میں نے اپنے کھلے جسم پر نظر ڈالی۔
سنہرا، لہلہاتا کھیت جسے ایک سور بے رحمی سے کھانے کے ساتھ ساتھ اجاڑ بھی گیا تھا۔
دروازہ جوپٹ کھلا تھا۔ اس میں سے چیختے ہوئے تیز رنگوں کی ایک لہر ابھی ابھی باہر کو لپکی تھی۔
مجھے اپنا جسم غیر غیر سا لگ رہا تھا، ہر خلیے میں جگنوﺅں کی ٹھنڈی روشنی کی بجائے بے حرمتی کی کڑواہٹیں تھیں۔
میں نے جھٹکا دے کر بکھرے ہوئے جسم کو سمیٹا اور دروازے کی طرف لپکی۔ سنگ مرمر کا ٹیبل لیمپ میرے ہاتھ میں آگیا۔
راہداری ویران تھی اور دو سیڑھیوں پر سے تیز تیز دور ہوتے ہوئے قدموں کی آواز آرہی تھی۔ میں تعاقب نہ کر سکتی تھی۔ راہداری کا بے رحم بلب روشن تھا اور آس پاس کے فلیٹوں سے کوئی بھی باہر آسکتا تھا۔
میرا دماغ اُبل رہا تھا اور میرے منہ میں توہین اور غصے کی ملی جلی غلاظت تھی۔
میں نے بے رحمی سے تھوکا، پھر تھوکا….اتنی بار تھوکا کہ میرا حلق اور منہ دونوں چھل گئے۔ میں اُبلتے ذہن اور لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ واپس لوٹ آئی اور نڈھال ہو کر صوفے پر گر گئی۔ میرے چاروں طرف جھکڑ چل رہے تھے اور میرے اندر بگولے زلزلہ بپا کئے ہوئے تھے۔
فطرت نے یہ جسم مجھے بخشا ہے۔ میں مکمل طور پر اس کی مالک ہوں۔ میں اسے اپنی مرضی سے بیچتی ہوں۔ جب جی چاہے دوکان کھولوں، جب نہ چاہے شٹر گرا دوں۔ میں ایک جیتی جاگتی، حساس عورت ہوں۔ میں بیوی نہیں ہوں۔
کڑواہٹ کو مارنے کےلئے میں نے تیز بغیر دودھ، بغیر چینی کی کافی بنائی اور بڑے بڑے گھونٹ حلق سے اُتارنے لگی۔
وہ سرِ شام آدھمکا تھا۔ اس کی بیوی شاید میکے گئی تھی یا پھر خود بھیج آیا تھا۔ مرد جب بھی پھیکی، بغیر تیز مرچی والی غذا سے بیزار ہو جاتا ہے تو ڈاکٹر کی ساری ہدایات فراموش کرکے، سڑک پر کھڑے ٹھیلے سے زبان میں گدگدی کرنے والی چاٹ چٹ کرنے نکل پڑتا ہے۔
وہ پہلے بھی کئی بار آیا تھا۔ اس لئے مجھے یاد تھا۔ گفتگو بڑی ملائم کرتا تھا۔ الفاظ اس کے منہ سے شرمائے شرمائے سے نکلتے تھے۔ وہ کہیں سے بھی سنگدل اور وحشی نہ لگتا تھا۔ دیکھنے میں بھی بُرا نہ تھا۔ معاوضہ ہمیشہ بڑھا کر دیتا تھا۔ میں نے بھی اسے ہمیشہ خوش اور مطمئن بھیجا تھا۔ بس اس کی ایک چیز بڑی بور کرتی تھی۔ وقفوں میں ہمیشہ بیوی کہ مٹاپے اور بے حسی کا رونا روتا تھا اور اپنے آٹھ بچوں کو کوستا تھا۔ مجموعی طور پر وہ ایک اچھا گاہک تھا۔
آج اس کے اندر سور گھس گیا تھا۔ وہ گاہک کی بجائے ڈاکو بن کر آیا تھا اور میری کنپٹی پر پستول رکھ کر سب کچھ چھین کر لے گیا تھا۔
عورت کیسی بھی ہو جھوٹ پر پلتی ہے اور آج وہ سارے جھوٹ میرے فلیٹ کے باہر پھینک آیا تھا۔ دہکتے ہوئے سچ کا لشکارا دیکھنے کی عادت نہیں رہی۔ جنسی منافقت نے سچ کا روپ دھار رکھا ہے اور عادت پوری نہ ہو تو نشہ ٹوٹنے لگتا ہے….کبھی کسی نشئی کو دیکھا ہے۔
عورت کے منہ پر ہمیشہ ناں ہوتی ہے۔ میری روایتی ناں کو ہاں میں بدلنے کے لئے وہ ایک ریچھ کی طرح مجھ پر ٹوٹ پڑا۔ میں بپھر گئی اور اپنے شٹر (Shutter)گرا دیئے۔ اس نے ڈائنامیٹ سے سب کچھ اُڑا دیا۔ وہ طاقتور تھا، جوانی کی لٹھ اس کے ہاتھ میں تھی۔کسی کا سر پھوڑنا تھا، پھوڑ دیا۔
میرا ذہن میرے بس میں نہیں ہے۔ میں کچن سے اُٹھ کر ڈرائنگ روم میں آگئی ہوں۔ کافی کی پیالی بےکار تھی۔ اسے وہیں چھوڑ آئی ہوں۔
صوفے اپنی جگہ سے کھسکے ہوئے ہیں۔ قالین ٹیڑھا ہے۔ اس میں بل پڑ گئے ہیں۔ منی پلانٹ کی بوتل اُلٹی پڑی ہے۔ کئی پتوں کی کمر ٹوٹ گئی ہے۔
میں اسے بتا دوں گی کہ میں ایک اچھی فائٹر ہوں۔ میں ہتھیار نہیں ڈالتی۔ استعمال کرتی ہوں میں نے سب سے پہلے ٹکر اپنے باپ سے لی تھی۔ وہ گاﺅں کا نمبردار تھا اور ہر کام نمبرداری سے کرتا تھا۔ اس نے میرا رشتہ منظور سے کرنے سے انکار کر دیا۔ وہ برادری کا بھی نہ تھا اور کم حیثیت بھی تھا۔ میں خوامخواہ اَڑ گئی۔
والدین اور بھائی سب ایک ہو گئے۔ مجھے دھمکیاں دینے لگے۔ میں اور بگڑ گئی۔ پھر مار مار کر میرے جسم کو جلتا ہوا کھرنڈ بنا دیا۔
اس رات میں اپنا زخمی جسم اُٹھائے پہلی بار منظور سے ملنے گئی اور اپنے باپ اور بھائیوں کی عزت اور اکڑ اس کی جوتیوں میں ڈال آئی۔
کھڑکیاں بند کر دی گئیں۔ دروازوں پر تالے پڑگئے۔ میں چھت کود گئی۔
اب میرے وارث گڑ گڑانے لگے۔ اپنی عزت کی بھیک مانگنے لگے۔ میں فاتح تھی اور وہ مفتوح ….اور فاتح کے قدم صرف آگے بڑھتے ہیں۔
میں منظور کے ساتھ بھاگ نکلی۔ بغیرسوچے سمجھے۔ جوانی کی آندھی سوچنے کہاں دیتی ہے۔ ہاتھ پاﺅں باندھ کر طوفانی سمندروں میں پھینک دیتی ہے۔
مرد مالی لحاظ سے کمزور ہو تو ذہنی طور پر کمزور ہو جاتا ہے۔
منظور نے شہر میں مجھے ایک دوست کے پاس ٹھہرایا اور خود صبح سے شام تک نوکری کی تلاش میں سرگرداں رہنے لگا۔ نوکری مل جاتی تو کیا ہوتا۔ شاید میں گھرہستن بن کر درجن بھر بچے جنتی رہتی۔ ان کے پالنے پوسنے کی صلیب پر کھنچتی رہتی اور پھر ایک دن مٹی میں مل جاتی۔
ایک دن منظور شام کو نہ آیا۔ پھر کبھی نہیں آیا۔ مرد کی واپسی کے دروازے کھلے رہتے ہیں۔ عورت گھر چھوڑ کر بھاگ جائے تو پیچھے گھر جل جاتا ہے اور اس کی اپنی ٹانگیں بھی ٹوٹ جاتی ہیں۔
منظور کے دوست نے مجھے بالکل نہیں بہکایا۔ نہ منظور کے ہوتے ہوئے نہ اس کے غائب ہونے کے بعد۔ میں خود ہی اس کے نزدیک آنے لگی اور کوئی راستہ نہ تھا۔گلی دونوں طرف سے بند ہو گئی تھی۔ وہ مجھے سنبھالے ہوئے تھا۔ کھانا پانی دیتا تھا۔ شام کو اپنی موٹرسائیکل پر گھماتا تھا۔ فیشنی کپڑے سلوا کر دیتا تھا۔ زندگی کے دن پورے ہو رہے تھے۔
میں نے آگے کا سوچا بھی نہیں تھا۔ میں زیادہ آگے کا سوچتی بھی نہیں ہوں۔ فیصلے اپنے ہاتھ میں تو ہوتے نہیں ۔ ڈوریاں کہیں اور سے ہلتی ہیں۔ لاکھ ہاتھ پاﺅں مارو…. ہوتا وہی ہے جو ہونا ہوتا ہے۔ میں نے فی الحال زندگی کے سمندر میں ہاتھ پاﺅں ڈھیلے چھوڑ دیئے تھے۔
پھر منظور کے دوست نے مجھے ہاتھ پاﺅں اور ذہن استعمال کرنے پر اکسایا۔
اس نے ایک شام اپنے ایک دوست کو بلایا اور بڑی چالاکی سے ہمیں اکیلا چھوڑ کر کھسک لیا۔
اس کے د وست نے جوں ہی کھلنا چاہا۔ اس کے سامنے بن مالک دوکان نہ کھلی تھی کہ وہ آسانی سے لوٹ کر چلتا بنے۔ وہاں مسلح گارڈ کھڑاتھا۔ یہ بے چارہ مرد میرے ہاتھ میں پھولوں کی بجائے پورا گلدن دیکھ کر بھاگ نکلا۔ بزدل تھا یا سمجھدار تھا۔
یہ نہیں کہ میں نے بے وقوف لڑکیوں کی طرح گھر گھرہستی کے خواب دیکھنے شروع کر دیئے تھے۔ عرصہ ہوا میں نے ان خوابوں کو پوٹلی میں باندھ کر ایک طرف رکھ دیا تھا۔ پھر بھی مجھے منظور کے دوست کی یہ بات بہت کھلی۔
جب وہ واپس لوٹا تو اسے کچھ بتانے کی ضرورت نہ تھی۔ وہ اپنے دوست سے مل کر آیا تھا۔ شاید اسے کوئی بڑی رقم واپس کرنی پڑی تھی یا اس کی دوستی پر حرف آیا تھا۔ اس کے نتھنوں سے دھواں نکل رہا تھا۔ اوپر سے جب میری زبان کوڑا بن کر برسی تو اس کی جھوٹی مردانگی کی مونچھیں جھک گئیں۔ اس نے اپنے مضبوط، تنو مندبازوﺅں سے ان مونچھوں کا دفاع کیا۔ مجھے ایک شوہر کی طرح خوب مارا پیٹا۔
میں نے پوری مزاحمت کی۔ کئی جگہ سے اس کی بوٹیاں نوچ لیں۔
جب وہ غسلخانے میں اپنے زخموں پر دوا لگا کر سی سی کر رہا تھا تو میں اس کے فلیٹ سے نکل لی۔ بزدلوں اور چوروں کی طرح نہیں۔ جانے سے پہلے میں نے اسے للکارا۔ لیکن وہ باہر نہیں آیا۔ اپنے اندر کے اور باہر کے دونوں زخموں کی مرمت کرتا رہا۔
ایک خوش شکل اور جوان لڑکی جب تنہا انسان کے بنائے ہوئے جنگل میں نکلی تو سارے خونخوار جانور ہر ہر موڑ پر دمیں ہلانے لگے۔ ہوس ان کے منہ سے ٹپک رہی تھی اور انہوں نے اپنے تیز، نوکیلے ناخن چھپالئے تھے صورتوں پر معصومیت کے نقاب اوڑھ لئے تھے۔ ہر کوئی شکار کو بہلا پھسلا کر اپنے اپنے کچھار میں لے جانا چاہتا تھا۔ آخر کسی کی رہنمائی سے میڈم کے اڈے پر پہنچ گئی شام ہونے سے پہلے پہلے۔
میرے پاس تعلیم کی کمی تھی۔ ہوتی بھی تو میں کسی اسکول کی کھردری کرسی پر کسمساتے ہوئے، بچوں کی الٹی سیدھی کاپیاں دیکھ دیکھ کر اپنا سرسفید کرنے کو تیار نہ تھی۔ نہ ہی مجھے گھروں کے گندے برتن صاف کرنا پسند تھا۔ میرے پاس ایک ہی راستہ تھا۔ قدرت نے مجھے جس عطیے سے نوازا ہے اسے کسی معقول جگہ لے کر بیٹھ جاﺅں۔ خریدار تو آنے ہی ہیں۔
مجھے سن کر میڈم کی پھٹی پھٹی، بوڑھی آنکھوں نے کانٹابدلا اور ایک ساتھ ریاکار ہمدردی کے سارے کارتوس مجھ پر جھونک دیئے۔ میں نے سب اپنے جسم میں سمیٹ لئے۔
مجھے اس وقت میڈم کی ضرورت تھی۔ میں نے زندگی کے کچھ مجبور لمحے گزارنا تھے۔ تھوڑی سی پلاننگ کرنی تھی۔ اپنے پراجیکٹ کےلئے سرمایہ اکٹھا کرنا تھا۔ میں اس ریسٹ ہاﺅس میں ٹک گئی۔
میڈم کے ہاں زندگی مشکل نہ تھی۔ روزمرہ کی ضروریات سے چھٹکارا مل گیا تھا۔ لیکن دوسرے کی دوکان پر رکھا مال اس کی مرضی سے بکتا ہے اور زیادہ تر رقم اُدھر چلی جاتی ہے۔ اپنا کچھ نہیں بنتا۔ ساری عمر سیلز گرل بن کر نہیں گزاری جاسکتی۔ زوال کے وقت کےلئے پنشن کی ضرورت ہوتی ہے۔
میری توقعات سے پہلے ہی وہ وقت آگیا۔ میں سیلز گرل سے مالک بننے کو تیار تھی۔ پہلے تو میڈم کی آنکھوں نے چنگاریاں برسائیں۔ پھر احسان کے بچھوﺅں سے میرے بدن کا ہر حصہ ڈسوایا۔
میڈم مجھے ذرہ برابر بھی نہ سمجھ سکی تھی۔ اب وہ التجاﺅں پر اتر آئی۔ میں نے اس کی التجاﺅں کو زور دار ٹھوکرماری اور آگے بڑھ گئی۔
میں اپنے لئے کرائے کا ایک فلیٹ لے چکی تھی۔ ایڈوانس دے آئی تھی۔ فلیٹوں میں کم از کم ایک فائدہ ضرور ہے۔ چوکیدار سے پتہ کسی کا پوچھو اور گھر کسی اور کے چلے جاﺅ راز کافی عرصہ تک راز رہ سکتے ہیں۔ پولیس ٹیکس کی بچت ہو جاتی ہے۔
اس سلسلے میں چوہدری صاحب نے میری بہت مدد کی۔
چوہدری صاحب اوپر سے بڑے روکھے پھیکے، کھردرے سے ہیں لیکن دل بڑا کمزور پایا ہے۔ میری مالی مدد کو بھی تیار تھے۔ پیسے کا احسان لے کر انسان جھک جاتا ہے۔ برابری کا رشتہ نہیں رہتا۔ میں نے پیار سے انکار کر دیا۔ انہوں نے اتنا بہت کیا کہ مجھے اپنی بیوی ظاہر کرکے فلیٹ لے دیا۔
چوہدری صاحب میڈم کے پرانے گاہک تھے۔ میڈم کو اپنی جوانی کے دور سے جانتے تھے، بے ضرر، شریف سے آدمی تھے۔ ان میں سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ بولتے کم تھے اور جذباتی نعرہ بازی بالکل پسند نہیں کرتے تھے۔
اب میری اپنی ایک چھوٹی سی دوکان ہے۔ میں نے بڑے پیار سے اسے سجا رکھا ہے۔ میں تھکے، اکتائے جسموں کو تروتازہ کرتی ہوں۔ ذہن سے جمی ہوئی کاہی کو ہٹا کر وہاں پھول کھلاتی ہوں۔ جھوٹ کی خوشبوئیں سونگھتی ہوں۔ انہیں اپنے اندر جذب کر لیتی ہوں پھر آہستہ آہستہ اگر بتی کی طرح انہیں لوٹاتی رہتی ہوں۔
سب آنے والے مجھ سے خوش ہیں۔ یہ سور بھی ٹھیک ٹھاک تھا۔ لیکن آج اس نے انتہا کر دی۔ سارے آداب بھول گیا۔ سچ کی لاٹھی اٹھائے آیا اور مجھے اس سے دھنک ڈالا۔
چوہدری صاحب کے آدمی میری خواہش کے مطابق اس کے ہاتھ پیر باندھ کر اسے میر ڈرائنگ روم میں ڈال گئے۔ بالکل اس جگہ جہاں اس نے میری حرمت کا خون کیا۔ میں نے ایک بڑا لمبا چاقو اس کے سرہانے رکھ دیا ہے۔
وہ بے بس، گھونسلے سے گرے چڑیا کے بچے کی طرح چت پڑا ہے۔ اس کی زبان گنگ ہے۔ اس کے اغوا اور میرے چاقو نے اسے جتا دیا ہے کہ اس کے دن پورے ہو گئے ہیں۔
انسان کو جینے کےلئے ہزاروں سال دے دیئے جائیں تو بھی مزید زندگی مانگتا ہے۔ جانے وہ اس عذاب سے اتنی محبت کیوں کرتا ہے؟
میرا جی چاہ رہا تھا کہ وہ گڑ گڑا کر معافی چاہے۔ ایڑیاں رگڑ رگڑ کر زندگی کی بھیک مانگے۔ جھوٹ ہی سہی اپنے کئے پر شرمندگی کا اظہار کرے۔
اس کا رنگ اڑا اڑا ہے۔ اس کی مردانگی کا جنازہ اس کی آنکھوں میں رکھا ہے۔ لیکن اکڑ اب تک قائم ہے۔ وہ ایک عورت کے سامنے اب بھی جھکنے کو تیار نہیں۔ وہ مجھ سے بھی زیادہ ضدی ہے۔
میں چاقو کی نوک سے اس کے جسم پر کچوکے لگا رہی ہوں۔ وہ درد سے کراہتا ہے۔ لیکن بول کر نہیں دیتا۔ میری انا اب بھی کیچڑ میں لت پت پڑی ہے۔
میں نے اس کی تیز، چیختے رنگوں والی قمیص کے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالے ہیں۔ اس کی پتلون کاٹ کر ایک طرف پھینک دی ہے۔ اس کی کئی جگہ سے بوٹیاں کاٹ لی ہیں، لیکن اس میں کوئی کمزوری نہیں آئی۔
نجانے کب میری انگلیوں کے مضراب اس کے خاموش جسم کو چھیڑنے لگے۔ آہستہ آہستہ وہ جاگنے لگا۔ اس کی آنکھوں میں حیرانیوں کا سمندر اُبلنے لگا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ اب وہ پوری طرح بیدار تھا۔ میں وحشی درندے کی طرح اس پر بل پڑی۔ میں نے اسے روند ڈالا۔
پھر میں تھکی تھکی، ٹوٹی ٹوٹی سی اُٹھ بیٹھی۔ اسی دوران میری نظریں اس کے چہرے کی طرف نہ گئی تھیں۔ اس کی حیران آنکھوں میں ایک پراسرار اور فاتحانہ مسکراہٹ جیسی کوئی چیز تیر رہی تھی۔
میں نے اس کی رسیاں کاٹ ڈالیں۔ اسے بازو سے پکڑ کر اٹھایا اور ایک زوردار دھکا دیا ، لیکن وہ وہیں کھڑا رہا۔ ایک انچ بھی نہ ہلا۔
پھر وہ اطمینان سے صوفے پر بیٹھ گیا۔ جیسے یہ اس کا اپنا گھر ہو۔
اس کی پراسرار مسکراہٹ آنکھوں کے کواڑوں سے باہر آگئی۔ فتح کے شے سے بھرائی ہوئی آواز میں اس نے حکم دیا۔
”ایک کپ کافی نہیں پلواﺅ گی۔“
میرے جسم کے ایک ایک خلیے میں جگنوﺅں کی روشنیاں جھلمل جھلمل کر رہی تھیں۔ میں روبوٹ کی مانند کچن کی طرف چل دی۔ میں عورت بنائی گئی ہوں۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...