آج – 24؍مئی 1966
اردو کے نامور ادیب‘ نقاد‘ محقق‘ مترجم‘ مورخ‘ صحافی اور ماہر لسانیات اور شاعر ”علامہ نیازؔ فتح پوری صاحب“ کا یومِ وفات….
نام نیاز محمّد خان اور تخلص نیازؔ تھا۔
28؍دسمبر 1884ء کو فتح پور‘ سہوہ میں پیدا ہوئے۔ 1922ء میں انہوں نے ایک ادبی جریدہ نگار جاری کیا جو تھوڑے ہی عرصے میں اردو میں روشن خیالی کا مظہر بن گیا۔ علامہ نیازؔ فتح پوری قریباً 35 کتابوں کے مصنف تھے جن میں من و یزداں‘ نگارستان‘ شہاب کی سرگزشت‘ جمالستان اور انتقادیات کے نام سرفہرست ہیں۔ اس کے علاوہ ان کی سینکڑوں تحریریں‘ نگار میں شائع ہوئیں جنہوں نے اردو میں نت نئے مباحث کو جنم دیا۔ بھارت نے انہیں ہندوستان کا سب سے بڑا ادبی اعزاز پدمابھوشن عطا کیا تھا۔
24؍مئی 1966ء کو علامہ نیازؔ فتح پوری کراچی میں وفات پاگئے۔ وہ کراچی میں پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔
پیشکش : شمیم ریاض
➖➖ ➖➖
ممتاز ترین شاعر علامہ نیازؔ فتح پوری صاحب کے یومِ وفات پر منتخب اشعار بطور خراجِ عقیدت…
اب ہے نہ کوئی رنج نہ کوئی خوشی مجھے
لائی ہے اِن حدوں پہ مری بے خودی مجھے
———
گھڑی گھڑی نہ ادھر دیکھیے کہ دل پہ مجھے
ہے اختیار پر اتنا بھی اختیار نہیں
———
میں اب تو اے جنوں ترے ہاتھوں سے تنگ ہوں
لاؤں کہاں سے روز گریباں نئے نئے
———
نہ دنیا کا ہوں میں نہ کچھ فکر دیں کا
محبت نے رکھا نہ مجھ کو کہیں کا
———
تم تو ٹھکرا کر گزر جاؤ تمہیں ٹوکے گا کون
میں پڑا ہوں راہ میں تو کیا تمہارا جائے گا
———
آ رہا ہوں دوستو ٹھہرو مگر یہ تو بتاؤ
مجھ کو کس گوشہ سے صحرا کے پکارا جائے ہے
———
اب وہ کیا آئیں گے تم بھی آنکھ جھپکا لو نیازؔ
صبح کا تارہ بھی اب تو جھلملاتا جائے ہے
———
اب یہ حال دل ہے جیسے رکھ کے کانٹوں پر نیازؔ
ریشمی چادر کو بے دردی سے کھینچا جائے ہے
♦️ ➖➖ ➖➖ ♦️
علامہ نیازؔ فتح پوری
✍ انتخاب : شمیم ریاض