یونان کی عظیم الشان تثلیت فلاسفہ (سقراط، افلاطون، ارسطو) کا تیسرا اور بعض لوگوں کے خیال میں سب سے بڑا رکن ارسطو تھا۔ فلسفہ، نفسیات، منطق، علم الاخلاق، طب، سیاسیات، حیوانات، تنقید، تاریخ، یہ سب علوم اس کے افکار سے توانگر اور روشن ہوئے۔ بلکہ بعض علم مثلاً تنقید اور منطق کا تو وہ موجد کہا جاسکتا ہے۔ بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ وہ اچھا خاصا شاعر بھی تھا۔ اس کی نثر اگرچہ افلاطون جیسی خوب صورت، سڈول اور دل نشیں نہیں ہے، لیکن اپنے بہترین لمحات میں وہ بھی اعلیٰ درجے کی مہذب اور واضح نثر لکھنے پر قادر تھا۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ خالص فلسفے کے میدان میں ارسطو کے افکار اور افلاطونی افکار کے برابر پر اثر ثابت نہیں ہوئے، لیکن عمومی علم، سائنسی فکر، منطق اور تنقید میں ارسطو کے نظریات کی بازگشت اور اثر آج بھی نمایاں ہے۔ برٹرنڈ رسل (Bertrand Russell) کا استاد اور دوست وہائٹ ہیڈ (A.N. Whitehead) کہا کرتا تھا کہ افلاطون کے بعد کا سارا مغربی فلسفہ افلاطونی فلسفے پر محض فٹ نوٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ خیال مبالغہ آمیز سہی لیکن صداقت پر مبنی ہے، کیونکہ افلاطون کے بعد سب سے برا مغربی فلسفی شاید ہیگل تھا اور اس نے صاف اقرار کیا ہے کہ وہ جو کچھ ہے افلاطون کی وجہ سے ہے۔ اسی طرح یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ارسطو کے بعد کی ساری مغربی منطق اور بیشتر نظریاتی تنقید ارسطوئی نظریات سے برآمد ہوتی ہے۔ کارل پاپر (Karl Popper) جو افلاطونی فلسفہ، تاریخ و سیاست کا بہت برا نکتہ چیں اور ارسطو کا سخت مخالف ہے، اس بات کو مانتا ہے کہ ارسطو کے افکار کا دائرہ غیر معمولی طور پر وسیح تھا۔ جہاں تک تنقید کا سوال ہے، مشہور استاد اور نقاد اور مورخ علوم نقد جارج سینٹسبری (George Saintsbury) کا قول تھا کہ یہ ناممکن ہے کہ کوئی شخص کاروبار تنقید شروع کرنا چاہے لیکن ارسطو کا گہرا مطالعہ نہ کرے اور اس کو نقصانِ عظیم نہ اٹھانا پڑے۔
ارسطو کی پیدائش 384 قبلِ مسیح میں ہوئی۔ اس کا باپ نائیو میکس (Niomachus) سٹگیرا (Stagira) میں شاہی طبیب تھا۔ سترہ سال کی عمر میں (367 قبلِ مسیح) ارسطو کو افلاطونی مدرسے (Academy) میں داخل کیا گیا۔ افلاطون اس وقت اپنی فلسفیانہ اور تفکیری سرگرمیوں کے دورِ شباب میں تھا۔ اکسٹھ سالہ افلاطون نے جلد ہی محسوس کرلیا کہ ارسطو کوئی معمولی شاگرد نہیں ہے۔ داخلے کے وقت سے بیس سال (347 قبلِ مسیح) تک یعنی افلاطون کی بقیہ زندگی تک ارسطو اسی مدرسے میں رہا۔ افلاطون اسے "مدرسے کا دماغ" کہا کرتا تھا۔ 347 قبلِ مسیح میں افلاطون کی موت کے بعد اس کا بھتیجا اسپیوسی پس (Speusippus) مدرسے کا سربراہ بنا۔ بعض کا خیال ہے کہ اسپیویپس کی مقابلتہً نااہلی کے باعث اور بعض کے یہ موجب فلسفیانہ اختلافات کی بنا پر، ارسطو اور اس کے ایک دوست زینو گرے ٹیز (Xenocrates) نے مدرسہ چھوڑ دیا۔ کچھ لوگوں نے ارسطو اور اسپیوسی پس کے اختلافات کو اس طرح پیش کیا ہے کہ گویا دراصل وہ افلاطون اور ارسطو کے اختلافات تھے جو استاد کی موت کے بعد سطح پر نمودار ہوئے۔ کارل پاپر تو یہ کہتا ہے کہ مہتم بالشان علمیت اور غیر معمولی پھیلاؤ کے باوجود ارسطو کے افکار میں کوئی مولگ پن (originality) نہیں تھا اور وہ اکثر افلاطون پر نکتہ چینی کے رجحان کا شکار ہوجاتا ہے۔ پاپر یہ بھی کہتا ہے کہ فلسفہ و تاریخ و سیاست کے میدان میں افلاطون پر اس کی نکتہ چینیاں اکثر غلط ہیں۔ لیکن یہ بھی درست ہے کہ ارسطو نے براہِ راست افلاطون کا نام لے کر کہتا ہے کہ سچائی کی محبت اسے مجبور کرتی ہے کہ وہ افلاطون کی محبت کو بھی اس پر قربان کردے۔ ٹامسن (E.P. Thompson) کے نزدیک ارسطو اور افلاطون میں ذاتی اختلافات کی بات درست نہیں ہے۔ کیونکہ ارسطو نے اگرچہ افلاطونی عینیت سے اختلاف کیا اور اپنے نظریہ شعر میں خاص کر عینیت کو تقریباً مسترد کردیا، لیکن اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ استاد اور شاگرد میں ذاتی اختلافات بھی تھے۔ ٹامسن کا کہنا ہے کہ ارسطو کو افلاطون سے کس قدر گہری عقیدت اور محبت تھی، اس کا ثبوت اس کتبۂ مزار سے ملتا ہے جو اس نے افلاطون کی موت کے بعد لکھا تھا۔ اس میں وہ کہتا ہے کہ افلاطون کا مرتبہ اس قدر بلند تھا کہ بیوقوف لوگ اس کا نام بھی لیں تو گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوں گے۔
مدرسہ چھوڑنے کے بعد کوئی چھ سال تک ارسطو مختلف مقامات میں گھومتا پھرتا رہا۔ اس اثنا میں اس کی ملاقات ایسوس (Assos) کے حاکم ہری یاس (Hermeias) سے ہوئی جو اس کا شاگرد بن گیا۔ پھر اس نے اپنی متبنی لڑکی پائی تھیا (Pythia) کو ارسطو سے بیاہ دیا۔ کوئی دوسال تک لس بوس (Lesbos) کے شہر مائی ٹیلین (Mitelene) میں تعلیم دینے کے بعد وہ مقدونیہ کے شاہ فلپ کے بیٹے سکندرِ اعظم کا اتالیق بن گیا (342 قبلِ مسیح)۔ یہ کہنا مشکل ہے کہ سکندر نے ارسطو کی تعلیمات کا باقاعدہ اور مثبت اثر قبول کیا۔ سیاسی تصورات کی حد تک تو یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ سکندر کے نظریات اپنے اتالیق کے خیالات سے خاصے مختلف ہی تھے، کیونکہ ارسطو بھی افلاطون اور ارسطوئی دونوں جمہوریت کا قائل تھا۔ (یہ اور بات ہے کہ آخری تجزیئے میں افلاطونی اور ارسطوئی دونوں جمہوریت آمریت اور گروہی ڈکٹیٹر شپ سے قریب اگرچہ مطلق العنان بادشاہت سے دور معلوم ہوتی ہیں) بہر حال 336 قبلِ مسیح میں ارسطو نے مقدونیہ چھوڑ دیا اور ایتھنز میں اپنا مدرسہ موسوم بہ لائی سی ام (Lyceum) قائم کیا۔ انھیں دنوں میں زینو کرے ٹیز بھی ایتھنز واپس آکر افلاطونی مدرسے کا سربراہ مقرر ہوگیا اور دونوں دوست دوبارہ یک جا ہوگئے۔
سکندر سے تعلقات بنائے رکھنے کی غرض سے ارسطو نے اپنے بھانجے کیلس تھینز (Callisthenes) کو مقدونیہ کے دربار میں چھوڑ دیا تھا لیکن کیلس تھینز میں مصلحت اندیشی کم تھی بلکہ وہ تکلیف دہ حد تک صاف گو تھا۔ چنانچہ سکندر نے ایک بار ناراض ہو کر کیلس تھینز کو قتل کرادیا (327 قبلِ مسیح)۔ لیکن خود ارسطو پر اس کی نظرِ عنایت حسب سابق قائم رہی۔ اپنے مدرسے میں اس وقت ارسطو کی وہی حیثیت ہوگئی تھی جو اکیڈمی میں افلاطون کی تھی۔ ایتھنز میں سکندر کے نائب اینٹی پیٹر (Antipater) سے بھی اس کے تعلقات خوش گوار تھے لیکن یہ سب اچانک اس وقت ختم ہوگیا جب 323 قبلِ مسیح میں سکندر کی موت کی خبر ایتھنز پہنچی۔ اینٹی پیٹر ایتھنز میں موجود نہ تھا۔ سکندر کے مخالف عناصر نے سر اٹھایا اور ارسطو کے بھی درپئے آزاد ہوگئے۔ کچھ دن تک تو ارسطو نے یہ صورت حال برداشت کی لیکن پھر یہ کہتے ہوئے کہ کہیں اہلِ ایتھنز دوبارہ فلسفے کے خلاف گناہ کر بیٹھیں۔ (یعنی اس سے پہلے سقراط کو بے گناہ موت کے گھاٹ اتار کر وہ اس جرم کا ارتکاب کرچکے تھے۔) اس نے 323 قبلِ مسیح ہی میں اپنے نانہال کیلس (Calialcis) میں پناہ لی۔ وہاں 322 قبلِ مسیح میں اس کا انتقال ہوگیا۔
ارسطو کے ذاتی اخلاق و عادات کے بارے میں ہمیں زیادہ معلوم نہیں ہے۔ اس کے مزار کا بھی پتہ نہیں۔ اس کی بہت تصنیفات بھی ضائع ہوگئیں یا بدلے ہوئے سیاسی حالات کے پیشِ نظر پوشیدہ کرلی گئیں اور پھر منصۂ شہود نہ آئیں۔ ہم عصروں کے بیانات سے یہ پتہ ضرور چلتا ہے کہ وہ لباس اور سج دھج میں نفاست پسند تھا اور اس کی زبان میں وہ خفیف سا عیب تھا جس کی وجہ سے "س" کی آواز "ف" کی سی نکلتی ہے۔ وہ انسداد غلامی کا مکمل حامی تو نہیں لیکن غلاموں کو بیش از آزادی دینے کا قائل اور صلۂ رحمی میں مشہور تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے تمام اعزا کسی نہ کسی طرح اس کے ممنون کرم تھے۔
ارسطو کی جو تصنیفات اس وقت ملتی ہیں ان میں اخلاقیات (Ethics) [جس کے دوسرے حصے کا نام "سیاسیات" (Politics) ہے۔] اور "شعریات" سب سے زیادہ اہم ہیں۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ "شعریات" اس کی مقبول ترین کتاب ہے۔ لیکن اس کا اصل متن اب ناپید ہے۔ موجودہ متن اس یونانی نسخے پر مبنی ہے جو غالباً گیارہویں صدی میں قسطنطنیہ میں دریافت ہوا اور پندرہویں صدی میں پیرس پہنچ گیا جہاں وہ اب بھی محفوظ ہے۔ قدیم ترین غیر یونانی نسخہ ابو نصر کا کیا ہوا عربی ترجمہ ہے۔۔۔۔ (940 قبلِ مسیح) جو کسی سریانی ترجمے کا ترجمہ ہے۔ چونکہ سریانی اور عربی دونوں زبانوں میں المیہ کا وجود نہیں، اس لیے اس ترجمہ کی صحت مشکوک ہے۔ [1] لیکن دوسرے نسخوں سے مقابلہ کرنے اور بعض اوقات صحیح نتیجے پر پہنچنے کے لیے عربی ترجمہ بہت کارآمد سمجھا جاتا ہے۔ (اصل سریانی بھی اب ناپید ہے۔) ایک دوسرا نسخہ جو نسخۂ قسطنطنیہ سے بالکل الگ ہے، رکارڈیانس (Riccardianus) کے نام سے مشہور ہے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ انیسویں صدی ہی میں ہوسکا۔ تقریباً تمام قابلِ ذکر مترجمین نے قسطنطنیہ، رکارڈیانس اور عربی ترجمے سے حسبِ ضرورت استفادہ ضرور کیا ہے۔ بچر کے وقت میں عربی ترجمے کا مستند ترین ایڈیشن مارگولیتھ (Margoliouth) کا بنایا ہو اتھا (آکسفورڈ، 1911ء) لیکن ہمارے زمانے میں ایک بہتر ایڈیشن ایک مشہور جرمن عالم ہے۔ تکاتش (J. Tkatsch) نے تیار کیا تھا جو 1938 – 1932ء میں اس کی موت کے بعد شائع ہوا۔ عام خیال یہ ہے کہ انگرم بائی واٹر (Ingram By water, oxford, 1909) اور ایس- ایچ – بچر (S.H. Butcher, 1894) بہتیرن ہیں۔
"شعریات" میں ارسطو کا اسلوب جگہ جگہ خاصا الجھا ہوا ہے۔ کتاب موجودہ شکل میں نامکمل بھی ہے۔ یہ باتیں اس لیے ہوئیں کہ اصل کتاب موجود نہیں ، اور موجودہ کتاب یا تو کسی شاگرد کے نوٹ ہین یا پھر خود ارسطو کے بنائے ہوئے نوٹ ہیں جن کی مدد سے اس نے اصل کتاب لکھی ہوگی۔ اکثر جگہ عبارت بے ربط ہے لیکن ایک آدھ جملہ نکال دینے سے ربط قائم ہوجاتا ہے۔ ڈی-ڈبلیو-لیوکس (D. W. Lucas) اس سے یہ نتیجہ نکالتا ہے کہ یاتو کوئی حاشیہ متن میں ڈال دیا گیا ہے یا موجودہ نسخہ دو الگ الگ نسخوں یا شاگردوں کے نوٹ پر مبنی ہے۔ وارنگٹن (Warrington) نے بہت سی ایسی عبارتیں حاشیے میں ہی ڈال دی ہیں۔ لیوکس نے بہت عمدہ بات کہی ہے:
"صحیح طریقہ یہ معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ متن کے مربوط اور منتظم ہونے کے بارے میں جو شکوک ہیں ان کے بارے میں قاری کو متنبہ کردیا جائے، پھر متن کا مفہوم متعین کرنے کی پوری کوشش کی جائے اور کاٹ چھانٹ یا اس مفروضے کو، کہ متن ناقص ہے، اسی وقت راہ دی جائے جب کوئی اور راستہ نہ ہو۔"
متن کی مشکلات کو حل کرنے کے لیے بچر نے کہیں کہیں عبارت یا الفاظ اضافہ کیے ہیں۔ لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ خود ارسطو کا نثری اسلوب ہر جگہ افلاطونی اسلوب کی طرح واضح اور رواں نہیں تھا۔ یونانی زبان بھی اپنی کثیر المعنویت کی وجہ سے ایک طرح کے آزاد ترجمے کو خوش آتی ہے۔ لہٰذا شد پریشان خواب من از کثرت تعبیر ہا کی بھی صورت پیدا ہوگئی۔ ورنہ "شعریات" میں بیان کردہ نظریات و تصورات شاید خود اتنے ادق نہیں ہیں جتنے مشکل اور ادق وہ مشہور کردیے گئے ہیں۔
اس بات کو بہرحال ارسطو کی فکر کا اعجاز ہی کہنا چاہیے کہ اس چھوٹے سے رسالے میں کم سے کم تین طرح کے مباحث کی سمائی ہوگئی ہے۔ سب سے پہلے تو اس کو فلسفہ شعر کی کتاب کہنا چاہیے۔ دوسری طرف یہ رسالہ المیہ اور رزمیہ شاعری پر اصولی اور نظریاتی بحث ہے۔ اس کی تیسری، اور ہمارے نقطۂ نظر سے سب سے کم کارآمد، حیثیت یہ ہے کہ اس میں ارسطو نے المیہ اور رزمیہ شاعروں کے لیے ہدایت نامہ مرتب کیا ہے کہ وہ کیا کریں اور کیا نہ کریں۔ عام طور پر کتاب کا اثر تینوں حیثیتوں سےپھیلا اور بعض حالات میں ہدایت نامے کو بھی صحت اور اہمیت کا حامل سمجھا گیا۔ بلکہ بعد میں لکھی جانے والی بعض کتابیں جو تنقید چونکہ معاصر اسٹیج، سیاسی اور سماجی حالات اور روایت سے بہت گہرا ہے، اس لیے وہ ہمارے لیے بہت زیادہ معنی خیز نہیں ہے۔ لیکن یہ درست ہے کہ بعض ہدایات بھی ارسطو کے نظریۂ شعر سے ہی برآمد ہوتی ہیں، اس لیے ان سے پوری طرح صرف نظر بھی ممکن نہیں۔ اس تعارف کا مقصد صرف بنیادی مباحث و مشکلات کو واضح کرنا ہے لیکن ہدایت نامہ بھی کہیں کہیں زیرِ بحث آجائے گا۔ اگرچہ گلبرٹ مری (Gilbert Murray) کا یہ خیال درست ہے کہ اگر کوئی جونوان ادیب محض اس ہدایت نامے کو اپنے لیے مشعل راہ بنائے تو اس میں اس خاصی پریشانی ہوگی۔ لیکن ان ہدایات میں بھی Poetic Grammar کے بعض پہلو پوشیدہ ہیں۔ لہٰذا ان کو بھی کبھی حوالے میں لے آنا غلط نہ ہوگا۔
یہ نہیں کہا جاسکتا کہ ارسطو نے اپنا نظریۂ شعر افلاطونی عینیت کو رد کرنے کے لیے ہی قائم کیا لیکن اس میں کوئی شبہ نہیں کہ افلاطون نے مابعد الطبیعاتی اور سماجی دونوں نقطہ ہائے نظر سے شاعری پر جو نکتہ چینی کی تھی، ارسطو اس کو درست نہیں سمجھتا۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ افلاطون نہ ہوتا تو ارسطوئی نظریے کے دو اہم ترین عناصر (Mimesis) یعنی نمائندگی اور Katharsis یعنی تنقیہ شاید وجود ہی میں نہ آتے۔ افلاطون کے خیالات کو مختصراً یوں بیان کیا جاسکتا ہے:
(1) اشیا کی تین حیثیتیں ہیں۔ اول تو وہ ازلی، تغیر ناپذیر، اصلی تصورات ہیں جنھیں اعیان (Ideas) کہا جاسکتا ہے۔ دوسری، محسوسات کی دنیا میں پائی جانے والی اشیا، چاہے وہ قدرتی ہوں یا مصنوعی، یہ سب اعیان کے ظلال (Reflections) ہیں۔ تیسری ان ظلال کی پرچھائیاں، جیسے سائے، پانی اور آئینے میں نظر آنے والے عکس، فنونِ لطیفہ وغیرہ۔ اس نظریے کو ثابت کرنے کے لیے افلاطون اپنی کتاب "ریاست" (The Republic) کے چوتھے حصے میں چارپائی کی مشہور مثال استعمال کرتا ہے۔ سقراط کی زبانی وہ کہتا ہے کہ دراصل تین چارپائیاں ہیں۔ ایک تو وہ عین جو "چارپائی کا جوہر" ہے۔ دوسری وہ، جسے بڑھئی نے بنایا ہے اور جسے ہم آپ استعمال کرتے ہیں اور تیسری وہ جو کسی تصویر میں بنی ہوئی ہے۔ لہٰذا تیسری چارپائی کی حیثیت کیا ہے؟ ظاہر ہے کہ اس کا بنانے والا اس چارپائی کی نقل کررہا ہے جو بڑھئی نے بنائی ہے، لہٰذا وہ حقیقت یعنی عین (Idea) سے تین درجے دور ہے۔
(2) چونکہ عین نہ صرف حقیقت بلکہ قدرت کے اعتبار سے بھی اعلیٰ ترین ہے اس لیے عین کی نقل کرنے والا اس اعتبار سے خوب صورتی اور خوبی (جو اعلیٰ ترین اقدار ہیں۔) ان سے بھی تین درجے دور ہوگا۔ افلاطون کے بعض موافقین نے یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ فنون لطیفہ اگرچہ نقل کی نقل ہیں، لیکن وہ خوب صورت ہوسکتے ہیں لیکن وہ بھی یہ بات تسلیم کرتے ہیں کہ ان کی مفروضہ خوب صورتی کے باوجود افلاطون انھیں کوئی خاص اہمیت نہیں دیتا۔ ڈی ڈبلیو لیوکس کہتا ہے کہ یہ افلاطون کے لیے ممکن تھا کہ وہ فنون لطیفہ کو نقل بہ نقل کہنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ثابت کردیتا ہے کہ یہ نقل لاطائل ہے بہ شرطے کہ اس کے ذریعہ اصل حقیقت کا کچھ سراغ لگ سکے۔ لیوکس کا خیال ہے افلاطون اگر ایسا کرڈالتا تو وہ فنونِ لطیفہ کی اعلیٰ حیثیت (وہ حسن کے ذریعہ حقیقت تک پہنچتے ہیں۔) کو مستحکم کر جاتا لیکن اس نے ایسا نہیں کیا، بلکہ یہ کہا کہ نقال ہونے کی وجہ سے فن کار، معلمِ اخلاق اور کاری گر سب برابر ہیں۔ اپنی کتاب "قوانین" (Laws) میں وہ کہتا ہے کہ ہم تم سب جو بہترین اور اشرف ترین حالت اور کردار کی نقل کرتے ہیں، شاعر ہیں۔
(3) شاعری اس لیے اور زیادہ نقصان دہ ہے کہ اصل حقیقت کے بجائے نقل کی نقل کرنے کی وجہ سے وہ ہماری عقل کے بجائے ہمارے جذبات کو متحرک کرتی ہے۔ وہ یہ بھی ثابت کردیتا ہے کہ شعر اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کے لیے ایک طرح کے اعصابی اختلال یا جنون کے مرہون منت ہوتے ہیں۔ اور اگر ان سے عام حالات میں استصواب کیا جائے تو وہ بتا ہی نہیں سکتے کہ جو انھوں نے لکھا ہے اس کا مطلب کیا ہے۔ مزید یہ کہ چونکہ المیہ تقریباً تمام و کمال اساطیر پر مبنی ہوتا ہے اور اساطیر میں اکثر باطل کی فتح اور حق کی شکست ہوتی ہے، اس لیے المیہ انسانوں کو پست ہمتی اور شکست خوردہ ذہنیت کی طرف مائل کرتا ہے۔
(4) اعیان ار ظلال کی اس تفریق کی بنا پر شاعری یا کسی بھی فنِ لطیف کو حق، انصاف اور خوبی کے مسائل سے الگ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔ انسان کی زندگی کا اصل مقصد یہ ہے کہ وہ ایک مثالی ریاست اور بے عیب سماج قائم کرے۔ شاعری چونکہ عیب دار جذبات کو متحرک کردیتی ہے اور چونکہ وہ حقیقت سے بہت دور ہے اس لیے اس کو بے عیب سماج اور مثالی ریاست کی تعمیر میں نہیں لگایا جاسکتا۔ [2]
مندرجہ بالا مختصر بیان سے ظاہر ہوگیا ہوگا کہ افلاطونی نظریۂ ادب کی خوبی کا مسئلہ تو ہے ہی لیکن اس کی رو سے ادب دراصل ایک طرح کی نقل یا انعکاس ہے۔ یعنی ادب کسی حقیقت کو خلق نہیں کرسکتا بلکہ مقررہ حقیقت کی نقل ہی کرسکتا ہے۔ ایم ایچ ابیرمس (M. H. Abrams) نے اپنی معرکہ آرا کتاب The Mirror and the Lamp میں دکھایا ہے کہ ادب کا افلاطونی نظریہ جس کی رو سے انسانی ذہن ایک طرح کا آئینہ ہے جو خارجی حقائق کو منعکس کرتا ہے، کسی نہ کسی طرح تمام نظریات شعر میں تقریباً ڈھائی ہزار برس تک جاری و ساری رہا۔ اس کا بیان ہے کہ ارسطوئی نظریے کی بنیاد پر قائم ہے، اگرچہ ارسطو نے افلاطون سے اختلاف کی راہیں بھی کھولیں۔
ایم-ایچ-ابیرس کا یہ کہنا کہ ارسطوئی نظریہ بھی افلاطون سے مستعار ہے، اس حد تک تو درست ہے کہ اگر افلاطون نہ ہوتا تو ارسطو کے خیالات بھی شاید وجود میں نہ آتے لیکن ارسطو نے افلاطون کے نظریۂ اعیان و ظلال کو بڑی حد تک مسترد کردیا اور ادب کی اپنی آزادانہ حیثیت قائم کی۔ اس حقیقت کی روشنی میں یہ کہنا شاید بہت مناسب نہ ہو کہ ارسطو کے افکار بھی اصلاً افلاطونی ہیں۔ خود ابیرمس اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ ارسطوئی نظریۂ نقل صرف فنون لطیفہ کو نقل کا حامل مانتا ہے اور یہ کہ ارسطو معیار اور عین عالم کو اپنے تصورات سے منہا کرکے صرف شاعری بطور شاعری یا فن پر توجہ صرف کرنا ہے۔ بہ قول ابیرمس "افلاطون کے یہاں شاعر کو سیاسی نہ کہ ادبی نقطۂ نظر سے معرض بحث میں لایا گیا ہے۔"
مگر بات صرف اتنی ہی نہیں ہے۔ ارسطوئی نظریۂ شعر نقل کے اس تصور پر قائم نہیں ہے جو خالصتاً افلاطونی ہے۔ افلاطونی اعیان اور ظلال کی بحث میں پڑجانا ہے اور یونانی لفظ Mimesis کو اس کے معروف معنی میں استعمال کرتا ہے جس نقل کا مفہوم اگر غالب نہیں تو خاصا نمایاں ضرور ہے۔ یہ بتا صحیح ہے کہ ارسطو نے بھی اس لفظ کو جس روایت کے تحت استعمال کیا ہے اس کے اعتبار سے فن کار ایک طرح کا صناع یا کاریگر ہی تھا، چاہے وہ الہام یافتہ صناع ہی کیوں نہ ہو۔ لیکن ارسطو نے جس طرح اس اصطلاح کو استعمال کیا ہے اس سے یہ واضح ہوجاتا ہےکہ وہ نقل سے زیادہ نمائندگی یا ترجمانی کے نقطۂ نظر سے بات کررہا ہے۔ اصل یونانی میں لفظ Mimesis کا ترجمہ Imitation رائج ہوگیا ورنہ اردو میں "نقل" کی اصلاح بنائی تھی، لیکن اردو میں اس کے معنی کچھ اور ہی ہوگئے ہیں، لہٰذا "محاکات" کی اصطلاح اردو میں ہماری بحث کے مقصود کو پورا نہیں کرسکتی۔
(جاری ہے)
——
حواشی:
[2] "عین" یا اصل ہئیت کی بحث مثالی ریاست کے حوالے سے اس لیے بھی اہم ہے کہ اشیا تغیر پذیر ہیں اور عین تغیر پذیر نہیں۔ مثالی ریاست میں تغیر کو روکنے یعنی اسے عین یا اصل ہئیت سے نزدیک لانے کی سعی ہوتی ہے، ورنہ صرف عین اپنی جگہ پر قائم رہتا ہے۔ افلاطون کہتا ہے: "سب سے پہلے تو تغیر ناپذیر ہئیت ہے جو غیر مخلوق اور بے فنا ہے۔ کوئی بھی حس اسے دیکھ یا محسوس نہیں کرسکتی اور جس کا تصور خالص تصور کرسکتا ہے۔" ہیگل کا "خیال مطلق" (Absolute Idea) اسی سے مستفاد ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...