جس دیش میں گنگا بہتی ہے۔۔۔۔۔7
انّاساگر اور محبوب کا گھر
میرا خیال تھا کہ اجمیر "شریف” آنے کا مقصد صرف حضرت خواجہ معین الدین رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پر حاضری دینا تھا۔ لیکن اب میں نے یہ جانا کہ وہ بھی ایک وجہ تھی یہاں آنے کی لیکن اصل مقصد جو خواتین کو اورن اور بمبئی سے باہر کھینچ لایا تھا، وہ تھا ” شاپنگ” جسے ہماری زبان میں ” خریدی” کہتے ہیں۔ زیارات اور تاریخی مقامات کی سیر بھی مقصد تھی لیکن دوسرے نمبر پر۔ اوروں کے بارے میں نہیں کہہ سکتا لیکن اپنے گھر کی خواتین کے بارے میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر یہ سیاچن بھی پہنچ جائیں تو وہاں سے بھی کچھ نہ کچھ شاپنگ کرکے ہی لوٹیں گی۔
اجمیر میں ایسی کوئی چیز نہیں تھی جو بمبئی میں نہ ملتی ہو اور نہ ہی قیمتوں میں کوئی خاص فرق تھا۔ یہاں اور تو کیا ملنا تھا زیادہ تر راجھستانی اور گجراتی دستکاریوں کے نمونے یعنی خواتین کے بٹوے اور ٹوکریاں وغیرہ یا پھر بنارسی ساڑھیاں تھیں۔۔ اور ہماری خواتین یہاں سے خریداری کا معقول جواز رکھتی تھیں۔ مثلاً چاچی نے چاچا کو ایک ساٹن کا تھان دکھا کر بتایا کہ دیکھو ممبئی میں یہ پندرہ روپے میٹر ہے اور یہاں صرف چودہ روپے پچانوے پیسے ہے۔ اور چاچا کے پاس سوائے سر ہلانے کے اور کوئی گنجائش نہیں تھی۔ کسی بھی شوہر کے پاس نہیں ہوتی کہ ان معاملات میں "مستند ہوتا پے بیوی کا فرمایا ہوا”
اس بازار میں ہمارے یعنی مردوں کے مطلب کی کوئی چیز نظر نہ آتی تھی سوائے شمالی ہند کے مختلف حصوں سے آئی ہوئی نوجوان دوشیزاؤں کے۔ اور یہ سہولت بھی صرف فوزان اور مجھے ہی حاصل تھی کہ بقیہ سب تو اپنی گھر والیوں کے ساتھ تھے اور بھاؤ تاؤ کے دوران بے چینی سے پہلو بدلتے تھے کہ یہ تو پہلا پڑاؤ تھا۔ وہ اپنی جیب دیکھتے اور سوچتے کہ "آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا” ۔
میں اور فوزان آخر دیگر گھر والوں سے کٹ کر درگاہ سے متصل گلیوں کی طرف آنکلے جہاں مٹھائی کی دکانیں تھیں۔ ہم نے ایک جگہ رک کر چائے پی۔ میں نے اس آزادی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جلد از جلد دو تین سگریٹ پھونک ڈالے۔ یہاں ” پیٹھے” کی بہتات تھی۔ حالانکہ میں نے آگرہ کے "پیٹھے” کی شہرت سنی تھی۔ پیٹھا مجھے بہت پسند ہے۔ میں نے نہ صرف وہاں پیٹھا کھایا بلکہ کراچی لے جانے کے لئے بھی خرید لیا۔ فوزان کہتا ہی رہ گیا کہ تب تک یہ خراب ہوجائے گا۔ آگرے سے لیں گے تو یہ نسبتا” تازہ رہیں گے۔ جس حلوائی سے ہم نے یہ پیٹھا خریدا اس نے خواجہ غریب نواز کی قسم کھا کر کہا کہ یہ بالکل خراب نہیں ہوگا۔ اگر خراب ہو تو میں کسی وقت بھی واپس لاکر اس کے منہ پر مار سکتا ہوں۔ اسے خوب علم تھا کہ ہم بمبئی سے آئے ہیں۔ یہ حلوائی ہندو تھا بلکہ زیادہ تر حلوائی اور دوسری دکانیں مارواڑی اور سندھی ہندؤوں کی تھیں۔ شکور صاحب کے بیٹے احمد نے بتایا تھا کہ یہ ہندو دکان کھولنے سے پہلےدرگاہ شریف پر حاضری دیتے ہیں۔ ان دکانداروں کا ماننا تھا کہ خواجہ صاحب کے آشیرواد سے ان کے کاروبار میں برکت رہتی ہے۔ احمد نے یہ بھی بتایا کہ اجمیر میں کبھی ہندو مسلم فساد نہیں ہوا اور اس کی وجہ بھی خواجہ صاحب تھے۔
ہم جس ریسٹ ہاؤس میں ٹھہرے تھے اس کے استقبالیہ کے پاس لکڑی کے ایک سیاہ تختے پر ان عطیہ کنندگان کے نام تھے جنھوں نے اجمیر شریف کے یاتریوں (زائرین) کی اس قیام گاہ کے لئے دان کیا تھا اس میں پر سریندرسنگھ رندھاوا۔بھوشن کھرانہ، ہری مل پری مل، جمشید جی پالکی والا قسم کے نام بھی تھے۔ اور درگاہ شریف نہ صرف مسلمانوں بلکہ تمام دھرموں کے پیروکاروں میں یکساں محترم تھی۔
نہ صرف تجارت پیشہ ہندو بلکہ بولی ووڈ کے مسلم و غیر مسلم فنکار اور فلمساز بھی خواجہ صاحب کے عقیدتمند اور بھگت تھے۔ اکثر اپنی نئی فلم کی کامیابی کے لئے، کاشی، متھرا اور ہریدوار اور گولڈن ٹیمپل کے علاوہ خواجہ صاحب کا آشیرواد لینا بھی لازم سمجھتے تھے۔
ہم گھر واپس آئے تو خواتین بھی اپنی "خریدی” کے ساتھ لوٹ چکی تھیں اور مطمئن تھیں کہ چیزیں اچھی مل گئیں، مرد حضرات کے چہرے پر وہ بشاشت البتہ نہیں تھی۔
ہم مغرب کی نماز کے لئے درگاہ سے متصل مسجد جانے کی تیاری کررہے تھے۔ خواتین نے اعلان کردیا تھا کہ وہاں ان کا مزید کوئی کام نہیں ہے اس لئے وہ اور بچے قریبی بازار میں چھولےبٹھورے اور بھیل پوری وغیرہ کھانے چلی جائیں گی۔
” بابو بھائی آپ پینٹ شرٹ پہن لیں۔ یہ شلوار قمیص پہن کر درگاہ شریف نہ جائیں” احمد مجھ سے مخاطب تھا۔
” وہ کیوں بھئی؟”
” فقیر آپ سے چمٹ جائیں گے۔ آپ کے لئے مزار میں داخل ہونا مشکل ہوجائے گا”
” یار یہ فوزان بھی تو ہے شلوار قمیص میں”
” ان کی بات دوسری ہے”
” کیوں؟ ان کی بات دوسری کیوں ہے!’
” آپ پاکستانی پہچانے جاتے ہیں”
” یار مجھ میں اور ان میں کیا فرق ہے”
” بس آپ میری بات مانیں، پاکستانیوں کا انداز ہی کچھ الگ ہوتا ہے۔ سب پہچان لیتے ہیں۔ آپ کے کپڑوں سے، آپ کی زبان سے، آپ کے لین دین کے انداز سے” ۔
اور یہی ہوا۔
درگاہ میں داخل ہوتے ہی فقیروں کے جم غفیر نے ہمیں اپنے حصار میں لے لیا اور مسجد تک ” مشایعت’ فرمائی۔
نماز سی فارغ ہو کر ہم درگاہ کی طرف چلے کہ یہ یہاں کے "ارکان” میں شامل تھا کہ مغرب کے بعد درگاہ پر سلام پیش کیا جائے اور مقبرہ کے ساتھ بنے لکڑی کی جالی کے کونوں میں جو ستونوں پر شمعیں روشن ہیں آن کی لو میں چٹکی مسل کر آنکھوں میں ملیں۔ مجھے کراچی میں ہمارے ایک قریبی بزرگ نے ہدایت کی تھی کہ میں ان استعمال شدہ شمعوں کو حاصل کرنے کی کوشش کروں ۔ یہ نہایت متبرک ہوتی ہیں۔ اور معتقدین اس کے لئے بڑی سے بڑی قیمت دینے کو تیار رہتے ہیں۔
مزار شریف میں داخل ہوئے تو سلام پڑھا جارہا تھا۔ عقیدتمند ایک جانب سے داخل ہوتے اور طواف کے سے انداذ میں مقبرے کے چاروں جانب بڑھتے جاتے اور ہر کونے پر لگی شمع کی لو سے اپنی انگلیاں تاپ کر آنکھوں سے لگاتے۔
میں بھی مجمع کے ساتھ ساتھ آگے بڑھ رہا تھا۔ مزار کی داہنی جانب پہنچا تو ہجوم کے دباؤ کی وجہ سے جالیوں سے چپکا ہوا تھا کہ اچانک میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا، ساتھ ہی عطر کی تیز خوشبو ناک سے ٹکرائی۔ میرے سر پر کسی ہاتھ کا دباؤ محسوس ہورہا تھا اور ساتھ ہی آواز آرہی تھی” یا للّٰہ ان کے روزگار میں برکت دے، ان کی حاجات پوری کرے، ان کی دلی مرادیں برآئیں”
جب ذرا صورتحال واضح ہوئی تو سمجھ آیا کہ قبر کے ساتھ کھڑے کسی خادم نے میرا سر مزار شریف پر بچھی مخملیں چادر سے ڈھک دیا ہے۔ میں اہنی سعادت اور مرتبے پر ناز کر ہی رہا تھا کہ فرش کی جانب سے آتی روشنی میں ایک ہاتھ کے آثار نمودار ہوئے، بلکہ یوں کہئے کے ایک ہتھیلی پھیلی نظر آئی۔ میرے سر پر دباؤ بڑھ گیا۔ اب آواز آرہی تھی”مزار شریف کے لئے کوئی نذر نذرانہ، کوئی عطیہ؟ ”
میں نے جیب سے ایک نوٹ نکال کر اس پھیلی ہوئی ہتھیلی پر رکھا، سر پر سے ہاتھ کو پیچھے دھکیل کر چادر ہٹائی اور ایک جھٹکے سے مڑ کر ہجوم کے درمیان سے خارجی دروازے کی طرف تیزی سے قدم بڑھائے۔ میرا رخ دروازے کی جانب اور پیٹھ مزار کی طرف تھی۔
‘ حدادب، حد ادب۔۔۔ارے یہ کیا گستاخی ہے ؟ یہ آوازیں مجھے لتاڑ رہی تھیں لیکن میں مزار سے باہر آچکا تھا۔
میں تازہ ہوا میں لمبی لمبی سانس لے رہا تھا کہ ایک صاحب قریب آکر بولے، ” آپ نے سب کچھ گنوا دیا، درگاہ شریف میں یوں پیٹھ دکھا کر باہر نہیں آتے۔ آپ کا سارا ریاض، ساری محنت اکارت گئی ”
میرے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ میں خاموش ہی رہا۔
کچھ دیر بعد آزاد بھائی، بھائی جان ، فوزان وغیرہ بھی باہر آگئے۔ خالو ابا، چاچا اور غلام نبی بھائی جان گھر چلے گئے اور ہم نے وہیں رکنے کا ارادہ کیا۔ درگاہ کے قریب ایک ہوٹل سے کھانا کھایا۔ میں بھائی جان کے سامنے سگریٹ پی لیا کرتا تھا کہ وہ بھی سگریٹ نوشی کرتے تھے۔ آزاد اور فوزان تو کوئی مسئلہ ہی نہیں تھے۔ عشاء تک وہیں ٹہلتے رہے۔ دراصل ہمارا ارادہ عشاء کے بعد قوالی سننے کا تھا۔
مزار کے احاطے میں سنگ مرمر کے فرش پر لوگ یہاں وہاں آلتی پالتی مارے بیٹھے گپ شپ میں مصروف تھے۔ کچھ دیر بعد بارہ دری نما محرابوں میں ایک قوال پارٹی نے رنگ جمانا شروع کیا۔ وہ سازوں کو ‘ گرم” کررہے تھے۔ دس پندرہ منٹ صرف ہارمونیم اور طبلہ اور ڈھولک ہی بجتے رہے۔
آخر کار قوالی شروع ہوئی، یہ قوالی کچھ یونہی سی تھی۔ بھائ جان اور فوزان کچھ دیر تو سر مٹکاتے رہے، مجھے بالکل مزہ نہیں آرہا تھا۔ البتہ احاطے میں سرسراتی ٹھنڈی ہوا سے میری آنکھیں بند ہورہی تھیں۔ کچھ دیر بعد فوزان نے بھائ جان سے پوچھا کہ کیا ارادہ ہے۔ وہ تو جیسے منتظر تھے۔ فورا” اٹھ کھڑے ہوئے۔
ہم سب سڑک پر کھڑے رکشہ والوں سے مول تول کررہے تھے۔ کبھی کبھی سؤروں کے غول پیر کے پاس سے گذر جاتے۔ مجھے بڑی کراہیت محسوس ہوتی لیکن باقی لوگ یوں غیر متعلق نظر آتے جیسے کتے بلی یا گائے بکری پاس سے گذر رہے ہیں۔ آج سردی بھی خوب تھی۔ دراصل آج پہلا دن تھا کہ ہم اتنی صبح گھر سے نکلے تھے۔
کچھ دیر بعد ہم "اناساگر” کی سیڑھیاں چڑھ رہے تھے۔ اوپر پہنچے تو سفید پتھر کی ایک وسیع وعریض چھت پائی جس کے ایک جانب منڈیر کے ساتھ بارہ دری سی بنی ہوئی تھی۔ اب چمکیلی دھوپ نکل آئی تھی اور خنکی کا آحساس کم ہوتا جارہا تھا۔ اس چھت پر موسم بڑا ہی خوشگوار محسوس ہورہا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ یہ لمبی چوڑی چھت کس لئے ہے، اور احمد ہمیں منڈیر کی جانب لئے جارہا تھا۔ُ
” اوہ، واہ، واؤ، ” ہم سب کے منہ سے بے ساختہ آوازیں نکلیں۔ منڈیر کے نیچے جو منظر دیکھا وہ میری اب تک کی ہند یاترا کا سب سے خوش نما اور خوش کن منظر تھا۔
یہ ایک شفاف سی جھل تھی جو دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ جھیل کے پس منظر میں یہ چھت اور بارہ دری اب زیادہ خوبصورت نظر آتے تھے۔ جی چاہتا تھا کہ بس یہیں بیٹھے زندگی گذار دیں، لیکن کچھ دیر بعد محسوس ہوا کہ اس جھیل کو دیکھتے رہنے کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے۔ ہم اونچائی پر تھے اور جھیل کے پانی تک نہیں پہنچ سکتے تھے۔ کچھ خوشگوار گھڑیاں گذار کر ہم نیچے آگئے اور باہر منتظر رکشوں بیٹھنے لگے۔
” یہ محبوب کا گھر ہے” احمد نے ان ساگر کے ایک طرف ایک ٹیلے پر بنے ایک خوبصورت سے بنگلے کی طرف اشارہ کیا۔ بمبئی میں تو بنگلہ نام کی کوئی چیز نہیں دیکھی تھی۔ یہ شاید میں نے ہندوستان میں پہلا بنگلہ دیکھا تھا ۔
” کس کے محبوب کا؟” گلزار نے پوچھا۔
‘ فلم والے محبوب کا”
اب ہم بنگلے کے دروازے کے پاس سے گذر رہے تھے جس پر لگی تختی پر انگریزی اور اردو میں لکھا تھا ” محبوب کا گھر”
” فلم والا کونسا؟”
” ارے وہ جس نے مدَر انڈیا بنائی ہے’ احمد نے وضاحت کی۔
یہ فلمساز اور ہدایتکار محبوب کا بنگلہ تھا۔ وہ محبوب جس نے ہندوستان کی پہلی رنگین فلم "آن ” بنائی تھی۔ اس کے علاوہ، انداز، مدَر انڈیا، عورت ، اور نجانے کتنی ان گنت کامیاب فلمیں بنائی تھیں۔
محبوب کو خواجہ صاحب سے بڑی عقیدت تھی اور انہوں نے بمبئی کے علاوہ ایک گھر یہاں بھی بنا رکھا تھا۔ فلم انڈسسٹری سے وابستہ رہنے کے باوجود محبوب بڑے خدا ترس اور دیندار انسان تھے۔ بتایا جاتا ہے شوٹنگ کے دوران بھی وہ نماز کے وقفے میں مسجد میں نظر آتے۔ اور ہندوستان میں اور خاص طور پر بمبئی میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں تھی۔
ہم نے ایک جگہ ٹھہر کر کھانا کھایا اور گھر جاکر سفر کی تیاریوں میں جٹ گئے۔
کچھ دیر بعد ہم سب ‘جے پور ، جانے والی بس میں سوار ہو رہے تھے۔
(باقی باقی).
https://www.facebook.com/shakoor.pathan.94/posts/640678519453012