پچھلے دنوں وزیراعظم نے عوام سے جو ٹیلی فونک گفتگو کی، اس میں ایک اہم سوال جو کہ بچوں عورتوں سے جنس زیادتی کا آیا۔ اس میں عمران خان نے وجہ سامنے رکھی تھی پردے کا نہ ہونا اور دوسری وجہ فحاشی، جس پر کافی لمبی بحث چھڑ گئی حتی کہ جمائمہ خان تک نے اس پر ٹویٹ کیا۔ اگر ہم اس کو سمجھنے کی کوشش کریں تو سمجھ آئے گی کہ اس کی بنیادی وجہ پردے کا نہ ہونا نہیں بلکہ غربت اور بے روزگاری ہے۔ فحاشی میڈیا کے مختلف ذرائع اور چند کمپنیوں کی وجہ سے پھیل رہی ہے۔ جہاں کی ڈیمانڈ ہوتی ہے کہ بولڈ اور پرکشش فی میل سٹاف کی ضرورت ہے۔ تو اس ضرورت کو پورا کرنے اور گھر کی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے کچھ خواتین مجبوری اور چند ایک شوق سے ایسے کرتی ہیں۔ ورنہ تو آپ نے ہر جگہ حجاب میں ملبوس خواتین دیکھی ہوں گی، چاہے تعلیمی ادارے ہوں یا کوئی ملازمت کا پیشہ۔ ہم اس بات کا اندازہ نہیں لگا سکتے کہ جو خواتین بولڈ بن کر پھر رہی ہیں کتنا خوشی سے اور کتنا مجبوری میں۔ اگر کوئی اقدامات کرنے ہیں تو ایسے نیٹ ورکس پر کریں جو یہ ڈیمانڈ رکھتے ہیں جس سے معاشرتی بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔
اور سب سے اہم بات فحاشی عورتیں نہیں پھیلا رہی ہیں۔ خواتین کا گھر سے اکیلے نکلنا بھی وقت کی ضرورت بن گیا ہے جو کہ مختلف مقاصد کے لیے ہو سکتا ہے، جیسا کہ حصول تعلیم ،حصول روزگار۔ آپ کو روزانہ صبح شام مختلف بس سٹینڈ،سڑکوں،گلیوں، دفاتر میں بے شمار عورتیں ملیں گیں جو زیادہ بھی نہ تو کم از کم کم ظرف لوگوں کی غلط سوچ اور نظروں کا نشانہ ضرور بنتی ہیں چاہے وہ با پردہ ہی کیوں نہ ہوں ۔ یہ تعداد غریب یا سفید پوش طبقہ کی ہی ہوتی ہے ۔ جو روزانہ کی بنیاد پر بے شمار مسائل کا سامنہ کرتیں ہیں کیونکہ امیروں کے تو گاڑیوں کے دروازہ تک ڈرائیور کھولتے ہیں تو ان کے لیے ایسے مسائل کہاں۔ لنک روڈ پر خواتین کو ان کے بچوں کے سامنے جنسی زیادتی کا شکار کیا گیا تو وہ کیا وہاں پر فحاشی پھیلا رہی تھی؟ نہیں نہیں بلکہ وہ مجبوری میں وہاں رکی تھی ۔اسی طرح اریبہ کیس آپ کے سامنے ہے جو کہ راولپنڈی سے تھی اور 13سال کی عمر میں جنسی زیادتی کا نشانہ بن کر ننھی پری کی ماں بن گئی تو وہ معصوم کیا فحاشی پھیلا رہی تھی؟ اور رہی بات ریپ آرڈیننس سخت کرنے کی یہ تو ایسے ہوگیا جیسے خوبصورت تحریر صرف لکھ کر محفوظ کر لی گئی ہو اب اس پر عمل نہیں کریں گے۔ اس کا فائدہ چاہے وہ کتنی ہی اہم کیوں نہ ہو۔ جیسے ہی ایسے کیسز سامنے آئے فی الفور 2۔4 کو پھانسی پر لٹکا دینے سے بہتری آ سکتی ہے۔ ورنہ تو آۓ دن ایسی درد ناک خبریں سننے کو ملتی رہیں گی۔ پاکستان ایسا اسلامی ملک ہے جہاں اسلامی اقتدار اور پردے کا انتظام کئی اسلامی ممالک سے بہتر ہے۔ اور پردہ صرف چہرے کو چھپا لینا نہیں بلکہ ذہن کا پردہ بھی بہت ضروری ہے۔جو مرد پر بھی اشد لازم ہے۔ ہم مغرب سے الگ ہیں ۔ہمارا رہن سہن معاشرت الگ ہے۔ ہمیں ایسا کرنا چاہیئے کہ فحاشی پھیلانے والے جتنے بھی مواد ہیں اس میں فلم آگی، انٹرنیٹ کے استعمال اور ناقص مواد کے خلاف قانون بنانا چاہیئے ۔ایسے ذمہ دار افراد کے خلاف جرمانے اور سزائیں تجویز کرنی چاہیئے۔ ساتھ ہی ساتھ ایسے ہنر مند ہیکرز کی ٹیم تشکیل دینی چاہیئے جو کہ ایسے فضول مواد کو جڑ سے ہی ختم کر دیں۔ ورنہ انٹرنیٹ سے بائیکاٹ کرنا چاہیئے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...