جس دیش میں گنگا بہتی ہے۔۔۔۔۳
یہ ہے بمبے میری جاں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گیٹ وے آف انڈیا سے کر افورڈ مارکیٹ کا فاصلہ کچھ ایسا طویل بھی نہ تھا لیکن لگتا تھا کہ شاید یہ فاصلہ کبھی ختم نہ ہوگا۔ پیدل چلنے والوں کا ازدحام ، ہاتھ گاڑیاں۔ ٹیکسیاں ، کاریں ، بسیں، ۔ مجھے جوڑیا بازار یاد آگیا۔ وہاں کچھ ایسا ہی نقشہ ہوتا تھا۔
پتھر کی بنی ایک سرکاری عمارت کے سامنے ٹیکسی رکوا کر آزاد بھائی نے میٹر دیکھ کر ڈرائیور کو بتا یا کہ کتنے پیسے بنے۔ ڈرائیور نے ڈیش بورڈ سے ایک چھوٹے سے گتے پر بنے چارٹ پر دیکھ کر بتایا کہ اب اتنے پیسے ہوئے ہیں۔ دراصل حال ہی میں ٹیکسی کے نئے کرایے مقرر ہوئے تھے لیکن میٹر ابھی تک پرانے حساب سے چل رہے تھے۔ آزاد نے چند نوٹ نکالے اور ڈرائیور نے بقیہ کی ریزگاری آخری پیسے تک واپس کی اور میں اس کی شکل دیکھتاتھا۔ یاد آیا کہ کراچی میں اگر میٹر آٹھ روپے پچاس پیسے دکھا رہا ہے اور آپ نے دس کا نوٹ دیا تو رکشہ والا آپ کی جانب دیکھے بغیر آگے نکل جائے گا۔ اور یہ شاید ایک غیر تحریری معاہدہ تھا کہ مسافر بھی امید نہیں رکھتے تھے کہ بقیہ پیسے واپس ملیں گے۔ اور یہ تب کی بات تھی جب ہم تھوڑے بہت تہذیب یافتہ تھے اور ہمارے ہاں بھی رکشہ اور ٹیکسی میں میٹر ہوا کرتے تھے۔ میں جب دوبئی آیا تو یہاں میٹر نہیں ہوتے تھے لیکن اب کوئی ٹیکسی میٹر کے بغیر نہیں ہے اور اگر کبھی میٹر خراب ہوا تو آپ کا سفر مفت ہے۔ ہمارا سفر الٹے قدموں چل رہا ہے۔ خیر برسبیل تذکرہ ایک بات آنکلی۔
"وہاں صرف بمبئی کا خالہ جان کے گھر کا پتہ لکھوانا۔ اورن کا ذکر نہ کرنا” آزاد بھائی نے سرگوشی میں ہدایات دیں۔
” وہ کیوں؟”
” بھئی کل ہم لوگ نکلیں گے اجمیر ، جے پور اور آگرہ کے لئے۔ بمبئی میں کوئی گھر آکر انکوائری نہیں کرتا کہ یہاں اتنے سارے پاکستانی رپورٹ کرتے ہیں۔ اگر کوئی آیا بھی تو کہہ سکتے ہیں کہ باہر فلم وغیرہ دیکھنے گیا ہے، لیکن اورن چھوٹی سی جگہ ہے اور وہاں تم سب کی نظروں میں رہو گے۔ ہر بار جب اورن سے نکلو اور واپس آؤ تو رپورٹ کرنا ہوگی ۔ وقت بھی بہت ضائع ہوگا تمہارے پاسپورٹ پر صرف بمبئی اور پونے کا اندراج ہے ۔ تمہیں اجمیر وغیرہ نہیں جانے دینگے” آزاد نے مجھے نئی خبر سنائی کہ پورا خاندان اجمیر کے لئے نکل رہا ہے اور میں بھی اس قافلے کا حصہ ہوں۔
ہم سی آئی ڈی آفس میں داخل ہوئے۔
خاکی بش شرٹ ، پتلوں اور سر پر گاندھی ٹوپی اوڑھے ایک چپڑ اسی نے بتایا کہ اس کمرے میں پاکستانی یاتریوں کی جانچ ہوتی ہے۔
ہم اندر داخل ہونے لگے تو ایک اور چپڑ اسی نے روک دیا۔
” پاکستان سے کون آیا ہے؟”
میں نے پاسپورٹ دکھایا۔
” ٹھیک ہے اندر جاؤ۔ آپ ادھر ہی رکو ” اس نے آزاد کو اشارہ کیا۔ یہ ساری گفتگو مراٹھی میں ہوئی۔
ایک بڑے سے ہال میں یہاں سے وہاں میزیں لگی ہوئی تھیں۔ میں سوالیہ نشان بنا کھڑا تھا کہ کہاں جاؤں کہ ایک بابو نے پوچھا ” پاکستان سے آئے ہو۔؟”
” جی” ۔ یہاں بات ہندی میں ہورہی تھی۔
اب وہ کلرک ہندی میں سوال پوچھتا تھا اور میں اپنی واجبی سی مراٹھی میں جواب دیتا۔ وہ ہندی چھوڑ مراٹھی پر اتر آیا اور جناتی قسم کی مراٹھی بولنے لگا۔ میں نے درمیانہ راستہ نکالا اور ہندی مراٹھی اور انگریزی کے ملغوبے سے اپنا مافی الضمیر بیان کیا۔
اب یہاں میں نے کچھ شرافت کا مظاہرہ کرنا چاہا اور اسے بتایا کہ اورن میں میرے رشتہ دار رہتے ہیں اور میں نے اورن کو بمبئی کا حصہ سمجھ کر الگ شہر کی فہرست میں نہیں لکھوایا۔
میں توقع کررہا تھا کہ اب کچھ سخت قسم کے سوال ہونگے اور پوچھا جائے گا کہ میں بغیر ویزا اورن کیسے چلا گیا۔
لیکن کلرک شاید اسی آس میں بیٹھا تھا کہ کوئی ٹیڑھا کیس سامنے آئے۔
یہاں وہاں دیکھ کر اس نے بالکل آزاد کے انداز میں سرگوشی کی اور وہی مشورہ دیا جو آزاد نے دیا تھا کہ اورن میں رپورٹ نہ کروں ورنہ مشکل میں پڑجاؤں گا۔
اس نے مجھے باہر انتظار کرنے کو کہا ۔
آزاد باہر بے چینی سے ٹہل رہے تھے۔ میں نے انہیں آواز دی اور ایک بنچ کی طرف بڑھا۔
” نا، نا! ” بنچ پر بیٹھنے سے پہلے ہی آزاد نے مجھے کھینچ لیا۔
لکڑی کی بنچ کی درزوں میں ہاتھی کے برابر کھٹمل تھے۔ میں ایک جھٹکے سے پیچھے ہٹ گیا لیکن وہاں بہت سے سائل اور چپڑ اسی وغیرہ بے فکری سے بیٹھے گپیں لڑارہےتھے۔ آزاد نے کچھ پوچھنا چاہا ہی تھا کہ چپڑ اسی نے اشارہ کیا کہ اندر بلا رہے ہیں ۔
میں پھر اسی بابو کے سامنے تھا۔ اس نے میرا پاسپورٹ میرے حوالے کیا۔
میں نے شکریہ ادا کیااور اٹھتے ہوئے پوچھا کہ اور کچھ بھی ہے۔
اس نے مراٹھی میں جو کچھ کہا وہ یہ تھا کہ ” صاحب سے ملاقات کرو”
یا اللہ کن صاحب سے ملنا ہے! اب کیا مسئلہ ہوگیا۔
” کون سے صاحب سے ملنا ہے”
اس نے اسی چپڑ اسی کی طرف اشارہ کیا جس نے مجھے آواز دی تھی۔
” صاحب کہاں ہیں ؟ ” میں نے مراٹھی میں چپڑ اسی سے پوچھا۔
” اس صاحب نے میرے پاس بھیجا ہے” چپڑ اسی نے بتایا۔گویا وہی ” صاحب” تھا۔
” اب کیا کرنا ہے ؟”
” صاحب ہمارے چائے پانی کے لئے بھی تو کچھ دو۔ صاحب نے آپ کا کام کردیا ہے” وہ لجاتے ہوئے بولا۔
” اوہ! اچھا ۔ لیکن انہوں نے خود کیوں نہیں لئے؟”
” نہیں وہ ٹیبل پر نہیں لے سکتے”
میری جیب میں کھلے صرف پندرہ روپے تھے۔ میں نے اب تک پاکستانی روپے اور ڈالر تبدیل نہیں کروائے تھے۔ میں نے شرمندگی سے بتایا کہ میرے پاس تو صرف یہی کچھ ہے۔ اس نے تیزی سے نوٹ میرے ہاتھ سے لیکر گاندھی کیپ کے نیچے منتقل کئے۔ ” مہربانی صاحب” وہ ممنون نظر آتا تھا۔
میں نے صدق دل سے اس کا شکریہ ادا کیا اور باہر آگیا جہاں دروازے کے پاس آزاد کھڑے سارا تماشا دیکھ رہے تھے۔
” ہوگیا کام؟ کتنے پیسے دئے ” ۔
” میرے پاس چینج ہی نہیں تھی۔ صرف پندرہ روپے دئے”
کیا،؟ پندرہ!! آزاد نے تقریباً چلا کر پوچھا۔ ” ارے صرف پانچ دینے تھے۔ ”
مجھے اپنے پاکستانی ہونے پر فخر ہوا۔ کم ازکم یہاں ہم ہندوستان سے بہت آگے تھے۔ ہمارے پاکستان میں سو سے کم تو دینے والے کو بھی شرم آتی ہے۔ رشوت لینے کے معاملے ہمارا معیار ان بھارتیوں سے کہیں زیادہ بلند تھا۔
ہم بھنڈی بازار پہنچے۔ یہاں بھی وہی نقشہ تھا۔ بھیڑ بھاڑ، شور شرابا اور دھکم پیل۔
ایک کھوکھا نما دکان کے تھڑے پر بیٹھے دکاندار نے آزاد کو سلام کیا اور ہاتھ ملایا اور میرا تعارف کرایا، اس نے پان آلود سرخ زبان سے مجھے خوش آمدید کہا۔ سامنے دھرے اسٹول پر ہمیں بٹھا کر کسی کو دو ” تھمس اپ ” لانے کا حکم دیا۔
آزاد سعودی کی ملازمت کے دنوں میں اس سے ڈالر وغیرہ تبدیل کرتے تھے اور یہ عموماً اچھے دام دیتا تھا۔ یہ مسلمان تھا اور ہم اردو میں بات کر رہے تھے۔ مجھے پاکستانی سو کے بدلے بھارتی ایک سو پانچ روپے ملے۔ ان دنوں ہمارے روپے کی قدر زیادہ تھے۔ ہماری فی کس آمدنی بھی ہندوستان کے مقابلے میں بہت بہتر تھی اور نجانے کیا بات تھی، عام ہندوستانی، پاکستانیوں سے مرعوب نظر آتا تھا۔ یا شاید مجھے یوں محسوس ہوتا تھا۔ میرا اندازہ اتنا غلط بھی نہیں تھا۔ آگے چل کر ایسے کئی مشاہدے ہوئے۔ ۔
” اب کہاں؟” ہم بمبئی کی سڑکوں پر مٹر گشتی کر رہے تھے۔ مٹر گشتی شاید غلط لفظ ہے ۔ یوں سمجھئے بھیڑ بھاڑ سے لڑ رہے تھے۔ یہاں ایک اور پتھر سے بنی عمارت میں آزاد بھائی داخل ہونے لگے۔ یہ پوسٹ آفس اور تار گھر تھا۔ اندر گھپ اندھیرے میں ایک چھوٹا سا پیلا بلب روشن تھا۔ کچھ دیر میں آنکھیں کچھ دیکھنے کے قابل ہوئیں تو دیواروں سے لگی الماریوں پر فائلوں کے ڈھیر نظر آئے۔ مجھے کراچی کا پاسپورٹ آفس یاد آیا جہاں فائلوں کی ڈھیر دیکھ میں حیرت میں گم تھا کہ کاغذوں کے اس انبار سے مطلوبہ کاغذ کیسے ڈھونڈ نکالا جاتا ہوگا۔ ہندوستان پاکستان کے سرکاری دفتروں کا حال ایک سا تھا۔ لیکن فائلنگ کے معاملے میں دونوں کا فُول پروف طریقہ تھا اور منٹوں سیکنڈوں میں مطلوبہ کاغذ مل جاتا تھا۔
آزاد نے یہاں سے کسی کو دہلی میں تار بھیجا جس میں دہلی سے بمبئی کے لئے ٹکٹیں خریدنے کی ہدایات تھیں۔ اب ہم واکولا جانے والی بس کی تلاش میں تھے کہ آزاد کو ایک ریڑھی پر مٹکوں میں رکھی آئسکریم نظر آئی۔ یہ کچھ کچھ پشاوری آئسکریم طرز کی تھی۔
” یہ کھائیں گے۔ مزیدار ہوتی ہے”
آزاد نے دو آئسکریم کے پیسے دیے۔ میں منتظر تھا کا شاید کسی ڈنڈی پر لگی قلفی ملے گی یا کسی پیالے یا پلیٹ میں ؟ لیکن وہاں تو ایسی کوئی شے نظر نہ آتی تھی۔ ٹھیلے والے نے ایک بڑے چمچے سے آئسکریم نکال کر مٹکے اور اپنے درمیان رکھے پیپل کے دو بڑے پتے نکال کر آئسکریم ان پر رکھ کر ہمارے حوالے کی۔
” کوئی چمچ ملے گا؟” میں نے پوچھا تو وہ میرا منہ دیکھنے لگا۔ اس دوران آزاد کو دیکھا وہ اطمینان سے پتہ منہ کے سامنے رکھے زبان سے آئسکریم ” لبیڑ” رہے تھے۔
میں بھی شروع ہوگیا لیکن آئسکریم میری مونچھوں اور ٹھوڑی سی لپٹی لپٹی جاتی تھی۔ دوچار بار زبان مار کر میں نے ٹھیلے کے نیچے رکھے ٹوکرے میں پتہ پھینکا ہی تھا کہ ایک نو دس سالہ لونڈا نہ جانے کہاں سے وارد ہوا اور پتہ اٹھا کر چاٹنے لگا۔
” ارے رکو! میں تمہیں دوسری آئسکریم لے کر دیتا ہوں” میرے ہاتھ جیب کی طرف بڑھے ہی تھی کہ آزاد نے سختی سے میرا ہاتھ پکڑلیا۔
” ایسی غلطی بھول کر بھی نا کرنا” آزاد نے تنبیہ کی۔” تمہیں جان چھڑانا مشکل ہوجائے گا، اتنے سارے جمع ہوجائیں گے”
آزاد کی بات مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کی ہمارے آس پاس چھوٹے چھوٹے، نیکر اور بنیان اور کچھے پہنے لڑکے جمع ہونے لگے۔ آزاد نے ڈانٹ کر انہیں بھگانے کی کوشش کی لیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوتے تھے۔ میں نے تھوڑے سے پیسے ریڑھی والے کو دیکر کہا کہ ان بچوں کو آئسکریم دیدے ۔ آزاد مجھے لے کر وہاں سے ہٹ گئے۔
میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ بچے گھیرا ڈالے پتوں سے آئسکریم کھا رہے تھے اور چھین جھپٹ ہورہی تھی۔
ہم ایک ڈبل ڈیکر بس میں سوار ہوئے جس میں مرد وزن شانہ بشانہ کھڑے تھے۔ یہاں مستورات کے لئے الگ کمپارٹمنٹ کا رواج نہیں۔ میرے لئے یہ عجیب بات تھی۔ کراچی میں تو بسوں اور منی بسوں میں عورتوں کی علیحدہ نشستیں ہوتی تھیں۔ یہ اور بات ہے کہ اکثر مرد حضرات خواتین کے حصے سے بس میں داخل ہوکر مردانہ حصے میں جانے کو ترجیح دیتے۔
میں کھڑکی سے باہر دیکھتا جاتا تھا لیکن مجھے صدر بندر روڈ جیسا ہی ماحول نظر آتا تھا۔ البتہ ایک عظیم الشان قدیم عمارت کے قریب بہت سے لوگوں کو جاتے دیکھ کر میں چونکا۔
” یہ وی ٹی اسٹیشن ہے” آزاد نے بتایا۔ وکٹوریہ ٹرمینس کو بمبئی والے پیار سے وی ٹی کہتے ہیں۔ یہ یقیناً انگریز کے دور کی بنی عمارت تھی۔ یہاں زیادہ تر عمارتیں پرانی ہی تھیں۔ صرف نریمان پوائنٹ کے آس پاس شیراٹن ہوٹل کی بلند وبالا عمارت اور دوسری جدید عمارتیں نظر آتی تھیں۔
ہم سمندر پر بنے ایک پل سے گذرے تو دور چاروں طرف پانی میں گھری ایک مسجد نما عمارت نظر آئی۔
” یہ حاجی علی کی درگاہ ہے” آزاد نے بتایا۔
” لیکن یہ تو سمندر کے بیچوں بیچ ہے۔ وہاں لوگ پہنچتے کیسے ہوں گے؟”
اس وقت سمندر چڑھا ہوا ہے۔ جب لو ٹائئیڈ ہوتا ہے تو یہاں سے درگاہ تک لمبا راستہ ہے ، اس سے آتے جاتے ہیں۔
مجھے آزاد کی بات کا یقین نہیں آیا۔ یہ ایک عجوبہ لیکن خوبصورت عمارت تھی اور سمندر کے بیچوں بیچ ایک دلکش نظارہ پیش کرتی تھی۔ ہندوستان ایسے ہی عجوبوں کا ملک ہے۔ پراسرار ہندوستان، دنیا بھر کے سیاحوں کی سیاحت جسے دیکھے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔
سانتا کروز کے اگلے اسٹاپ یعنی واکولا پر ہم اتر گئے۔ ہم اپنی چھوٹی خالہ کے ہاں جارہے تھے، جن کے میاں فلم ڈائریکٹر تھے اور جن کی بیٹی اور داماد مجھے ایر پورٹ پر خوش آمدید کہنے آئے تھے۔
بچپن میں جب امی کے ساتھ یہاں آکر رہا تھا تو اس وقت کی بہت سی سہانی یادیں اس جگہ سی جڑی تھیں۔ خالہ کے چھوٹا سے لیکن صاف ستھرے اور قرینے سے سجے فلیٹ میں ہم دوپہر کی چائے کے ساتھ بھولا رام کے ہاتھ کے بنے پکوڑے کھاتے تھے، اس جیسے پکوڑوں کا ذائقہ مجھے پھر کہیں نہیں ملا۔ واکولا کی دوسری یاد ناریل کے درختوں کی پھننگ پر بیٹھے گدھ اور گلیوں میں پھرتے سؤر تھے۔
شاید یہیں کہیں پارسیوں کا وہ کنواں تھا جہاں وہ اپنے مردے چھوڑ جاتے تھے۔ گِدھوں کا یہاں مستقل قیام شاید اسی سبب تھا۔ یہاں کرسچنوں کی بڑی آبادی تھی اور سؤر بھی اسی لئےپائے جاتے تھے کہ ہندو اور مسلمان نہ سہی، عیسائی ان کے بڑے قدردان تھے۔ جو محبت ہم مسلمانوں کو گائے اور بکروں سے ہوتی ہے ویسی ہی شیفتگی عیسائیوں اور خنزیروں میں پائی جاتی ہے۔ دونوں محبتیں البتہ پیٹ میں جاکر ختم ہوجاتی ہیں۔
مجھے لگا کہ وقت بیس سال پہلے لوٹ گیا ہے۔ ہر چیز ویسی ہی تھی۔
” میں تمہیں خالہ جان کے گھر لئے چلتا ہوں” میں نے آزاد سے کہا۔
” راستہ معلوم ہے تمہیں” آزاد کو شبہ تھا۔
” چلو دیکھتے ہیں مجھے کہاں تک یاد ہے” اور میں آگے آگے چلنے لگا۔ ایک دو منزلہ فلیٹ کے سامنے آکر میں رک گیا۔ میں اپنے حساب سے صحیح جگہ پہنچا تھا لیکن میرے ذہن میں ایک نئی نکور، تازہ تازہ روغن کی ہوئی عمارت تھی اور یہاں میرے سامنے ایک کائی زدہ بلڈنگ کھڑی تھی۔ میں کچھ جھجکا۔ ۔
اچانک مجھے یاد آیا کہ خالہ کے گھر کی بالکونی سے ہم باہر دیکھتے تھے تو سڑک کے دوسری طرف ایک چھوٹے سے مکان کی ایک ہمیشہ کھلی کھڑکی کے قریب لکڑی کے بریکٹ پر سیتا میّا کی تصویر کے ساتھ دئے جل رہے ہوتے تھے اور گھر والے اس کی آرتی اتارتے نظر آتے تھے۔ میں اسی سڑک پر کھڑا تھا، بے ساختہ میں نے مڑ کر دائیں جانب دیکھا۔ وہی گھر تھا، کھڑکی اب بھی کھلی تھی اور سیتا میّا ، یا نجانے کس کی تصویر کے سامنے دیا جل رہا تھا۔ البتہ آرتی کوئی نہیں اتار رہا تھا۔ ظاہر ہے بھگوان کو یاد کرنے کے علاوہ اور بھی کام تھے۔
تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے۔۔۔۔
” یہی ہے” میں خوشی سے چلایا جیسے کبھی کوئی پکارا تھا ” یوریکا”
آزاد نے ستائشی نظروں سے مجھے دیکھا۔ اور یہ اللہ کا مجھ پر خاص کرم ہے کہ مجھے بچپن کی بہت سی باتیں اس طرح یاد ہیں جیسے کل ہی کی بات ہے۔ میری عمر کے اکثر ساتھی ان باتوں سے یوں لاعلمی ظاہر کرتے ہیں جیسے وہ میرے بہت بعد میں پیدا ہوئے ہوں اور مجھ میں کوئی بوڑھی روح سمائی ہوئی ہے۔
خالہ کے ہاں پہنچ کر نقشہ وہی تھا جو کل خالہ اماں اور خالو، اور خالد ماموں اور آج صبح ماموں صاحب سے مل کر پیش آیا تھا۔ میری یہ خالہ بڑی سبک اندام اور صفائی پسند ہوا کرتی تھیں۔ خالو نے جن کا تعلق فلم انڈسٹری سے تھا اور جو شاعری اور مصوری بھی کرتے تھے،، خالہ کو یوں ہی تو پسند نہ کیا ہوگا۔
خالو گھر پر نہیں تھے بلکہ صرف انکی سب سے چھوٹی بیٹی شاہین ہی گھر پر تھی۔ اکلوتا بیٹا ” فیض ” بھی فلم پروسیسنگ سے منسلک تھا اور اس وقت اسٹوڈیو میں تھا۔
میں جب پہلے یہاں آیا تو صرف نور اور فیض ہی تھے۔ فیض میرے چھوٹے بھائی کا ہم عمر تھا۔ شاہین اور اس سے بڑی صوفیہ بعد کی پیداوار تھے اور شاہین اپنے کراچی والے بھائی کو حیرت، اشتیاق اور محبت سے دیکھتی تھی اور جب کھانا لگا تو بڑھ بڑھ کر چیزیں میرے سامنے رکھتی۔
میں نے اپنی منگنی کی تصویروں کا چھوٹا سا البم دکھایا جو میں بطور خاص یہاں لایا تھا۔ وہ تصویریں جن میں میری وہ منگیتر تھی جسے میں نے اب تک نہیں دیکھا تھا ۔ میں نے بتایا ناں کہ اس زمانے میں رشتے ٹاس کی طرح ہوتے تھے۔
” سو سویٹ ناں؟ ” شاہین نے میری منگیتر کی تصویر دیکھ کر خالہ سے کہا۔
اور مجھے کچھ کچھ اندازہ ہورہا تھا کہ ٹاس کا سکہ کس رخ سے میرے سامنے آئے گا۔
یہاں آنے کے بعد پہلی بار مجھے گھر یاد آیا۔
(باقی باقی)
https://www.facebook.com/shakoor.pathan.94/posts/635975586589972