فساد میں رنڈیاں بھی لوٹی گئی تھیں….
برحمبوہن کو نسیم جان کا سنگھار دان ہاتھ لگا تھا۔ سنگھار دان کا فریم ہاتھی دانت کا تھا۔ جس میں قد آدم شیشہ جڑا ہوا تھا اور برحمبو ہن کی لڑکیاں باری باری سے شیشے میں اپنا عکس دیکھا کرتی تھیں۔ فریم میں جگہ جگہ تیل، ناخن پالش اور لپ اسٹک کے دھبے تھے جس سے اس کا رنگ مٹ میلا ہو گیا تھا اور برحمبوہن حیران تھا کہ ان دنوں اس کی بیٹیوں کے لچھن عجیب ہو گئے تھے….
یہ لچھن پہلے نہیں تھے…. پہلے بھی وہ بالکنی میں کھڑی رہتی تھیں لیکن انداز یہ نہیں ہوتا تھا…. اب تو چھوٹی بھی چہرے پر اُسی طرح پاﺅڈر تھوپتی تھی اور ہونٹوں پر گاڑھی لپ اسٹک جما کر بالکنی میں ٹھٹھا کرتی تھی۔
آج بھی تینوں کی تینوں بالکنی میں کھڑی آپس میں اسی طرح چہلیں کر رہی تھیں اور برحمبوہن چپ چاپ سڑک پر کھڑا ان کی نقل و حرکت دیکھ رہا تھا۔ یکایک بڑی نے ایک بھرپور انگڑائی لی۔ اس کے جوبن کا اُبھار نمایاں ہو گیا۔ منجھلی نے جھانک کر نیچے دیکھا اور ہاتھ پیچھے کر کے پیٹھ کھجائی۔ پان کی دکان کے قریب کھڑے ایک نوجوان نے مسکرا کر بالکنی کی طرف دیکھا تو چھوٹی نے منجھلی کو کہنی سے ٹھوکا دیا اور پھر تینوں کی تینوں ہنسنے لگیں…. اور برحمبوہن کا دل ایک انجانے خوف سے دھڑکنے لگا…. آخر وہی ہوا جس بات کا ڈر تھا…. آخر وہی ہوا….
یہ خوف برحمبوہن کے دل میں اُسی دن گھر کر گیا تھا جس دن اس نے نسیم جان کا سنگھاردان لوٹا تھا۔ جب بلوائی رنڈے پاڑے میں گھسے تھے کہرام مچ گیا۔ برحمبوہن ور اس کے ساتھی دندناتے ہوئے نسیم جان کے کوٹھے پر چڑھ گئے تھے۔ نسیم جان خوب چیختی چلاتی تھی۔ برحمبوہن جب سنگھاردان لے کر اُترنے لگا تو اس کے پاﺅں سے لپٹ کر گڑ گڑانے لگی تھی۔
”بھیا….یہ موروثی سنگھاردان ہے…. اس کو چھوڑ دو…. بھیا۔“
لیکن برحمبوہن نے اپنے پاﺅں کو زور کا جھٹکا دیا تھا۔
”چل ہٹ……..رنڈی….“
اور وہ چاروں خانے چت گری تھی۔ اس کی ساڑی کمر تک اُٹھ گئی تھی۔ لیکن پھر اس نے فوراً ہی خود کو سنبھالا تھا اور ایک بار پھر برحمبوہن سے لپٹ گئی تھی۔
”بھیا…. یہ میری نانی کی نشانی ہے….بھیا“
اس باربرحمبوہن نے اس کی کمر پر زور کی لات ماری۔ نسیم جان زمین پر دوہری ہو گئی۔ اس کے بلاؤز کے بٹن کھل گئے اور چھاتیاں جھولنے لگیں۔برحمبوہن نے چھرا چمکایا۔
”کاٹ لوں گا۔“
نسیم جان سہم گئی اور دونوں ہاتھوں سے چھاتیوں کو ڈھکتی ہوئی کونے میں دبک گئی۔ برحمبوہن سنگھاردان لئے نیچے اتر گیا۔
برحمبوہن جب اتر رہا تھا تو یہ سوچ کر اس کو لذت ملی کہ سنگھاردان لوٹ کر اس نے نسیم جان کو گویا اس کے خاندانی اثاثے سے محروم کر دیا ہے۔ یقینا یہ موروثی سنگھاردان تھا جس میں اس کی پرنانی اپنا عکس دیکھتی ہو گی۔ پھر اس کی نانی اور اس کی ماں بھی اسی سنگھار دان کے سامنے بن ٹھن کر گاہکوں سے آنکھیں لڑاتی ہو گی۔ برحمبوہن یہ سوچ کر خوش ہونے لگا کہ بھلے ہی نسیم جان اس سے اچھا سنگھار دان خرید لے لیکن یہ موروثی چیز تو اب اُسے ملنے سے رہی…. تب ایک پل کےلئے برحمبوہن کو لگا کہ آگ زنی اور لوٹ مار میں ملوث دوسرے بلوائی بھی یقینا احساس کی اس لذت سے گزر رہے ہوں گے کہ ایک فرقہ کو اس کی وراثت سے محروم کر دینے کی سازش میں وہ پیش پیش ہے۔
برحمبوہن جب گھر پہنچا تو اس کی بیوی کو سنگھاردان بھا گیا۔ شیشہ اس کو دھندلا معلوم ہوا تو وہ بھیگے ہوئے کپڑے سے پونچھنے لگی۔ شیشے میں جگہ جگہ تیل کے گرد آلود دھبے تھے۔ صاف ہونے پر شیشہ جھل مل کر اُٹھا۔ اوربرحمبوہن کی بیوی خوش ہو گئی۔ اس نے گھوم گھوم کر اپنے کو آئینہ میں دیکھا۔ پھر لڑکیاں بھی باری باری سے اپنا عکس دیکھنے لگیں۔
برحمبوہن نے بھی سنگھاردان میں جھانکا تو قد آدم شیشے میں اس کو اپنا عکس مکمل اور دلفریب معلوم ہوا۔ اس کو لگا سنگھاردان میں واقعی ایک خاص بات ہے۔ اس کے جی میں آیا کچھ دیر اپنے آپ کو دیکھے…. لیکن یکایک نسیم جان روتی بلکتی نظر آئی۔
بھیا….سنگھاردان چھوڑدو…. میری پرنانی کی نشانی ہے….بھیا….“
”چل ہٹ رنڈی….“برحمبوہن نے سر کو دو تین جھٹکے دیئے اور سامنے سے ہٹ گیا۔
برحمبوہن نے سنگھاردان اپنے بیڈ روم میں رکھا۔ اب کوئی پرانے سنگھاردان کو پوچھتا نہیں تھا۔ نیا سنگھاردان جیسے سب کا محبوب بن گیا تھا۔ گھر کا ہر فرد خواہ مخواہ ہی آئینے کے سامنے کھڑا رہتا۔ برحمبوہن اکثر سوچتا کہ رنڈی کے سنگھاردان میں آخر کیا اسرار چھپا ہے کہ دیکھنے والا آئینہ سے چپک سا جاتا ہے لڑکیاں جلدی ہٹنے کا نام نہیں لیتی ہیں اور بیوی بھی رہ رہ کر خود کو مختلف زاویوں سے گھورتی رہتی ہے…. یہاں تک کہ خود وہ بھی…. لیکن اس کےلئے دیر تک آئینہ کا سامنا کرنا مشکل ہوتا۔ فوراً ہی نسیم جان رونے بلکنے لگی تھی اور برحمبوہن کے دل و دماغ پر دھواں سا چھانے لگتا تھا۔
برحمبوہن نے محسوس کیا کہ آہستہ آہستہ گھر میں سب کے رنگ ڈھنگ بدلنے لگتے ہیں۔ بیوی اب کولہے مٹکا کر چلتی تھی اور دانتوں میں مسی بھی لگاتی تھی لڑکیاں پاﺅں میں پائل باندھنے لگی تھیں اور نت نئے ڈھنگ سے بناﺅ سنگھار میں لگی رہتی تھیں۔ ٹیکہ، لپ اسٹک اور کاجل کے ساتھ وہ گالوں پر تل بھی بنائیں۔ گھر میں ایک پاندان بھی آگیا تھا اور ہر شام پھول اور گجرے بھی آنے لگے تھے۔ برحمبوہن کی بیوی سرشام پاندان لے کر بیٹھ جاتی چھالیا کترتی اور سب کے سنگ ٹھٹھا کرتی اوربرحمبوہن تماشائی بنا سب کچھ دیکھتا رہتا۔ اس کو حیرت تھی کہ اس کی زبان گنگ کیوں ہو گئی ہے…. وہ کچھ بولتا کیوں نہیں….؟ انہیں تنبیہ کیوں نہیں کرتا؟
ایک دن برحمبوہن اپنے کمرے میں موجود تھا کہ بڑی سنگھاردان کے سامنے آکر کھڑی ہو گئی۔ کچھ دیر اس نے اپنے آپ کو دائیں بائیں دیکھا اور چولی کے بند ڈھیلے کرنے لگی۔ پھر بایاں بازو اُوپر اُٹھایا اور دوسرے ہاتھ کی انگلیوں سے بغل کے بالوں کو چھو کر دیکھا۔ پھر سنگھار دان کی دراز سے لوشن نکال کر بغل میں ملنے لگی۔ برحمبوہن جیسے سکتے میں تھا۔ وہ چپ چاپ بیٹی کی نقل و حرکت دیکھ رہا تھا۔ اتنے میں منجھلی بھی آگئی اور اس کے پیچھے پیچھے چھوٹی بھی۔
”دیدی…. لوشن مجھے بھی دو….“
”کیا کرے گی……..؟“بڑی اترائی
”دیدی یہ باتھ روم لگائے گی……..“چھوٹی بولی
”چل ہٹ……..“ منجھلی نے چھوٹی کے گالوں میں چٹکی لی اور تینوں کی تینوں ہنسنے لگیں۔
برحمبوہن کا دل کسی انجانے خوف سے دھڑکنے لگا…. ان لڑکیوں کے تو سنگھار ہی بدلنے لگے ہیں…. ان کو کمرے میں اپنے باپ کی موجودگی کا بھی خیال نہیں ہے…. تب برحمبوہن اپنی جگہ سے ہٹ کر اس طرح کھڑا ہوا کہ اس کا عکس سنگھاردان میں نظر آنے لگا۔ لیکن لڑکیوں کے رویے میں کوئی فرق نہیں آیا۔ بڑی اسی طرح لوشن ملنے میں منہمک رہی اور دونوں اس کے اغل بغل میں کھڑی دیدے مٹکاتی رہیں۔
برحمبوہن کو محسوس ہوا جیسے گھر میں اب اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔ تب یکایک نسیم جان شیشے میں مسکرائی۔
”گھر میں اب میرا وجود ہے….“
اور برحمبوہن حیران رہ گیا…. اس کو لگا واقعی نسیم جان شیشے میں بند ہو کر چلی آئی ہے اور ایک دن نکلے گی اور گھر کے چپہ چپہ میں پھیل جائے گی۔
برحمبوہن نے کمرے سے نکلناچاہا۔ لیکن اس کے پاﺅں جیسے زمین میں گڑ گئے تھے وہ اپنی جگہ سے ہل نہیں سکا۔ وہ خاموش سنگھار دان کو تکتا رہا اور لڑکیاں ہنستی رہیں…. دفعتاً برحمبوہن کو محسوس ہوا کہ اس طرح ٹھٹھا کرتی لڑکیوں کے درمیان کمرے میں اس وقت ان کا باپ نہیں ایک بھڑوا کھڑا ہے….
برحمبوہن کو اب سنگھاردان سے خوف محسوس ہونے لگا اور نسیم جان اب شیشے میں ہنسنے لگی…. بڑی چوڑیاں کھنکھاتی تو وہ ہنستی…. چھوٹی پائل بجاتی تو وہ ہنستی اور برحمبوہن کو اب….
آج بھی جب وہ بالکنی میں کھڑی ہنس رہی تھیں تو وہ تماشائی بنا سب کچھ دیکھ رہا تھا اور اس کا دل کسی انجانے خوف سے دھڑک رہا تھا۔
برحمبوہن نے محسوس کیا کہ راہ گیر بھی رُک رُک کر بالکنی کی طرف دیکھنے لگے ہیں۔ یکایک پان کی دکان کے قریب کھڑے نوجوان نے کچھ اشارہ کیا۔ جواب میں لڑکیوں نے بھی اشارہ کیا تو نوجوان مسکرانے لگا۔ برحمبوہن کے جی میں آیا کہ وہ نوجوان کا نام پوچھے۔ وہ دوکان کی طرف بڑھا۔ لیکن نزدیک پہنچ کر خاموش رہا۔ دفعتاً اس کو محسوس ہوا کہ وہ نوجوان میں اسی طرح دلچسپی لے رہا ہے جس طر ح لڑکیاں لے رہی ہیں…. تب یہ سوچ کر اس کو حیرت ہوئی کہ وہ اس کا نام کیوں پوچھنا چاہتا ہے….؟ آخر اس کے ارادے کیا ہیں….؟ کیا وہ اس کو لڑکیوں کے درمیان لے جائے گا؟ برحمبوہن کے ہونٹوں پر لمحہ بھر کےلئے ایک پراسرار مسکراہٹ رینگ گئی۔ اس نے پان کا بیڑہ کلے میں دبایا اور جیب سے کنگھی نکال کر دوکان کے شیشے میں بال سونٹنے لگا۔ اس طرح بالوں میں کھنگی کرتے ہوئے اس کو یک گونہ راحت کا احساس ہوا۔ اس نے ایک بار کنگھیوں سے نوجوان کی طرف دیکھا۔ وہ ایک رکشہ والے سے آہستہ آہستہ باتیں کر رہاتھا اور بیچ بیچ میں بالکنی کیطرف بھی دیکھ رہا تھا۔ جیب میں کنگھی رکھتے ہوئے برحمبوہن نے محسوس کیا کہ واقعی اس کی نوجوان میں کسی حد تک دلچسپی ضرور ہے۔ گویا خود اس کے سنسکار بھی…. اونہہ…. یہ سنسکارونکسار سے کیا ہوتا ہے….؟ یہ اس کا کیسا سنسکار تھا کہ اس نے ایک رنڈی کو لوٹا…. ایک رنڈی کو…. کس طرح روتی تھی…. بھیا ….بھیا میرے…. اور پھر برحمبوہن کے کانوں میں نسیم جان کے رونے بلکنے کی آوازیں گونجنے لگیں۔ برحمبوہن نے غصہ میں دو تین چھٹکے سر کو دیئے…. ایک نظر بالکنی کی طرف دیکھا پان کے پیسے ادا کئے اور سڑک پار کر کے گھر میں داخل ہوا۔
اپنے کمرے میں آکر وہ سنگھار دان کے سامنے کھڑاہو گیا۔ اس کو اپنا رنگ روپ بدلا ہوا نظر آیا۔ چہرے پر جگہ جگہ جھائیاں پڑ گئی تھیں اور آنکھوں میں کاسنی رنگ گھلا ہوا تھا۔ ایک بار اس نے دھوتی کی گرہ کھول کر باندھی اور چہرے کی جھائیوں پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ اس کے جی میں آیا کہ آنکھوں میں سرمہ لگائے اور گلے میں لال رومال باندھ لے۔ کچھ دیر تک وہ اپنے آپ کو اسی طرح گھورتا رہا پھر اسکی بیوی بھی آگئی۔ اس نے انگیا پر ہی ساڑی لپیٹ رکھی تھی۔ سنگھاردان کے سامنے وہ کھڑی ہوئی تو اس کا آنچل ڈھلک گیا۔ وہ بڑی ادا سے مسکرائی اور آنکھ کے اشارے سےبرحمبوہن کو انگیا کے بند لگانے کےلئے کہا۔
برحمبوہن نے ایک بار شیشے کی طرف دیکھا۔ انگیا میں پھنسی ہوئی چھاتیوں کا عکس اس کو لبھاﺅنا لگا۔ بند لگاتے ہوئے ناگہاں اس کے ہاتھ چھاتیوں کی طرف رینگ گئے۔
”اوئی دیا….“ برحمبوہن کی بیوی بل کھا گئی اور برحمبوہن کی عجیب کیفیت ہو گئی۔ اس نے چھاتیوں کو زور سے دبا دیا۔“
”ہائے راجہ….“ اس کی بیوی کسمسائی اور برحمبوہن کی رگوں میں خون کی گردش یکلخت تیز ہو گئی۔ اس نے ایک جھٹکے میں انگیا نوچ کر پھینک دی اور اس کو پلنگ پر کھینچ لیا۔ وہ اس سے لپٹی ہوئی پلنگ پر گری اور ہنسنے لگی۔
برحمبوہن نے ایک نظر شیشے کی طرف دیکھا۔ بیوی کے ننگے بدن کا عکس دیکھ کر اس کی رگوں میں شعلہ سا بھڑک اُٹھا۔ اس نے یکایک خود کو کپڑوں سے ایک دم بے نیاز کر دیا۔ تب برحمبوہن کی بیوی اس کے کانوں میں آہستہ سے پھسپھسائی۔
”(ہائے راجہ….لوٹ لو بھرت پور)“
برحمبوہن نے اپنی بیوی کے منہ سے کبھی ”اوئی دیا“ اور ہائے راجہ“ جیسے الفاظ نہیں سنے تھے۔ اس کو لگا یہ الفاظ نہیں سارنگی کے سر ہیں جو نسیم جان کے کوٹھے سے بلند ہو رہے ہیں اور تب….
اور تب فضا کاسنی ہو گئی تھی…. شیشہ دھندلا گیا تھا…. اور سارنگی کے سر گونجنے لگے تھے۔
برحمبوہن بستر سے اُٹھا۔ سنگھاردان کی دراز سے سرمہ دانی نکالی آنکھوں میں سرمہ لگایا۔ کلائی پر گجرا لپیٹا اور گلے میں لال رومال باندھ کر نیچے اُتر گیا اور سیڑھیوں کے قریب دیوار سے لگ کر بیڑی کے لمبے کش لینے لگا۔
(ذہن جدید نئی دہلی فروری1993ء)