رات کے بچے ہوۓ آ ٹے کی موٹی موٹی روٹیاں پکا لو۔ جلدی سے ابھی برتن بھی دھونے ہیں یہ کہتے ہوۓ عروج کچن سے نکل گئی۔
جی جی ماں کہتے ہوۓ ننھے ہاتھوں سے چولہا جلا کر "ہادی" الٹی سیدھی روٹیاں بنانے لگا۔
بمشکل اس کی نظر چولہے تک جا رہی تھی کیونکہ چولہے تک ہادی کا قد ہی نہیں پہنچ رہا تھا۔
"واحد" پانی کی کین دھکیلتے ہوۓ کچن میں داخل ہوا۔ برتنوں پر نظر پڑتے ہی ابھی برتن نہیں دھلے۔ مما نے کہا روٹیاں پکاؤ۔
کیا تم نے سب کمروں کی صفائی کر لی ۔روٹی چولہے سے اتارتے ہوۓ ہادی بولا۔
"واحد" ہاں پاپا سو رہے ہیں، صرف ان کا روم رہتا ہے ۔دونوں بچے ٹی شرٹ اور پرانے پینٹس میں بہت ہی قابل رحم لگ رہے تھے۔
گیٹ پر بیل سنتے ہی عروج ،ہادی واحد کہاں مر گئے ہو؟ دروازے پر دیکھو کون آیا ہے۔
"واحد بھاگ" کر دودھ والے سے دودھ لاکر "حادی" ہٹو روٹیاں پک گئیں ہیں، میں دودھ بوائل کر لوں۔
کیوں کیوں رکو آ آخری روٹی ہے ماتھا سے پسینہ ٹپکتے ہوۓ حادی بولا۔
"واحد" ہٹو دھکا دیتے ہوۓ توے کو پکڑنے پر حادی چینخ مارتا ہے۔
واحد کیا دیکھتا ہے حادی کا ہاتھ جیسے توے پر چپک ہی گیا ہو۔
رونے کی آواز سن کر ، "عروج" کیا مصیبت ہے۔
ماں ہاتھ جل گیا دائیاں ہاتھ آ گے کرتے ہوۓ "واحد" دکھ سے بولا ۔
ٹھیک ہے ٹھیک تم پٹی لگاؤ اور بابا کو سلام کرنے نہ آجانا،
منہ اُٹھا کر پوچھیں گے تو کہوں گی سویا پڑا ہے۔
بے رحمی سے بولی۔
جی ماں آ نسوں بازو سے صاف کرتے ہوۓ ۔
مہر صاحب کے دس جانے کے بعد،
تم لوگوں نے دیکھا نہیں مشین کپڑوں سے بھرا پڑا ہے ۔حادی صوفے سے اُٹھتے ہوۓ سر جھکائے ماں وہ میری باری تھی ہاتھ جل گیا ہے نا ۔
یہ عجیب تماشہ ہے بھئی جن کے ایک یک ہاتھ ہوتے ہیں وہ کیا کام نہیں کرتے تم جو جلے ہوۓ ہاتھ کو لیے بیٹھے ہو۔ جلدی سے کپڑے دھو اٹھ کر ۔
واحد میں آ ج تمہارے حصے کا کام کرتا ہوں اور کل تم سارے کام کرو گے بازو سے پکڑے ہوۓ بولا ۔دونوں کی عمر مشکل سے آ ٹھ سال تھی۔
عروج ایک غریب گھر کی لڑکی جوکہ مہر کا آفس سنبھالتے گھر کی مالکن بن بیٹھی۔
حادی کی ماں کو طلاق دلوادی۔
عروج بمشکل اٹھاراویں سال کی،
پر انتہائی شاطر لڑکی تھی، جو مہر کو پوری مٹھی رکھتی تھی۔
ڈنر پر حادی نے نہ صبح سلام کیا اور نہ ہی اب۔
کھانے پر طبیعت ٹھیک ہے نا اسکی؟
جی ٹھیک ہے میں دیکھ کر آ تا ہوں۔ چیئر سے اٹھتے ہوۓ بولے۔
نہ نہ رکیں وہ پڑھتا رہا ہے اس کا کل ٹیسٹ ہے تھک کر سو گیا ہے اسے ڈسٹرب نہ کریں ۔
عروج کی طرف پیار بھری نظروں سے ہاتھ پکڑتے ہوۓ عروج تم کتنا خیال رکھتی ہو، کبھی احساس نہیں دلوایا کہ حادی کی سوتیلی ماں ہو۔
اور ایک اسکی ماں تھی کبھی فیشن،شاپنگ سے فرصت نہیں ملتی تھی اسے۔
ڈرامہ کرتے ہوۓ مجھے کبھی محسوس نہیں ہوا کہ حادی میری اپنی اولاد نہیں۔
تمہاری ان ہی خوبیوں کی وجہ سے تو میرا دل کمزور پڑ گیا تھا۔
مہر لگ بھگ 35 سال کا تھا۔
عروج ہنستے ہوۓ ،چلیں کھانا کھائیں ٹھنڈا ہو رہا ہے۔
حادی اور واحد صبح 5 بجے اٹھتے اور رات کے 10 بجے تک سب کام سمیٹ کر سوتے۔
سارا دن ایک کے بعد دوسرا کام، پل بھر سکون نہ ملتا۔
واحد احساس کمتری میں ماں کے منہ کی طرف تکتا رہتا اور جیسے ہی کوئی کام بتاتی بھاگ کر کرتا۔
ایک دن مہر کوئی فائل لینے گھر آۓ تو حادی کو کام کرتے دیکھ کر،
عروج عروج آپ اچانک گھر خیریت۔
بابا ماں سوئی ہیں ہمیں بتائیں کام۔
واحد بولا۔تم سکول کیوں نہیں گئے ۔
واحد سر جھکاۓ کھڑا رہا ۔
میں تم سے کچھ پوچھ رہا ہوں ۔واحد پاپا یہ تو کب سے سکول نہیں جاتا ۔
حیرت سے مہر صاحب کیوں ؟
وہ ماما نے چھڑوایا ہے۔
مہر حیرانگی سے کیا؟
واحد ان کا نوکر ہے ۔
عروج کہاں ہو۔ اٹھو کیا ہوا تکیہ منہ پر رکھتے ہوۓ بولی۔
حادی سکول کیوں نہیں جاتا۔ تمہیں ہر مہینے اسکا سکول خرچ ،بھاری فیسز دیتا ہوں۔
عروج اٹھ کر بیٹھ گئی وہ۔
کیا وہ؟
سکول میں لڑکیوں پر لائن مارتا ہے ٹیچر نے بلا کر شکایت کی سکول سی نکال دیا۔
کیا؟جھوٹ بولنے میں تو ماہر تھی ۔
ہاں تو مجھے کیوں نہیں بتایا۔
اس لیے کہ آپ پر کام کا پریشر ہے ۔آپ سٹریس نہ لیں۔
میں نے گھر پرٹیوشن رکھوا دیا ہے۔جھوٹی تسلی دیتے ہوۓ ۔
چلو آ ج ہی کسی اچھے سکول میں داخلہ کرواتے ہیں۔تھوڑا سیٹ ہو جاۓ میں کروا آؤں گی داخلہ۔
مہر کو مطمئن کرتے ہوۓ۔ آفس بھیج دیتی ہے۔
حادی پاپا کو کیوں بتایا سکول نہ جانے کا؟
حادی ڈرتے ہوۓ وہ ماما واحد نے بتایا۔
آج خیر نہیں اس کی حادی کی۔
مار کر، فون کرتے ہوۓ کہ اپنے بچے کو لے جائیں گھر میں چوری کرتا ہے۔
اب غصے میں واحد پر تشدد کرتی ہے ۔حادی بے حد ڈر سہم کر رونے لگتا ہے۔ واحد کی والدہ بچے کو بے بس پڑا فرش پر دیکھ کر چیخنے چلانے لگ جاتی ہے۔
اتنا ظلم کس نے مارا؟
عروج میں نے کیوں؟
اپنے بچے کو تمیز سکھاؤ۔
چور ہے کیا چوری کی؟
چاکلٹس باکس سے، دو چاکلٹس کھائیں۔
میں تم ذلیل عورت کا گلہ دبا دوں گی ۔
آپ مٹی چھوڑیں یہ میری ماں ہیں ۔
پاؤں میں پڑ گیا، واحد کی ماں ممتا میں آ کر غصے میں گلہ ہی نہیں چھوڑ رہی تھی۔
گلہ چھوڑ کر زوردار تھپڑ رسید کرتے ہوۓ، تم نے اس کی ماں چھین لی۔
اس کے باپ کو دور کر دیا ۔کیسی عورت ہو؟ اپنی خواہشات کے پیچھے ہنستا بستا گھر اُجاڑ دیا ۔
دیکھو اس معصوم کی طرف کیسے مر رہا ہے کہ تمہیں کوئی تکلیف نہ دوں۔
واحد عروج کو گلے لگ جاتا ہے ماں آپ ٹھیک ہو۔
عروج کی آ نکھوں میں ندامت کے آنسو نکل آ رہے تھے۔
شرمندہ ہونے لگتی ہے کہ میں اسے اس کے باپ تک سے نہیں ملنے دیتی اور وہ کیسے ڈھال بن کر مجھے بچانے لگا ۔