میں پوشیدہ خرد بھی ہے جنوں بھی
عنوان سے ظاہر ہے کہ افسانہ نیا ہے
——–
جذبات میں جب تک گرمی تھی، چلمن میں نہ لرزس تک آئی
افسوس کہ اب پردہ اُٹھا، جب تابِ نظر ہم کھو بیٹھے
♦️ ➖➖ ➖➖ ♦️
محمد نورالہدی نورؔ ذبیحی
✍️ انتخاب : شمیم ریاض