اکثر تنقید کا لفظ سنتے ہی ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کسی نے ہماری بے عزتی کر دی۔ جس سے ہماری انا کی دھجیاں اڑا دیں۔ پر یہ سوچ یا نظریہ قطاً غلط ہے ۔اس کا اصل مقصد ہے ہماری "اخلاقی اور تعمیری سوچوں" کو پروان چڑھانا۔ دراصل ہر "تنقیدی سوچ یا روک ٹوک" کرنے والا ہمارا دشمن نہیں ہوتا۔ بلکہ اس کی آنکھیں وہ دیکھ چکی ہوتی ہیں۔ جو ابھی تک ہماری نظروں نے نہیں دیکھا ہوتا۔ اب فرض کریں آپ سفر پر جا رہے ہیں اور مخالف سمت سے آنے والے نے آپکو "جلدی اور تلخ" لہجے میں کہا کہ دوسری سڑک سے جائیں پر آپ اس کی بات مانے بغیر اسی راستے پر جانے پر دیکھتے ہیں کہ آ گے چوک پر کوئی ریلی یا احتجاج ہونے کے باعث راستہ بند ہے۔ تب دماغ میں فورًا سے خیال آۓ گا کہ ہاں فلاں بندے نے روکا تو تھا۔ اچھا تو یہ وجہ تھی تب آپ کو دوسرے کے بات پر یقین آۓ گا کہ اس نے پریشانی سے بچنے کے لیے روکا اور یہ روکنا باعث "انسانیت اور ہمدردی" تھا. پر سمجھ آنے میں ذرا دیر لگ گئی۔ اسی طرح والدین گھروں میں بچوں کو روکتے ہیں کہ جھوٹ نہ بولیں ،دیکھو لڑائی نہیں کرنی یا دوسروں کی چیزیں چوری نہیں کرنی یہ سب بتانے اور روک ٹوک کا یہی مقصد ہوتا ہے۔ نا کہ
بچہ کل کو معاشرے میں اچھا بن کے رہے۔ اس کی اچھائی کی وجہ سے سب اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھیں ۔
اب تنقید کے ہماری زندگی پر دو طرح کے اثرات پڑتے ہیں۔
ایک "مثبت" اور دوسرا "منفی" اس کو مثال سے ایسے واضع کریں گے کہ ایک خاندان میں دو افراد ایسے ہیں۔ جس میں ایک تو محنت کرتا ہے اپنے کاروبار میں کامیاب ہوتا ہے اور دوسرا کاروبار میں توجہ نہیں دیتا۔
پر جب دوست احباب اور رشتے دار کامیاب فرد سے نکمے کا موازنہ کرنے لگیں تو اس ناکام انسان میں آگے بڑھنے کا جزبہ پیدا ہوتا ہے کہ جب وہ کر سکتا ہے تو میں کیوں نہیں۔
تنقید کا منفی اثر ایسے پڑتا ہے جیسے ایک ٹیچر کلاس میں دو بچوں کا موازنہ کرے ایک کی روز تعریف اور دوسرے پر تنقید۔ اس کی صحیح اور غلط کام پر ہر وقت ڈانٹ، ایسے میں وہ بچہ خود کو تسلیم کر لے گا کہ واقعی میں نکما اور بے کار انسان ہوں۔ جس سے اس کے آگے بڑھنے کے صلاحیت اور کاگردگی بھی رک جاۓ گی۔جیسا کہ اکثر ہم سنتے ہیں کہ پانچ انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔ ویسے ہی ہر تنقید کرنے والے کا مقصد ہماری بھلائی ہی نہیں ہوتا۔ کچھ لوگ ہمیں آگے بڑھنے اور ہمارے وژن کو کمزور کرنے کے لیے بھی تنقید کرتے ہیں کہ یہ کام تو ناممکن ہے تم کبھی نہیں کر سکتے وغیرہ وغیرہ۔
جیسے ایک انسان نے کہا کہ میں نے پائلٹ بننا ہے اسے اعتماد بھی ہے خود پر کہ وہ زیادہ ہمت کر سکتا ہے پر پھر بھی بغض ،حاسد نے یہ کہہ کر روکا کہ نہیں اس شعبے میں فلاں فلاں مسائل ہیں تمہارے لیے بہتر نہیں۔ مقصد سے ہٹانے کے لیے ہزار نکات پیش کر دیتے ہیں۔
دوسری طرف بہتری ،خیر خواہی اور ہمدردی میں بھی روکا جاتا ہے۔ جیسے ایک بچہ سیڑھیوں پر چڑھ رہا ہو اور اس کے کرولنگ کے دن ہوں وہ ٹھیک سے چل بھی نا پاتا ہو تو ماں فوراً سے بچے کو روکتے ہوۓ آ وازیں دے کر بھاگ کر اٹھا لے گی کیونکہ بچے کو نہیں پتہ کہ وہ گر کر چوٹ کھا سکتا ہے پر ماں کی ذہانت اور تجربہ تو جانتا ہے ناں کہ
بچے کا سیڑھیوں پر چڑھنا نقصاندہ ہو سکتا ہے ۔
تنقید کرنے والے کا مقصد بھلائی ہو یا بغض اپنے آ پ کو اس طرح بنائیں کہ آنے والی ہر تنقید اور روک ٹوک سے کچھ نا کچھ سیکھنا ہے کیونکہ تنقید کرنے والے کا مقصد کچھ بھی ہو اصل میں وہ انسان ہمیں سوچنے کے مواقع اور راستہ دے جاتا ہے۔ اب یہ ہم پر ہے کہ ہم اس اعتراض پر سر تسلیم خم کر لیں یا اس کی نوعیت کو جان کر بہتری کی طرف ہمت سے قدم بڑھائیں۔
امیر خسرو کی فارسی غزل کے کھوار تراجم کا تجزیاتی مطالعہ
حضرت امیر خسرو کا شمار فارسی کے چند چیدہ چیدہ شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی ایک غزل کافی مشہور...